عظیم انصاری
مغربی بنگال کے شعری و ادبی منظرنامے میں عیسیٰ رشک کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔ موصوف جہاں قطعاتِ تاریخ کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں، وہیں ان کی ناقدانہ بصیرت کی وجہ سے بھی انھیں احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ موصوف تقریبا پانچ دہائیوں سے اردو زبان و ادب کی خدمت کررہے ہیں۔ وہ ایک سنجیدہ، ذہین اور صاحبِ طرز تخلیق کار ہیں۔ شاعری اور نثرنگاری دونوں میں یکساں صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ کم لکھتے ہیں لیکن جو بھی لکھتے ہیں، اس سے وہ ذی فہم اور سنجیدہ قارئین کو متوجہ کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ ان کی کاوشیں اخبارات و رسائل کے ذریعہ نظروں سے گزرتی رہتی ہیں۔ یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ وہ ان دنوں اپنی تخلیقی کاوشوں کو کتابی شکل دینے میں مصروف ہیں جو شعر و ادب کی دنیا کے لیے ایک نیک فال ہے۔ وہ 2022 میں قطعات تاریخ کا دیوان ” دیوانِ رشک ” منظر عام پر لائے جسے ادبی حلقوں میں کافی سراہا گیا۔ اب وہ تاثراتی، تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ” مضامینِ رشک” لے کر بزمِ سخنوراں میں حاضر ہوئے ہیں اور مجھے کامل یقین ہے کہ اس کتاب کی بھی کافی پذیرائی ہوگی اور وہ اپنی ادبی شناخت کو مزید مستحکم کرنے میں یقیناً کامیاب ہوں گے۔ اردو شعر و ادب کے منظرنامے پر جب ہم نظر دوڑاتے ہیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ کسی شاعر یا ادیب کے فن کے کسی ایک گوشے کو زیادہ سراہا گیا اور دوسرا گوشہ گمنامی کی نذر ہوگیا ۔ میرے خیال سے عیسیٰ رشک ایک اچھے شاعر بھی ہیں اور ایک اچھے نثار بھی۔ بہرحال میری ذاتی رائے سے ناقدینِ ادب کہاں تک اتفاق کریں گے، اس کا انحصار ان پر ہے۔
”مضامین رشک ” تاثراتی، تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس میں کل سولہ (16) مضامین ہیں جو ان کی تنقیدی بصیرت کا عمدہ نمونہ ہے ۔ ان کے تنقیدی اظہار میں میں غضب کی ہنرمندی اور رچاؤ ہے۔ وہ جو بات کہتے ہیں اس کا جواز بھی رکھتے ہیں۔ تنقید برائے تنقید نہیں کرتے۔ تنقید کا یہی متوازن رویہ ان کی ادبی شخصیت کو محترم کرتی ہے۔اپنے پہلے مضمون ” قصیدہ نگاری اور مائل لکھنوی ” میں فاضل مصنف نے لکھا ہے کہ جب قصیدے کا چراغ ٹمٹمانے لگا تھا اس وقت مائل لکھنوی نے قصیدہ گوئی کے ماحول کو مٹیا برج میں ازسرِ نو سازگار بنایا اور نہ صرف قصیدے کے رواج کو برقرار رکھا بلکہ اردو شعر و شاعری کے چمن کو بھی سرسبز و شاداب کیا۔ کیف الاثر اور ظفر شمیم جیسی شخصیات نے ان کی وراثت کو مزید جلا بخشی۔ اور آج مٹیا برج میں قصیدہ لکھنے والوں کی جو نئی نسل ہے وہ انھیں کے دم سے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک جامع اور مبسوط مقالہ ہے۔ دوسرا مضمون ” ثانی لکھنؤ کا روشن چراغ کیف الاثر” ہے۔ اس مضمون میں عیسیٰ رشک نے کیف الاثر کی ابتدائی زندگی، معاصرین اور شاگردان کا ذکرِ خاص کیا ہے اور بڑے سلیقے سے ان کی شاعری کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ مثال کے طور پر یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔’’ ان کی شاعری میں روایتی شاعری کے ساتھ ترقی پسند شاعری کا بھی لطف ملتا ہے گویا کیف الاثر صاحب درمیانی کڑی ہیں۔ ان کی شاعری میں بلا کی سحر البیانی، سلاست، روانی فصاحت و بلاغت اور غضب کی چاشنی پائی جاتی ہے۔ ‘‘تیسرا مضمون ” مٹیا برج کا نوجوان شاعر۔ خالد قمر: ایک تعارف ” ہے۔خالد قمر کے متعلق فاضل مصنف کا کہنا ہے کہ’’اس کے کلام سے علامہ اقبال کا اثر نمایاں طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ یہ نوجوان شاعر اگر اسی طرح اقبال کے اندازِ بیاں کا تتبع کرتا رہا تو ایک دن ایسا بھی آئے کا کہ زمانہ اسے بے ساختہ ” اقبالِ دوراں ” کے لقب سے نوازے گا‘‘۔چوتھا مضمون’’ ڈاکٹر کمال الدین کمال: ایک تعارف ‘‘ ہے۔ اس مضمون میں فاضل مصنف نے ڈاکٹر کمال الدین کمال کی پانچ کتابوں کا ذکر کیا ہے جس میں سے تین کا موضوع قصیدہ نگاری ہے اور باقی دو کتابیں انشائیہ اور تنقید پر مبنی ہیں۔ان کی تخلیقی سرگرمی ابھی بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی پی۔ایچ۔ ڈی تحقیقی مقالے اپنی نگرانی میں مکمل کرائے ہیں۔ فاضل مصنف کو یقیں ہے کہ ڈاکٹر کمال الدین کمال کی ادبی کاوشیں اور سرگرمیاں انھیں ممتاز و منفرد مقام عطا کرے گی۔ پانچواں مضمون ” حضرت مولانا محمد سلیم۔ مصلح قوم ” ہے ۔ اس میں فاضل مضمون نگار نے لکھا ہے کہ’’ وہ اپنے دور کے بہترین خطیب اور کامیاب مصلح قوم تھے۔ آپ خواہ کسی بڑی محفل میں تقریر کررہے ہوں یا عام لوگوں کی صحبت میں محوِ گفتگو ہوں ہر ایک مقام پہ نگاہ اصلاح پر ہوتی۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ مولانا عوام الناس میں اس قدر ہردلعزیز تھے کہ ایک مخیر شخص نے آپ کے نام پر مدرسہ اور اسکول کے لیے اپنی زمین وقف کردی۔‘‘ چھٹا مضمون’’ صدائے دل۔ ایک نظر‘‘ ہے۔ اس میں فیض احمد شعلہ کی غزلوں کا مجموعہ’’صدائے دل‘‘ بڑی کارآمد اور تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ ان کی نظر میں اس مجموعے میں ڈھیر ساری خوبیاں ہیں۔ زبان و بیان سیدھا سادہ اور پر تاثیر ہے۔ الفاظ عام فہم ہیں۔ دقیق الفاظ سے یکسر پرہیز کیا گیا ہے۔ کلام میں جابجا روانی کی چاشنی ہے۔ فصاحت و بلاغت کا بھی عنصر ہے۔ آگے چل کر انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ” صدائے دل” میں کچھ ایسے مقام آئے ہیں جہاں کچھ خامیاں ہیں اور جن کی انھوں نے سلیقے سے نشاندہی کی ہے اور آخر میں یہ کہا ہے کہ ان عیبوں کی وجہ سے خوبیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مذکورہ کتاب کا ساتواں مضمون ’’ انیس عظیم آبادی کی رباعیات کا مجموعہ’’ پتا پتا بوٹا بوٹا‘‘۔ ایک مطالعہ‘‘ ہے ۔ اس میں فاضل مصنف نے یہ لکھا ہے کہ انیس عظیم آبادی کی خوبی یہ ہے کہ وہ سیدھے سادے انداز میں مروجہ الفاظ کو اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں اور عوام و خواص کے مزاج کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ نامانوس اور ثقیل الفاظ سے پرہیز کرتے ہیں۔ بیان میں روانی اور خیالات میں بلند پروازی بھی ہے ۔د لیل کے طور پر کئی رباعیاں بھی پیش کی ہیں۔اور جہاں کہیں بھی فنی خامیاں در آئی ہیں ان پر بے لاگ تبصرہ بھی کیا ہے ۔ مضمون سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مضمون نگار کی صنف رباعی پر گرفت کتنی سخت ہے۔ آٹھواں مضمون’’ دریچہ 2011 پر ایک نظر‘‘ ہے جس میں انھوں نے انیس عظیم آبادی، طالب درویشی، فیض احمد شعلہ، ممتاز انور، اختر عظیم آبادی، ثمر بلیاوی، احمد کمال حشمی، ہمدم نعمانی، بدر الحسن بدر، شرر راستی، نعیم پوشیدہ اور ارشد جمال کے کلام کا تجزیہ کیا ہے اور جہاں کہیں بھی فنی خامیاں نظر آئی ہیں،اس کی نشاندہی بھی کی ہیں جو ان کی ناقدانہ صلاحیت کی بین ثبوت ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عیسیٰ رشک کو علم عروض پر مکمل دسترس ہے۔
زیر نظر کتاب کا نواں مضمون’’ یارانِ نکتہ فہم کے لیے‘‘ ہے۔ فاضل مصنف نے فیض احمد شعلہ کا مضمون بعنوان’’ یارانِ نکتہ داں‘‘ جو اخبار مشرق میں 3جولائی 2011 میں شائع ہؤا تھا، اس کا مدلل جواب دیا ہے۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ دونوں ہی حضرات عروض پر اچھی گرفت رکھتے ہیں بلکہ فیض احمد شعلہ کی عروض پر ایک کتاب بھی ہے۔ اس مضمون میں بھی عیسیٰ رشک کی تنقیدی صلاحیت دیکھنے لائق ہے۔ یہاں بھی انھوں نے تنقید کو متوازن رکھا ہے۔دسواں مضمون ” دھوپ کا رنگ” کی روشنی میں چند باتیں ” ہے۔ اس میں ممتاز انور کی شاعری کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ عیسیٰ رشک کے مطابق ممتاز انور اپنے ہم عصروں میں منفرد اور ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ ان کے اشعار میں روایتی اور جدید لب و لہجے کا امتزاج ہے۔ الفاظ سیدھے سادے اور سلیس ہوتے ہیں مگر فکر میں پرواز ہوتی ہے۔ انھوں نے نظمیں بھی کہیں ہیں اور تقریبا ہر نظم میں تسلسل اور روانی ہے۔گیارہواں مضمون ” رباعیاتِ آسی: ایک عروضی مطالعہ” ہے جس میں فاضل مصنف نے عبدالعلیم آسی کی رباعیوں کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ ان کی رباعیاں پیش کرکے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ اس صنف میں ماہر تھے اور بحروں پر ان کی گرفت سخت تھی۔ بہرحال جہاں کہیں خامیاں در آئی ہیں ان پر بے لاگ تبصرہ بھی کیا ہے۔بارہواں مضمون ” رباعیاتِ پرویز شاہدی: ایک عروضی مطالعہ” ہے۔ پرویز شاہدی جیسے اہم شاعر کی رباعیات پر عیسیٰ رشک نے شاندار اور بھرپور تبصرہ کیا ہے ۔ یہاں ان کی تنقیدی شعور پورے شباب پر ہے لیکن انھوں نے اپنی تنقید کا لہجہ متوازن رکھا ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں،’’رباعیات پرویز شاہدی‘‘کے مطالعے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اس کتاب کو عجلت میں شائع کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کتاب کی پروف ریڈنگ بہتر طور پر نہیں کی جاسکی ہے یا اس کتاب کی پروف ریڈنگ بہتر طور پر نہیں کرائی گئی ہے۔ طباعت کی غلطیوں کی وجہ سے پرویز شاہدی جیسے بڑے شاعر کی رباعیوں میں خامیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ مجموعی طور پر عیسیٰ رشک کا یہ مضمون نہایت جامع اور پر از معلومات ہے۔ کتاب کا تیرہواں مضمون ” کلامِ سالک پر ایک نظر” ہے۔ اس مضمون میں عیسیٰ رشک نے سالک لکھنوی کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ’’عموماً ایسا ہوتا ہے کہ شعراء حضرات اپنے کلام میں وزن، رعب و دبدبہ پیدا کرنے کے لیے مختلف صنعتوں، محاوروں یا ضرب الامثال کا سہارا لیتے ہیں مگر سالک لکھنوی نے ایسا کرنے سے احتراز کیا ہے۔ ان کی غزلوں میں جابجا لکھنوی نزاکت پائی جاتی ہے۔ ” آگے چل کر انھوں نے کچھ خامیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔اس سلسلے کا چودھواں مضمون ” علقمہ شبلی کے مجموعہ ” زادِ سفر ” پر ایک عروضی نظر ” ہے۔ اس میں مصنف نے یہ بتایا ہے کہ اس میں رباعیات کی تعداد بانوے (92) ہے جن میں چھیالیس رباعیات حمدیہ ہیں اور باقی چھیالیس نعتیہ ہیں۔ اس مجموعے علقمہ شبلی نے چوبیس بحروں سے صرف چار بحروں کا ہی استعمال کیا ہے۔ ان کی شاعرانہ خوبیوں کی تعریف کرتے ہوئے عیسیٰ رشک نے کچھ فنی خامیوں کی نشاندہی مخلصانہ انداز میں کیا ہے۔پندرہواں مضمون ” ممتاز انور” ہے جس میں عیسیٰ رشک نے ممتاز انور کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ ان کی ادبی زندگی کا آغاز نثر نگاری سے ہوا اور یہ سفر منی کہانیوں، افسانوں تک محدود نہیں رہا بلکہ کئی ایک ڈرامے بھی لکھے جنھیں کامیابی کے ساتھ اسٹیج بھی کیا گیا۔ آگے چل کر موصوف نے لکھا ہے کہ ممتاز انور کا نثرنگاری کے ساتھ شعر گوئی کا بھی سلسلہ دراز ہے ۔ پہلا شعری مجموعہ 1997میں شائع ہوا۔ آخری مضمون ” حضرت اسی کے کلام پر اجمالی نظر ” ہے۔ اس مضمون میں عیسیٰ رشک نے یہ بتایا ہے کہ حضرت اسی ولی کامل اور شاعر باکمال تھے۔ انھوں نے اپنے کلام میں ثقیل اور نامانوس الفاظ کے استعمال سے پرہیز کیا ہے۔ ان کے کلام کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ بیشتر کلام میں سادگی پائی جاتی ہے۔ الفاظ سیدھے سادے ہوتے ہیں اور اندازِ بیان سہل اور سلیس ہوتا ہے۔ ان کا پورا دیوان صوفیانہ و عارفانہ ہے۔
المختصر یہ کہ عیسیٰ رشک کی مذکورہ کتاب میں شامل مضامین سے ان کی محنت ‘ لگن اور عرق ریزی جھلکتی ہے۔ زبان و ادب کے حوالے سے ان کا مطالعہ وسیع ہے، ادبی منظر نامے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ جہاں تک تحقیق کا سوال ہے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ تنقید کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تنقیدی شعور ہی تحقیقی کام کو زیادہ بامعنی بناتا ہے۔ جہاں تک تنقیدی شعور کا تعلق ہے تو یہ کسی نہ کسی تناسب سے ہر ذی فہم لکھنے والے میں ہوتا ہے۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ اگر یہ شعور کسی تخلیق کار کی تخلیقات سے ہم آہنگ نہ ہو تو وہ بات پیدا نہیں ہوپاتی ہے جو ایک اچھے ناقد کی پہچان ہوا کرتی ہے۔ عیسیٰ رشک ان تمام کوائف سے واقف ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ ان کے مضامین میں بھرپور تنقید کا لطف ملتا ہے۔ دراصل بے لاگ تبصرہ کے لیے تنقید کی بنیادی تقاضوں کے علاوہ مہذبانہ جسارت کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ خوبی عیسیٰ رشک کے یہاں بدرج? اتم موجود ہے۔ تنقید ذہنی یکسوئی کے ساتھ محتاط اندازِ بیان کی متقاضی ہے،ورنہ تنقیدی بصیرت کی مناسب پذیرائی نہیں ہوسکتی۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ متذکرہ تمام خوبیاں بہت حد تک ان کے یہاں بدرجہ اتم موجود ہیں اور ان خوبیوں کو اگر وہ مزید آبدار کرلیں تو ان کا ادبی قد بحیثیت نقاد اور بلند ہوگا۔ مجموعی طور پر’’مضامین رشک‘‘ ایک قابلِ قدر تصنیف ہے جو قارئین کے لیے غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ کامل یقین ہے کہ اس کتاب کی ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوگی۔
رابطہ نمبر 9163194776
khatabalamshaz97@@gmail.com