! بے عملی کی روایت اور پینے کا پانی

اخباروں میں شائع شدہ روزانہ خبروں کے مطابق اب وادیٔ کشمیر کے لوگوں کو روز مرہ زندگی میں جو بنیادی مسائل درپیش ہیں ،اُن میں پینے کے پانی کی نایابی یا قلت بھی شامل ہے۔بعض اضلاع کی آبادیاں پانی کی قلت یا مکمل عدم دستیابی کے باعث ندی نالوں کاگدلا اور مُضر صحت پانی استعمال کرکے مختلف بیماریوں کے شکار ہورہے ہیں۔پینے کے پانی کی عدم دستیابی مضافات میں ہی نہیں ،شہر سرینگرکے مختلف علاقوں میںبھی پائی جاتی ہےاور لوگوںمیں موجودہ حکومت اورمتعلقہ محکمہ کے لئے غم و غصہ کا باعث بنی ہوئی ہے۔ظاہر ہے کہ پینے کا صاف پانی انسانی زندگی کا بنیادی اور لازمی جُز ہے اورہَوا کے بعد انسانی زندگی کا دارومدار پینے کے پانی پر ہی منحصر ہے ،اس لئے اس کی مسلسل قلت یا مکمل عدم دستیابی کے باعث صارفین کے غم و غصے میں اضافہ ہونا اور اس کے خلاف شدید ردِ عمل ظاہر کرنا حق بجانب قرار دیا جاسکتا ہے۔یہ بات بالکل برحق ہے کہ وادی ٔ کشمیر کو قدرت نے پینے کے صاف پانی کے بے پناہ ذخائر سے مالا مال کررکھا تھا جن سےنہ صرف وادیٔ کشمیر کے عوام کی ضروریات کسی خلل کے بغیر پورے ہوسکتے تھے بلکہ دوسرے خطے بھی ان سے فیض حاصل کرسکتے تھے۔لیکن یہاں کے حاکموں کی غفلت ،ناقص اور غیر ذمہ دارانہ پالیسیوںکے ساتھ ساتھ یہاں کے عوام کی خود غرضیوں سے وادیٔ کشمیر اس قدرتی نعمت کے بیشتر ذخائر سے محروم ہو گئے ہیں۔جس کا خمیازہ اب یہاں کے لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔اطلاعات کے مطابق پینے کے پانی کی قلت کا مسئلہ اب نہ صرف مختلف اضلاع کے بیشتر علاقوں کو درپیش ہے بلکہ شہری آبادی میں بھی یہ مسئلہ پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک طویل عرصہ سے شہر اور دیہات میں لوگ سردیوں اور گرمیوںمیں پینے کے پانی کے بحران کے خلاف آواز بلند کرتے چلے آرہے ہیں اور بعض اوقات مُضر صحت اور ناصاف پانی کے استعمال سے متاثر ہونے والی انسانی زندگی کے خلاف احتجاجی جلوس نکال کر اپنے غم و غصے کااظہار کرتے رہتے ہیں۔اس کے بعد بھی پینے کے صاف پانی کے بحران پر قابو پانے کے لئے حکومت کی طرف سے کوئی موثر اور مثبت کوشش نہیں ہوسکی ہے۔ اس وقت بھی جو صورت حال چلی آرہی ہے وہ اس بات کی اغماز ہے کہ صارفین کے لئےپینے کے پانی کی فراہمی کے لئے کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔جبکہ یہ بات مظہر الشمس ہے کہ وادیٔ کشمیر میں ابھی بھی پانی کے بڑے بڑے ذخائر اور وسیع ذرائع موجود ہیں،جن سے اگر استفادہ لیا جائے تو یہاں کے عوام کی ضروریات کو بغیر کسی رکاوٹ کے پورا کیا جاسکتا ہے۔لیکن دکھائی یہی دیتا ہے کہ حسب روایت انتظامی امور کی منصوبہ بندی میں فقدان جاری ہےاور کورپشن و غیر ذمہ دارانہ رول سےلوگوں کے لئے یہ بنیادی ضرورت پوری نہیں ہورہی ہے۔یہاں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ حکومتوں کی طرف سے آج تک یہاںکروڑوں روپے کے اخراجات کے نام پر عوام کو صاف پانی فراہم کرنے کے لئے جتنے منصوبے تیار کئے گئے اور جو اسکیمیں ترتیب دی گئیں، وہ زیادہ تر ناکام ہی ثابت ہوئی ہیں،جہاں کہیں بھی اُن اسکیموں کے تحت پینے کا پانی سپلائی کیا گیا ،وہ غیر منظم طریقے پر جاری رہا بلکہ مختلف علاقوں میں جو پانی لوگوں تک پہونچایا گیا، وہ عموماً غیرفائدہ مند ثابت ہوا۔ وادیٔ کشمیر کے چشمے اور علاقائی کوہلیں ،ندی نالے اتنے خستہ اور پراگندہ ہوچکے ہیںکہ ان کا پانی انسانی زندگی کے انتہائی مضر اور سمِ قاتل بن چکا ہے۔جس کے لئے یہاں کی حکومتیں اور متعلقہ محکمہ ہرگز بری الذمہ نہیں ہیں،بلکہ ان صاف وشفاف چشموں اور کوہلوں کی بُربادی کی زیادہ ذمہ دار یہاں کی حکومت ہی ہے۔جس نے نہ تو مناسب وقت پران آبی وسائل کی نگرانی کا خیال رکھا اورنہ ہی تحفظ کا بندوبست کیا۔پینے کے پانی کی کمی کو پورا کرنے میں ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ متعلقہ محکمہ اس کی مساوی تقسیم کاری پر پورا نہیں اُترتا ہے۔ جس کے نتیجے میں آج بہت سےگاؤں و قصبہ جات پانی کی عدم دستیابی سے پریشان ہیں جبکہ کئی علاقہ جات میں آج بھی خواتین کو اپنے گھر وں کی ضروریات کے لئے گھنٹوں کا سفر کر کے پینے کا پانی لانا پڑتا ہے۔اس جدید اور سائنسی دور میں بھی لوگوں کے لئے پینے کے پانی کا مسئلہ افسوس ناک ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ ایسے کئی علاقے ہیں جوشہر خاص میں ہونےکے باوجود بھی پانی کی کے لئے ترس رہے ہیں۔