خان عبد الغفار خان جنھیں باچا خان،بادشاہ خان اورسرحدی گاندھی جیسے ناموں سے بھی جانا جاتاہے، ان کی بے مثال شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے، اپنی پوری زندگی عدم تشدد کے حامی بن کر رہنے والے اپنے فولادی ارادے اورآہنی اصولوں کے شیدائی خان عبد الغفار خان ہزارہا صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے اپنی عمر کے ۹۰؍ سالوں میں سے ۴۵؍ سال یعنی اپنی عمر کا تقریبا آدھا حصہ جیل کی نذر کرنے والی شخصیت کو یاد نہ کرنادراصل ہماری اپنی نااہلی اورناقدری ظاہر کرے گی ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
آپ کی پیدائش ۶؍ فروری ۱۸۹۰ء کو اُتمانزائی ہشتنگر (حالیہ مقام خیبر پختو ، پاکستان)میں ہوئی۔آپ کے والد کا نام بہرام خان تھا، آپ کی تعلیم جامعہ علی گڑھ میں ہوئی،آپ کی دوشادیاں ہوئیں،آپ کی پہلی بیوی کا نام مہر قندہ (۱۹۱۲ء)اوردوسری بیوی نامباتہ (۱۹۲۰ء) تھیں،آپ کی اولادوں میں خان عبد الغنی خان، خان عبد الولی خان سردار، مہر تاج،خان عبد العلی خان تھے۔
اپنے خاندان کے بے حد دباؤ پر آپ برطانوی فوج میں شامل ہو تو گئے مگر ایک برطانوی افسر کے ناروا سلوک کی وجہ سے فوج کی نوکری چھوڑ دی،برطانوی حکومت کے خلاف بار بار مخالفت کرنے کے باوجود انھیں ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے اصلاحات کو مقصد حیات بنالیا اوراسی سوچ نے انھیں عمرانی تحریک شروع کرنے پر مجبور کیا، اوراسی تحریک کی کڑی خدائی خدمتگار تحریک سے جاملتی ہے۔
اس تحریک میں آپ کے ساتھ تقریبا ایک لاکھ لوگ جڑ گئے تھے، جس کی وجہ سے انگریز اوربھی آپ کے بہت زیادہ خلاف ہوگئے تھے اوراسی وجہ سے انھیں اوران کے ساتھیوں کو کئی بار تشدد کا نشانہ بننا پڑا،خان عبدالغفار خان کو گاندھی جی سے بڑی عقیدت تھی، اس لیے ان کا شمارگاندھی جی کے بڑے مداحوں میں کیا جاتاہے۔ایک مرتبہ سرحد پار گاؤں کے لوگوں کو تشدد سے عدم تشدد کی طرف لے جانے کے لیے گاندھی جی نے انھیں بھیجا، خان عبد الغفار خان نے گاؤں والوں کے نظریے کو بدل کر انھیں اپنے ملک سے محبت کرنے والا بناڈالا اورتمام گاؤں والوں کواپنا حامی بنالیا،اس لیے انھیں ’’سرحدی گاندھی ‘‘ نام دیا گیا۔
اسی طرح ایک واقعہ قصّہ خوانی بازار کا پیش آیا، گاندھی جی کو ۱۹۳۲ء میں نمک اندولن کے لیے جب انھیں انگریزوں نے گرفتار کرلیا تو ہزاروں کی تعداد میں پٹھان لوگ ان کے بچاؤ کے لیے آگے آئے ،پٹھانوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر انگریز پشاورسے بھاگ کھڑے ہوئے اوردو دن بعد اپنی پوری رجمینٹ کو لے کرآئے،ادھر پٹھان قصّہ خوانی بازار سے ٹس سے مس نہ ہوئے،رجمینٹ نے دیکھا کہ پٹھانوں کے آگے کی دو صفوں میں نوجوان بچّے کھڑے ہیں اوران کے پیچھے ہزاروں پٹھان کھڑے ہیں، ان تمام لوگوں کے بیچ میں اُن پٹھانوں کے لیڈر خان عبدالغفار خان نہتے کھڑے تھے ،انگریزوں نے ان سے کہا کہ ہتھیار تو پٹھان کا زیور ہوتاہے وہ کہاںہے؟ اس پر خان عبد الغفار خان نے کہا کہ گاندھی جی سے میں نے عدم تشدد کا وعدہ کیا تھا،ہتھیار اٹھا نا تو ایک طرف ہم ہاتھ بھی نہیں اٹھائیں گے۔انگریزوں نے رجمینٹ کو اُن لوگوں پر گولی چلانے کا حکم دیا،رجمینٹ نے کہا کہ ہمارے لیے ایک جلیانوالہ باغ کا واقعہ کافی ہے، ہم نہتے لوگوں پر گولی نہیں چلا سکتے، یہ کہہ کر اُن لوگوں نے اپنی اپنی بندوقیں پھینک دیں ،اُن کے اس طرح نہ کہنے پر انگریزوں نے خود ساختہ بندوق اٹھالی اورنہتے لوگوں پر فائر کردیا ،اس میں تقریباً ۲۰۷؍ لوگوں کی جانیں گئی ،اس طرح کے واقعات سے خان عبدالغفار خان کی دلیری ، بہادری اورگاندھی جی سے ان کی عقیدت کا پتہ چلتاہے کہ نہتے ہوکر بھی انھوں نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے عہد کا پاس رکھا۔
آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے ہندوستان کی تقسیم کی بات چیت کرنے پر خان عبد الغفار خان نے اُن کی سخت مخالفت کی اورجب انڈین نیشنل کانگریس نے تقسیم ہندوستان کی حامی بھردی اور وہ بھی آپ کو اطلاع دئے بغیر تو انھیں اس بات کا سخت صدمہ پہنچا اورانھوں نے کانگریس سے کہا کہ ’’آپ نے ہمیں تنہا مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔‘‘اس کے نتیجے میں ۱۹۴۷ء جون میں خان عبدالغفار خان اورخدائی خدمتگار کے رہنماؤں نے یہ مطالبہ کیا کہ انھیںپشتوستان چاہئے، جس میں برٹش انڈیا کے سبھی پشتو لوگ رہ سکیں، بجائے اس کہ اُن کی برادری کو پاکستان میںشامل کیا جائے۔روز بروز بگڑتے حالات انھیں اس کی اجازت نہیں دیتے تھے مگر اُن کا یہ جذبہ مرتے دم تک قائم رہا،اوران کی یہ تحریک آزادی کے لیے بہت بڑی حامی جماعت ثابت ہوئی،جنوبی ایشیاء کی آزادی کے بعد انھیں امن کے لیے ’’۱۹۶۲ء میں تنظیم برائے بین الاقوامی عفو عام‘‘سے نوازا گیا،اس کے بعد ۱۹۶۷ء میں ’’جواہر لال نہرو ایوارڈ فار انٹرنیشنل انڈر اسٹانیڈنگ ‘‘دیا گیا اور۱۹۸۷ء میں بھارت سرکار نے انھیں بعداز مرگ بھارت کے سب سے بڑے اعزاز ’’بھارت رتن ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔۱۹۸۷ء کا درمیانی حصّہ انھوں نے جیلوں اورجلا وطنی میں گزارا، افغانستان جلال آباد میں آپ کو انتقال ہوا،جس وقت آپ کی تدفین ہورہی تھی دونوں طرف جنگ بندی کا فیصلہ کیا گیا،اس سے آپ کی علاقائی اثر و رسوخ اورآپ کی شخصی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔
غرض آپ کی تمام تر زندگی کا حاصل یہ رہا کہ ملک کا بٹوارا نہ ہو اوراپنی پوری کوشش انھوں نے اس کوشش کے لیے وقف کردی ،وطن سے اپنی جانثاری اورمحبت وقف کرنے والوں میں خان عبدالغفار خان کا نام ہمیشہ تاریخ کے صفحوں پر سنہری لفظوں سے لکھا جائیگا اورتاریخ انھیں کبھی بھی فراموش نہیں کرسکے گی۔شاید یہ شعر ان کے لیے بنا ہو ؎
ہم اپنا نام زمانے کو سونپ جائیں گے
مر کر رکھے گے جینے کا سلسلہ باقی
رابطہ :معلمہ میونسپل کارپوریشن اسکول نمبر :۱اورنگ آباد ، (M.S.)
فون نمبر 9420864777