فاضل گلزار
محبوبنا و محبوب العالم جناب شیخ حمزہ مخدومی محبوبی کشمیریؓ کا شمار وادیِ گلپوش مسکنِ اولیاء کشمیر کی اُن ہستیوں میں شمار ہوتا ہے جن کے تجرِ علمی، کمالات و ظاہری و باطنی سے پورا کشمیر معطر و منور ہے۔ آپ کو سلطان العاررفین، سلطان الاولیاء، سلطانِ کشمیر و مخدومِ کشمیر جیسے معزز القابات سے یاد کیا جاتا ہے جو ان کے کمالاتِ دینی و دنیاوی کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔ آپ سلطان محمد شاہ کے دورِ حکومت میں ۹۰۰ء سنہ ہجری بمقام تجر شریف سوپور میں پیدا ہوئے۔ مادر زاد ولی ہونے کے ناطے آپ بچپن ہی سے راہِ خدا کی طرف مائل و گامزن تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیمِ قران حضرت بابا فتح اللہ سے حاصل کئی اور بعد میں دیارِ کوہِ ماران میں واقعہ دار الشفاء میں داخلہ لیا جہاں آپ نے بابا فتح اللہ آخوند مُلّا درویش اور شیخ لطف اللہ سے علومِ اسلامیہ جس میں تفسیر، حدیث، فقہ، ادب، منطق، فلسفہ، عربی، فارسی وغیرہ میں مہارتِ کاملہ حاصل کئی۔ آپ کی مجددانہ بصیرت اور تجدیدی کارناموں کی وجہ سے کشمیر میں دینِ اسلام کا بول بالا ہوگیا اور کثیر تعداد کے گمشدگان نے آپ کے وسیلے سے اللہ کی راہ میں قدم جما لیا۔ حضرت محبوب العالمؒ کا مقام و مرتبہ اتنا وسیع تھا کہ وقت کے روسیا، علماء، فضلا و حکماء آپ کی جانب رجوع فرمایا کرتے تھے۔ انہیں اہلِ علم و قلم میںآپ کے خلیفہ خاص حضرت بابا داؤد خاکی ؒ کا اسمِ مبارک سرِفہرست ہے۔ حضرت بابا داؤد خاکی اپنے وقت کے شیخ الاسلام اور منصبِ قاضی القضاء پر فائز تھے۔ لیکن جب آنجناب محبوب العالمؒ کی نگاہِ کیمیاء پڑی تو لباسِ فخر کو چھوڑ کر لباسِ فقر اوڑھ لیا۔ چونکہ عالمِ دہر ہونے کے ناطے آپ نے وقت کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مختلف تصانیف یادگار چھوڑے ہیں جو آج بھی مشعلِ راہ کا کام دیتی ہیں۔ ان ہی علمِ وراثت میں آپ کا قصیدہ مبارک بنام ورد المریدین ایک منفرد مقام رکھتا ہیں۔ آپ نے یہ قصیدہ اپنے پیر و مرشد، ہادی و رہنماء جناب محبوب العالمؓ کی شان میں اس طرح قلمبند کیا ہے کہ فارسی ادب کے شاہکاروں میں اپنا سکّہ بٹھا لیا ہے۔ اور آج تک اسکی انفرادی حیثیت برقرار ہے اور اکثر یہاں کے بزرگوں، ختم خوانوں اور محبانِ اولیاء کو بر زدِ زبان ہے۔ اس قصیدہ میں حضرت بابا داؤد خاکی نے سلطان العارفین شیخ حمزہ مخدومؒ کے کمالات، وعظ و نصیحت، ارشاد و عنایت، کرامت و سخاوت وغیرہ کو علمی رنگ میں ڈال کر ہدیہ قارئین پش کیا ہے۔
جناب شیخ حمزہ مخدومی سے نسبت و بیعت کو حضرت بابا داؤد خاکی ابتدائی قصیدہ میں اپنے درست احوال سے تعبیر فرماتے ہیں اور اس پر شکرانہ ادا کرتے ہیں کہ جب سے محبوب العالمؒ جو کُل مشائخِ زمانہ کا شیخ ہے نے میری رہبری فرمائی تب سے میرے احوال کا ایک ایک حال بہتر سے بہتر ہوتا جارہا ہے۔ چناچہ آپ ارشاد فرماتے ہیں:
شکر للہ حالِ من ہر لحظہ نیکوتر شد است
شیخِ شیخاں شیخ حمزہ تا مرا رہبر شد است
آگے ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے پیر کے اسمِ مبارک کو آقا کریم ﷺ کے چچا جناب ــ’’حمزہ‘‘ کے نام کے ساتھ مناسبت ہے۔ جس طرح اُن کی بہادری شیر کی طرح مشہور تھی اُسی طرح میرے پیر حضرت شیخ حمزہ جہادِ نفس میں شیر کی طرح پہلوان ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ جناب محبوب العالم ؒ پر اللہ کی جانب سے ایسے علم کے خزانے عطا ہوئے کہ آپ شریعت و طریقت کو جِلا دینے والے ہوگئے۔ آپ کو اللہ کی جانب سے علمِ لدنی بھی عطا ہوا تھا اور آپ کا سینہ مبارک اسرارِ الٰہی سے ایسے بھر گیا کہ آپ اپنے مریدوں کو پیش آنے والے مشکلات و مسائل، آفات و خطرات کی تشریح نہایت سہل آسان انداز میں فرمایا کرتے تھے کیونکہ آنجناب نے اس راہ کے سارے جملہ منازل پہلے ہی طے کئے تھے۔
چوں خدا علمِ لدنی کرد تعلیمش زِ مہر
بہرِ اسرارِ الہٰی عالمِ امہر شد است
ان اسرارِ الٰہیہ میں خواصِ قران اور رموزاتِ قران بھی شامل ہیں جس پر جناب محبوب العالمؒ مطلع تھے، چناچہ آپ قران مجید کے ظاہری و باطنی معنوں کو اچھی طرح جانتے تھے۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ
روشنش انوارِ قران گشت و ہم اسرارِ آن
ہم خواصش دید وہم الفاظ ہاش از بر شد است
جناب بابا داؤد خاکیؒ اپنے پیر و مرشد محبوب العالمؒ کے کمالاتِ علمِ شریعت و واقفِ اسرارِ طریقت کو مشاہدہ کر کے یہ فرما تے ہیں کہ آپ یعنی محبوب العالم جناب شیخ حمزہ مخدومؒ شریعت کے مددگار اور ناصر تو ہے ہی کہ آپ سے علمِ شریعت کو فروغ ملا مگر طریقت میں آپ کا مقام ایک مجتہد کی حیثیت رکھتا ہے وہ اسلئیے کہ اسرارِ حقیقت کے صدر اور مصدر آپ کی ذاتِ گرامی ہے۔ چناچہ آپ ارشاد فرماتے ہیں:
او شریعت راست ناصر در طریقت مجتہد
بہرِ اسرارِ حقیقت صدرِ او مصدر شد است
جناب محبوب العالمؒ عبادتِ الٰہی اور ریاضت میں اس قدر بلندی کو پہنچ گئے تھے کہ آپ کو علم کے تیسرے درجے مقامِ حق الیقین کا مشاہدہ جاری تھا۔ آپ کے عبادت و ریاضت کا یہ عالم تھا کہ سالہا سال تک آپ نے اپنا پہلو مبارک زمین پر رکھا ہی نہیں اور ایسا مقام و مرتبہ آپ نے اس قدر عبادت اور شب خوانی سے حاصل کیا۔خدا کی قربت کے حصول میںآپؒ کی روحِ پُرفتوح کا مقام مبارک عرشِ الٰہی ہے کیونکہ آپ کی روح اسی قربت کیلئے بیقرار اور شوق میں ڈوبی ہوئی رہتی تھی۔
بودِ مرغِ روحِ او را منظرِ عرشِ آشیاں
پس بدنیا بیقرار از شوقِ آں منظر شد است
چناچہ اسی شوق کے نتیجے میں جناب محبوب العالمؒ راہِ طریقت کے شہباز بن کر آپ نے عالمِ ملکوت و جبروت و لاہوت کے منازل طے کئے اور انواراتِ الٰہی کے دیدار سے مشرف ہوئے۔ بابا داؤد خاکیؒ فرماتے ہیں:
سیر کردہ عالمِ ملکوت را جبروت ہم
باز در لاہوت مرغِ جانِ او ایسر شد است
آپ یعنی جناب محبوب العالمؒ ہر لحظہ و آن اپنی سانس مبارک کا بھی خیال رکھتے تھے اور بغیرِ یادِ الٰہی ایک سانس مبارک کو بھی فوت نہ فرباتے تھے۔ چناچہ خلوت و جلوت میں آپ کی ہر سانس مبارک یادِ خدا میں گزرتی تھی اور اس سانس کی نگہبانی میں آپ کو مقامِ شہود حاصل تھا کیونکہ آپ کی باطنی آنکھ مبارک ہمیشہ بینا ہی رہی ہے۔ آپ ظاہر میں مخلوق کے ساتھ کلام و سلام فرمایا کرتے تھے لیکن آپ کا باطن سرِ وحدت میں غوطہ زن رہا کرتا تھا۔
عارفِ است و کاین و باین زِ سرِ وحدتش
نیست مانع صورتِ چیزی کہ متکثر شد است
حضرت علّامہ بابا داؤد خاکیؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو بھی محبوب العالمؒ کے دربار میں آیا کرتا تھا اس کو جمیعت حاصل ہوتی تھی اور جو کوئی بھی تائب ہو کر آنجناب سے بیعت ہوجاتا تو حضرت محبوب العالمؒ اسکے لئے دیوارِ ذولقرنین کی طرح ثابت ثابت ہوتے جس کو پھر کوئی گرا نہیں سکتا تھا۔ لیکن اتنے کمالات ہونے کے باوجود حضرت محبوب العالمؒ نے ہمیشہ گمنامی ہی پسند کئی اور بقاء کے باوجود فناء کے طالب تھے۔ چونکہ حضرت محبوب العالمؒ نے کشمیر میں دینِ اسلام کی نصرت و حمایت اُس نازک وقت میں کئی جب دینِ اسلام کو طرح طرح کے مسائل سے اُلجھنا پڑا۔ حضرت محبوب العالمؒ کی عارفانہ زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی عالمانہ اور مجاہدانہ زندگی بھی تھی جس میں وہ دین کے خلاف جب بھی کوئی امر واقع ہوا تو اس کی جڑ کاٹنے پر ننگی تلوار لے کر نکلے اگرچہ اُن پر صفاتِ باری تعالٰی کے صفتوں میں سے صفتِ کریمی کا رنگ غالب تھا کہ وہ ہر کسی کے ساتھ کرم و شفقت سے پیش آتے تھے جیسا کہ بابا داؤد خاکی ارشاد فرماتے ہیں:
ہم تجلی کردہ بر وے حق بہ اسمِ الکریم
زین سبب مشفق بحالِ مخلص و چاکر شد است
لیکن کبر رکھنے والوں، بدعتیوںکیلئے آنجناب محبوب العالمؒ بہت زیادہ سخت تھے اگرچہ جناب محبوب العالمؒ اہلِ درد و شوق کیلئے شکر سے بھی زیادہ شیریں تر تھے،۔ آپ فرماتے ہیں:
سخت و تلخ از بہرِ اہلِ کبر و عجب ع بدعتست
اہلِ درد و شوق را شیریں تر از شکر شد است
حضرت محبوب العالمؒ کا ذکرِ خیر کا پورا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ آپ کی ہستی وہ مبارک ہے کہ جس کے دیدار کے مشتاق نہ صرف انسان تھے بلکہ جنیات سمیت ہر غیر ذوی العقول بھی بیتاب رہتے تھے۔ اس ضمن میں ورد المریدین میں ایک واقعہ حضرت بابا داؤد خاکیؒ اس طرح نقل فرماتے ہیں کہ
کرد مارے جان فدایِ دولتِ دیدارِ او
چو مشرف ز قدو مش قریہ کُنیر شد است
اس لئے آنجناب محبوب العالمؒ کے جملہ آثار و مراتب کو بیان کرنا مشکل ہے کہ خود ان کے خلیفہ بابا داؤد خاکیؒ کو پورا قصیدہ ورد المریدین لکھنے کے باوجود یہ لکھنا پڑا کہ
چند تاثیری نوشتم ایں تجلیاتِ را
گرچہ جُزئیات ہر یک فوق ما یُسطر شد است
یعنی میں نے حضرت محبوب العالمؒ کے جملہ تجلیات سے چند ایک کی نشاہندی کئی اور جو باقی ہے وہ کہنے سے بھی بالا تر ہیں کہ اُن کو زیرِ تحریر لانا مشکل ہے ۔ اور پھر میری کیا مجال کہ آنجناب سلطان العارفین جناب شیخ حمزہ مخدومی ؓ کے بارے میں لب کشائی کا حق ادا کر سکوں۔ آخر میں یہ لکھنے سے ناتواں بس اس قدر ہی کہہ سکتا ہے کہ
نوشت خاکی ورد المریدین در مدحِ سلطان
فاضل چہ خواہد گفت کیا نا اہل و کمتر شد است
(مضمون نگار پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر،کشمیر یونیورسٹی ہیں)
فون نمبر۔9086545702
ای میل۔[email protected]