تبصروں اور تجزیوں پر مشتمل کتاب’’عمل رد ِعمل ‘‘

مصنف: ڈاکٹر محمد یاسین گنائی
صفحات:۳۲۵،قیمت۳۵۰روپے
ناشر: جی۔این ۔کے پبلی کیشنز 
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد یاسین صاحب جموں و کشمیر کا ایک ذہین ،باذوق، محنتی ،خوبصورت اور خوب سیرت نوجوان قلمکار ہے، جس نے اپنی کم عمری میں ہی اپنی علمی و ادبی ذہانت کا ٹھوس ثبوت پیش کیا ہے۔ ضلع پلوامہ کےبجبہاڑ ہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان قلم کارنے ادبی دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم وادی کشمیر کے مختلف تعلیمی اداروں سے حاصل کی ۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اندور یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ جہاں سے آپ نے ’’وادی کشمیر کی ادبی و ثقافتی اداروں کی اردو خدمات ‘‘کے عنوان پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر صاحب کی اردو دوستی ،وفا شعاری اور جان نثاری کا ہی ثمرہ ہے کہ انہوں نے’’ مشک زعفران‘‘ اور’’ جامعہ کشمیر کی ادبی خدمات‘‘ جیسی کتاب شائع کی ہیں اور الحمد اللہ اس وقت بھی ان کی کئی ساری کتابیں زیر تب سے آراستہ ہونے جا رہی ہے۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے محکمہ تعلیم میں درس وتدریس کے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔ آپ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے ہیں اس کے ساتھ اپنابھر پورا حق ادا کرتے ہیں۔ آپ کے مضامین پچھلے کئی برسوں سے ملک کےبیشتر مشہور و مقبول رسائل و جرائد میں شائع ہو رہے ہیں۔ اردو زبان کے تئیں آپ کی خدمات کا دائرہ صرف ہندوستان تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ پاکستان کے معتبر رسائل و جرائد میں آپ کی تخلیقات تسلسل کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں۔آپ کے مطالعہ کافی وسیع و گہرا ہے۔ عصری تقاضوں اور ضرورتوں کے پیش نظر آپ نے اس کتاب کو ترتیب دے کر جموں و کشمیر کے علمی سرمائے میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔  
          ڈاکٹر صاحب کی زیر مطالعہ کتاب’’ عمل رد عمل‘‘ نوے تبصروں و تجزیوں پر مشتمل ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں’’عمل اور ردعمل دراصل ایک تدبیر ہے ،جس کی مدد سے دبستان کشمیر سے تعلق رکھنے والے مصنفین کی کتابوں پر تبصروں و تجزیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں یہاں کے مصنفین کی کم و بیش تمام کتابوں کا مختصر تعارف قارئین کے سامنے دستیاب ہو اور وہ جس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیں، اُس کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اہل ذوق قارئین کو پہلے ہی جلد سے محسوس ہو جائے گا کہ ریاست جموں و کشمیر میں کن کن موضوعات پر کتابیں لکھی جا چکی ہے،جن میں سے اکثر ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔تبصرے کی مدد سے کتاب اور مصنف دونوں کا مختصر تعارف مل جاتا ہے اور اس سے طلباء اور ریسرچ اسکالروں دونوں کو اپنے کام کی چیز مل جاتی ہے‘‘۔
      کتاب کے ابتدا میں مبصرین سے گزارش کے تحت تبصرہ و تجزیہ لکھنے کے اصول و ضوابط کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کی بھی وضاحت ملتی ہے کہ تبصرہ شائع ہونے پر کسی بھی قسم کا کوئی رقم نہیں لیا جا ئےگا۔ اس کتاب کا نام عمل رد عمل ڈاکٹر مشتاق احمد وانی صدر شعبہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے مشورے پر رکھا گیا ہے، جس کا ذکریا صاحب نے پیش لفظ میں کیا ہے۔
         جموں کشمیر میں یہ کتاب اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے انفرادیت کے حامل ہے۔ اردو ادب کو فروغ دینے میں یہاں کے قلم کاروں نے شروع سے ہی اپنی خدمات انجام دی ہیں لیکن بہت کم لوگ ادباء و شعراء کے کلام سے مستفید ہو جاتے ہیں ۔اس کی بہت ساری وجوہات ہیں، جیسے مصنف نے چار پانچ سو کتابیں چھاپ لیں اور وہ بہت جلد ختم ہوگئی اور یوں متعدد قارئین اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس طرح کی اور بھی وجوہات کے باعث ہر مصنف کی تخلیقات تک رسائی حاصل کرنے سے رہ جاتے ہیں۔ اس خلا کو پورا کرنے کے لیے ڈاکٹر محمد یاسین صاحب نے ایک انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے تبصروں اور تجزیوں پر مشتمل کتاب کو مرتب کیا ۔ ان تبصروں میں جہاں سینئر قلمکاروں کے تبصرے شامل کئے گئے ہیں ،وہیں وادی کشمیر کے ہونہار نوجوانوں کے تبصرے بھی شاملِ کتاب ہیں۔ 
           کتاب ’’عمل ردِعمل‘‘ کی اہمیت و افادیت کی بات کی جائے تو  اس کتاب کے مطالعے سےیہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اس کتاب کی حیثیت کسی انسائیکو پیڈیا سے کم نہیں ہے۔ اس کتاب کے ذریعے جموں و کشمیر کی نوے کتابوں کے موضوعات اور مواد ایک جگہ دستیاب ہورہے ہیں۔ آج کے دور میں ریسرچ اسکالرز مقالے کی تکمیل کے لئے مواد کی کمی اور جستجو میں اکثر پریشان اور مایوسی میں مبتلا نظر آتے ہیں، جس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے منتخب موضوع پر کتاب ہونے کے باوجود متعلقہ کتاب حاصل نہیں کر پاتے۔ اس تناظر میں یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل نظر آتی ہے کیونکہ اس ایک کتاب کے مطالعے سے نہ صرف وہ مطلوبہ مواد تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اس بات سے بھی آگاہ ہوجائیں گے کہ ریاست جموں و کشمیر میں کن موضوعات پر کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور ایسے کونسے موضوعات ہیں ،جن پر ابھی کام ہونا باقی ہے ،اس طرح ان ریسرچ اسکالروں کونئے موضوعات کے انتخاب میں بڑی آسانی ہوجائے گی۔
         کتاب کا سرورق نہایت خوبصورت تصاویر سے مزین ہے ۔ کاغذ نہایت عمدہ اورکتاب کی قیمت صرف ساڑھے تین سو روپے ہے ،جو اس مہنگائی کے زمانے میں مناسب معلوم ہوتی ہے ۔ کتاب کی اہمیت و افادیت اور مصنف کو خراج تحسین کے الفاظ کتاب کے آخری صفحہ پر ڈاکٹر مشتاق احمد وانی ،ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری اور ڈاکٹر عبداللہ امتیاز احمد نے تحریر کیے ہیں۔امید ہے کہ یہ کتاب نہ صرف جموں کشمیر کے ادب نوازوں کے لئے مفید ثابت ہوگی بلکہ ریاست سے باہر کے قارئین بھی اس کتاب سے استفادہ کرکے جموں وکشمیر کے علمی و ادبی سرمایے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ محققین کے لیے تحقیق کی راہ ہموار کرنے میں یہ کتاب کافی اہمیت کی حامل ہوگئی۔  
میں سمجھتا ہوں اس کتاب کو اہل علم قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے، تین سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب جی ۔این۔ کے پبلی کیشنز نے شائع کی ہے۔
 اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب کے موبائل نمبر 7006108572 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔
(ریسرچ اسکالر برکت اللہ یونی ورسٹی بھوپال)