وادیٔ کشمیر کے معروف قلم کار‘ادیب اور اقبال شناس پروفیسر بشیر احمدنحوی صاحب اپنے ایک قلم برداشتہ مضمون بعنوان’’فارسی شیرین زبان‘‘ میںیوں رقم طراز ہیں کہ :’’اس بات پر ماہرین لسانیات میں سے اکثریت کا اتفاق ہے کہ دنیا میں جو زبانیں بولی جاتی ہیں‘ ان میں لسانی حلاوت‘ رنگ و آہنگ کی شیرنی اور فنی محاسن کے اعتبار سے زبان فارسی سہل الفہم ‘ سلیس سادہ او رملائم زبان ہے ‘مغلق الفاظ‘ پیچیدہ تراکیب‘ ثقیل محاورات سے آزاد فارسی اس دیس میںجنم لے چکی ہے ۔جسے ایران کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اپنے ابتدائی ایام سے ہی فارسی علم و آگہی‘ فصاحت و بلاغت‘نکتہ آفرینی اور سب سے بڑھ کر اخلاق آدمیت کا ترجما ن بھی او ربڑھ چڑھ کر علم بردار بھی رہی ہے‘‘۔(بحوالۂ سرحدِ ادراک)
ایران کے علاوہ یہ شیرین زبان وسطِ اشیاء کے کئی اور بھی ممالک میں بولی او رلکھی جاتی ہے۔ہماری وادیٔ مینو نظیر میں بھی اس عظیم زبان کا بول بالا رہاہے او ر خود مختار سلاطین کشمیر کے پُر شکوہ دور میں یہ زبان یہاں کی سرکاری زبان رہی ہے ۔ اس پُر حلاوت زبان نے سرزمین کشمیر میں بہت سارے شعرائے کرام اور سخنور پیدا کیے ہیں۔ان قادر الکلام بزرگوں او رشعراء میں حضرت شیخ یعقوب صرفی المعروف ایشان صاحبؒ اور غنی کشمیری قابل فخر ہیں کہ جنوں نے ادبیاتِ فارسی میں گنج ہائے گرانمایہ اپنے پیچھے چھوڑے ہیں۔دراصل تاریخ فارسی ادب کے حوالہ سے کشمیر کی علمی اورادبی تاریخ بہت ہی روشن رہی ہے اور اس پر وقتاً فوقتاً مورخین نے تواریخی دستاویزات منصہ شہود پر لائی ہیں۔اردو زبان کے بلند قامت شاعر مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کو اپنی اردو زبان کے بجائے فارسی زبان پر ہی فخر او رناز تھا اس لیے انہوں نے کہا تھا ۔؎
فارسی بین تابہ بینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگذر از مجموعۂ اردو کہ بے رنگِ من است
درج بالا تمہیدی کلمات کے بعد راقم الحروف اپنے قارئین کی توجہ ترجمہ کاری کے حوالہ سے زیر تبصرہ کتاب تحفۂ علمدار کشمیر کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہے ۔یہ احسن کام وادی کشمیرکے معروف شاعر جناب اسد اللہ اسدؔ نے سر انجام دیا ہے۔اسد اللہ اسدؔ سرینگر سے دور قصبۂ چاڈورہ (ژوڈُر) میں سکونت پذیر ہیں۔آپ نے اردو میں بھی کئی کتابیں تصنیف کی ہیں او رترجمہ کاری میں سکھوں کی مذہبی کتاب جَپ جی صاحب کا بھی منظوم ترجمہ کیاہے۔
شیخ العالم حضرت شیخ نور الدین ریشی کشمیر کے بلند پایہ او رباکمال اولیاء کرام میں سے ہیں جن کی مرقد مبارک چرار شریف میںواقع ہے ۔آپ کا آستانہ مرجعٔ خاص وعام ہے او رعقیدت مند حضرات اس آستانہ پر ادب اور احترام کے ساتھ حاضری دے کر ان کے توسل سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں۔شیخ العالمؒ ریشی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کے بہت سارے خلفاء تھے۔
آپ کی ساری زندگی عبادت او رریا ضت میں گذری ہے ۔ دنیاوی زندگی پرآپ نے اُخروی زندگی کو ترجیح دی ہے۔پرہیز گاری‘ صبر و قناعت اور نفس کشی آپ کی بامقصد زندگی کا طرۂ امتیاز تھا ۔خلوت پسندی اور غار نشینی کی ریاضتوں سے حضرت شیخ نے نفس امارہ کی سرکشی کو زیر کرکے رضا ئے مولا کی حصول یابی میںکامیابی حاصل کی تھی۔آپ نے اپنے خلفاء والدہ محترمہ اوریہاں کے بود و باش کرنے والے لوگوں سے اپنی منظوم شاعری کے پیرائے میں خدا ترسی‘ پرہیز گاری اور عقبیٰ طلبی کا در س دیا تھا۔ آپ کی ساری شعر و شاعری قرآن وحدیث کی تعلیمات پر مشتمل ہے۔ عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حب خلفائے راشدین و اولیائے کاملین سے آپ کا منظوم کلام مزین ہے او رآپ کا کلام دنیا کی بے ثباتی کا در س دیتا ہے ۔آپ کے کلام کو وادیٔ کشمیر میں ’’کاشُر قرآن‘‘ یعنی قرآن بزبان کشمیری کے نام سے جانا جاتاہے۔ اکثر وبیشتر او رایام متبرکہ کے موقعوں پر یہاں کی مساجد او رخانقاہوں میں تبرکا او ربطور دلیل واعظین کرام او رمبلغین کی طرف سے یہ کلام دل نشین گوش گذار کیاجاتاہے۔ اسی پُر حکمت‘زود اثر او روعظ و نصیحت سے لبریز حضرت شیخ کے دلنشین کلام کو کشمیری سے فارسی میں منتقل کرنے کی سعادت ہمارے ہم وطن او ردینی برادر شاعر گرامی جناب اسد اللہ اسدؔ کے حصے میں آئی ہے ۔؎
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
اگرچہ ہمارے اس روحانی مرشد کامل حضرت شیخ نور الدین ریشی کے کلام کو وادی کے اور بھی کئی شعراء کرام نے اردو کے منظوم انداز میں ترجمہ کرکے اپنے نامۂ اعمال میں بہت ساری نیکیوں اور سعادت مندیوں کااضافہ کیاہے جن میں پروفیسر غلام محمد شادؔ مرحوم کانام لینا ناگزیر ہے جنہوں نے کشمیر کے اس ولیٔ کامل کے تین سو عارفانہ شلوکوں پر مشتمل گلدستۂ کلام شیخ العالم شائع کیاہے۔ چار سو آٹھ صفحات پرپھیلی ہوئی ترجمہ کاری کی یہ شاندار تحریر شاد صاحب کی محنت شاقہ کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔
اسی طرح یہاں رہنے والے ایک او رنامور شاعر اور ترجمہ کار جناب سلطان الحق شہیدی نے بھی کلام شیخ العالم کااردو میںمنظوم ترجمہ کرکے’’ نور علی نور‘‘ کے نام سے ضخیم کتاب چھپوا کر منظر عام پر لائی ہے او ربھی کئی حضرات ہیں جنہوں نے یہ کام کرکے پیغام شیخ کو عام کرنے کی کوشش کی ہے اور ان سبھی محسنین کا ذکر کرنا طوالت کاباعث ہوگا۔
راقم السطور کی رائے میں اپنے قلمی او رادبی دوست جناب اسدا للہ اسد ؔ نے سبھی ترجمہ کاروں پر سبقت لے لی ہے۔ کیونکہ اردو کی نسبت فارسی زبان میںکلام شیخ العالمؒ کا ترجمہ کرنا کارے دارد والا معاملہ ہے ۔کیونکہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ تقدس مآب زبان یعنی عربی کے بعدمشرقی ممالک میں فارسی زبان کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس زبان نے بہت سی وسعتوں کو اپنے اندر سمیٹ لیاہے۔
یہ بات بھی ملحوظِ نظر رہنی چاہیے کہ تخلیقی صلاحیت ہوتے ہوئے بھی کسی ادبی شاہکار کامنظوم ترجمہ اوروہ بھی زبان پہلوی میں انجام دینا کوئی معمولی کام نہیںہے۔ کیونکہ ترجمہ کرتے وقت اصل تخلیق کے معنی ومفہوم کواپنی جگہ برقرار رکھنا ایک بہت ہی باریک فن ہے ۔ مترجم کو الفاظ جملوں یا اشعار کے صحیح مفہوم کو سمجھنا او راس کے مقابل برمحل او رموزون الفاظ کاتلاش کرنا بہت ہی مشکل ہوتاہے اور اس دشوار گذار راستے پرگامزن ہونا گویا سنگلاخ کو کھودنے کے مترادف ہوتاہے۔
موجودہ زمانے میں فارسی زبان اگرچہ ہمارے سماج سے کب کی رخصت ہوچکی ہے اور زمانے کی چیرہ دستیوں کاشکار ہوگئی ہے او رعا م لوگ اس کے بول چال اور سمجھ سے بالکل نابلد ہیں مگر ان ستم ظریفوں کے باوجود بھی یہاں ہمارے کشمیر میں اس عظیم سرمایہ دار زبان کی خوشبوئیں او ربھینی بھینی ہوائیں کہیں نہ کہیں چلتی ہیں اور اس کی آواز ہماری سماعتوں سے ٹکراتی ہیں۔چاہے یہ دانش گاہ کشمیر (یونیورسٹی آف کشمیر) کاشعبۂ فارسی ہو یا دیگر دانش گاہیں یا کالجز وغیرہ اس لطیف او رپُر بہار زبان کی صدائے باز گشت آتی رہتی ہے۔اکثر دینی محافل‘ خانقاہوں اور بقعہ جات میں بزرگانِ دین کا فارسی کلام پیش کیا جاتاہے۔
جہاں تک زیر تبصرہ کتاب یعنی تحفۂ علمدار کشمیر کاتعلق ہے ۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ یہ کتاب ایک روحانی تحفہ ہے جوکہ ہمارے کرم فرما محترم اسد ؔ نے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کی ہے۔ کتاب صوری او رمعنوی دونوں صورتوں میں جاذب نظر ہے۔یہ نادر تحفہ۵۲۸ صفحات پر مشتمل ہے ۔کتاب کو ہاتھوں میں لیتے ہی باذوق قاری اس کی گرفت میں آسکتا ہے ۔کیونکہ اس کی جلد بندی ہی جاذب نظر خوب صورت اور خوش نمائی کی تصویر پیش کرتی ہے۔اس کا ٹائٹل رنگین ہے جس پر جلی حروف میں تحفۂ علمدار کشمیرؒ منظوم وترجمہ فارسی کلام حضرت شیخ العالم شیخ نور الدین نورانی ؒدرج ہے۔زیرین حصے میں علمدار کشمیر کے آستانہ جدید کی تصویر چھاپی گئی ہے اور مترجم اسد اللہ اسدؔ درج ہے۔جلد کے آخری صفحے پر مترجم کی خوبصورت تصویر دی گئی ہے اور اس کے نیچے ان کا یہ فارسی کلام بھی درج ہے۔
اے زِ کبر و آزو نخوت دور شو
وز ریاضت شاد دل مسرور شو
خاک پائے عارفان را سرمہ ساز
پس اسد اللہ اسدؔ مخمور شو
اس صفحے کے بالائی حصے میں کتاب سے متعلق بزبان انگریزی بھی ایک مختصر تعارف درج ہے۔راقم تبصرہ نگارروایت سے ہٹ کر کتاب کے بارے میں اب اندرونی صفحات کے بار ے میں مختصراً اپنے ناچیز تاثرات درج کرتاہے۔کتاب گرانمایہ کے صفحہ پر تحفۂ علمدار کشمیر کے عنوان کے تحت مترجم نے فارسی میں اس طرح تحریر کیاہے۔
رہبر کشمیریاں در راہ دین
آن ولٔی پاک باطن نورالدین
ازکلام او اسدؔ زمزم چکد
گفتۂ او ‘ رمزِ قرآنِ مبین
اس رباعی کے دوسرے شعر کے پہلے لفظ آن کے بجائے آں‘ نونِ غنہ ہونا چاہیے تھا۔کتاب کا انتساب موصوف نے اپنی والدۂ محترمہ کے بعد ابوالفقراء حضرت بابا نصیب الدین غازی‘ بابا داؤد خاکیؒ‘ بابا زین الدین ولی‘ بابا نصر الدین ریشی‘ بابا بام الدین او ردیگر خلفائے شیخ العالم او ران کی والدہ وغیرہ کے نام کیاہے اور معتقدانِ و عاشقان شیخ نور الدین کی خدمت میںاس ترجمہ کو ہدیہ کیاہے۔کتاب زیر تبصرہ کے صفحہ نمبر ۴ پر شاعر اسداللہ اسدؔ کی ایک کشمیری نظم نظر آتی ہے ۔’’یہِ چھُے پانہ مبارک‘‘ اور اس کے بائیں صفحے پر اس نظم کا فارسی ترجمہ دلا باد مبارک کے عنوان سے درج ہے۔
اس بیش قیمت کتاب کا پیش گفتار فارسی میں لکھا گیاہے جوکہ تفصیل سے لکھا گیا ہے او ریہ تعارف نامہ اور حالات مصنفِ کتاب نے چوالیس صفحات پر قلمبند کیے ہیں۔ یہ پیش گفتار پڑھ کر مترجم کا فارسی زبان پر عبور رکھنا بالکل واضح ہوجاتاہے۔ ایک انمول تحفہ عنوان کے تحت جناب بشیر منگوالپوری نے اردو زبان میںکتاب کے بار ے میں اپنے قیمتی تاثرات درج کیے ہیں۔ تبرک عشق از ستیش ومل سرینگر‘ خوشنودی از عبدالرحمن لطیفؔ‘علمدارس کن از ہلال دلنوی عنوانات کے تحت کتاب میں بہت ہی قابل قدر علمی باتیں درج کی گئی ہیں۔
تحفۂ علمدار کشمیر میں فاضل مترجم نے کلام شیخ سے چار سو(۴۰۰) شلوک کاانتخاب کیاہے۔ جن میں حضرت شیخ نور الدینؒ کے بصیرت افروز اور عارفانہ کلام کے ذریعہ رہنمایانہ رول ادا کیاہے۔اس انتخاب کی تفصیل او رکلام کی معنویت کے بارے میں کچھ لکھنا طوالت کاتقاضہ کرتاہے جس کی اس تبصرے میںگنجائش نہیںہے۔ کتاب کے صفحات کے دائیں طرف حضرت شیخ کا یہ منظوم کلام کشمیری میں دو دو شلوکوں پر مشتمل ہے اور اس کا دلآویز فارسی ترجمہ کتاب کے صفحات کے بائیں جانب دودو شلوکوں میںلکھاگیا ہے۔
قدیم اورمتروک کشمیری الفاظ جن کا شیخ العالم کے کلام میں استعمال کیاگیا ہے کو آج کل کے کشمیری عوام کے لیے سمجھنا خاصا مشکل ہے ۔مگر جناب اسداللہ نے اس پیچیدہ اور مشکل منزل کو بھی کامیابی کے ساتھ طے کیا ہے او رایسے مشکل الفاظ کے معنیٰ اور مفہوم کو سمجھنے کے لیے حتی المقدور متبادل فارسی الفاظ کاسہارا دیاہے۔ترجمہ کتاب کے اختتام پر مترجم نے آرزوئے شوق کے عنوان کے تحت فارسی میںایک نظم تحریر کی ہے جو کہ کتاب کی زینت کو بڑھاتی ہے اس میں نظم نگار نے اپنی عاجزی کااظہار کیاہے او راللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگی ہیں۔اللہ تعالیٰ مترجم کی اس مناجات کو قبول فرمائے۔
کتاب کے آخری صفحات پر باریک حروف میں کشمیری الفاظ کاایک اچھا خاصا ذخیرہ درج کرکے ان کے مطالب بھی درج کیے ہیں جوکہ قارئین کلام حضرت شیخ کے لیے بہت ہی سودمند رہیں گے ۔کتاب کا سال اشاعت۲۰۱۹ء ہے او راس کا ہدیہ مبلغ۷۰۰ روپیہ ہفت سر ہندی رکھا گیا ہے جو کہ کتاب کی چھپائی اور عمدہ ورنگین کاغذ کے لحاظ سے کچھ زیادہ نہیںہے۔صاحبانِ علم اوراہل ذوق وفارسی دان حضرات کے لیے یہ کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے او رعلمی اداروں اور لائبریریوں میںاس کا موجود ہونا بہت ہی سود مند رہے گا۔
رابطہ ۔نوشہر ہ سرینگر ،فون نمبر۔9419674210