میر حسین
علم ہر فضل و کمال کی علت مانا جاتا ہے ۔ علم حاصل کرنے کی کوئی حد ، عمر اور وقت مقرر نہیں ہے ۔ آغوش مہد سے آغوش لحد تک حصول علم قابل تحسین جانا جاتا ہے ۔ گو کہ گزرتا ہواہر ساعت قوت گویائی اور قوت سماعت کی نمایاں کمی کا احساس ضرور ہوتا ہے ۔ تاہم گزرتے ہوئے ہر لمحہ کے ساتھ ذرائع علم کی حصول یابی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ علم کی شاہراہ پر قدم رکھنے والا ہر نو مولود اور نوزاد کو صرف ایک چیز کی طرف راغب کرانا چاہئے اور وہ چیز کتاب ہے ۔ کتاب کے بغیرا گرچہ مختلف ذرائع علم پائے جاتے ہیں تاہم ہر نئے ذریعہ کے ساتھ تاثرات سے پر کتابوں کے مطالعہ کا متبادل ابھی تک نہیں پایا گیا لیکن صد افسوس کہ اس گران بہا انمول چیز کے ساتھ ہم روز افزوں دشمنی مول لے رہے ہیں ۔
دھوپ میں نکلو گھٹاووں میں نہا کر دیکھو زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
بے زبان دوست کے اقارب یعنی کتاب دوست افراد روز بہ روز پورے کرہ ارض میں قلت کا شکار ہو رہے ہیں ۔اگر یہ کہا جائے کہ عاشق کتب عالم میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں تو بے جانہ ہو گا ۔ آخر ایسا کیوں اور کیسے ہوا کہ ترقی یافتہ دور میں بھی کتاب دوست افراد مطالعہ کرنے سے اس طرح فرار کر رہے ہیں جیسے کہ کمان سے تیر رہا کیا گیا ہو ۔ اس نمایاں تبدیلی کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں ۔ جدید دور میں موبائل فون کی ایجاد نے جہاں انسان کے انسانیت کی گوناگوں پہلووں کو متاثر کیا ہے ۔ وہیں اس نام نہاد مفید چیز نے پوری دنیا میں افراد بشر سے کتابوں کا مطالعہ کر نا چھین لیا ۔ جدید دور کی نسل یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ کتاب جیسی بہترین ہم در داور ہم نوا کا متبادل موبائل فون نہیں ہے ۔ خود کو ماڈرن معیار پر اترنے کے لئے نسل جوان نے کتب خانوں سے دوری اختیار کر کے سہل اور آسان طریقوں کو ترجیح دی جو نہ صرف صحت کے لئے مضر ہے بلکہ معنوی لحاظ سے موثر بھی نہیں ۔
کتابوں کے مطالعہ کی اہمیت و ضرورت کے بارے میں مختلف ماہرین کے اقوال سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور میں بھی کتابوں کی جگہ لینے کے قابل کوئی اور چیز نہیں ۔
A book is a gift that you can open again & again.
(Garrison)
The greatest gift is a passion for reading.
(Hardwick )
Literacy is a bridge from misery to hope.
(Kofi Annan )
ہر اہل فکر و دانش اور علم و حکمت متلاشی یہ حقیقت تسلیم کرتا ہے کہ کتاب سے بڑھ کر کوئی اور ہم دم نہیں اور تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ وہ اقوام اپنے علم و فن کی بناپر ترقی کے منازل طے کرتی ہے اور فاتح اقوام کی صف میں شمار ہوتی ہے جن کا ہتھیار قلم اور اوڑنا ، بچھونا کتاب ہوتی ہے لیکن اس کے بر عکس جو اقوام کتابوں کی قدر نہیں کر تیں اور کتاب سے اپنارشتہ منقطع کر لیتے ہیں وہ نہ تو معراج انسانی کے کمال کو پاتے ہیں اور نہ ہی ترقی اور فکر و فن کے منازل طے کر پاتی ہیں ۔ جس معاشرہ میں علم و تحقیق اور مطالعہ کا عمل رک جائے، وہ معاشرہ ذہنی اور فکری طور پر مفلوج ہو جاتا ہے ۔
مجتبی حسین اپنے سفر نامہ ’’ جاپان چلو جاپان‘‘ میں رقمطراز ہے کہ پورے ایشیاء میں جاپانی سب سے زیادہ پڑھاکو قوم ہے ۔ یہاں ہوٹلوں اور تفریح گاہوں میں بھی کتابوں کی فروخت کا انتظام موجود ہے ۔ چار پانچ سال کے کم عمر بچے بھی بڑے شوق سے کتابیں خریدتے اور پڑھتے ہیں ۔ جاپان میں سالانہ تقریباً اسی { ۸۰ } کروڑ کتابیں فروخت ہوتی ہیں ۔ گویا ہر جاپانی سال میں ساڑھے چھے کتابیں خرید تا ہے ۔اہمیت کتاب کے بارے میں سقراط کا یہ قول قابل غور ہے کہ ’’ وہ گھر جس میں کتابیں نہ ہوں وہ اس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو ۔ ‘‘
میڈیا کے غلبہ نے ہمارے میں علم دوستی اور کتاب دوستی کا فقدان پیدا کیا ہے ۔ قوم کی اکثریت مطالعہ کے شوق سے عاری ہے ۔ یہ اصل میں شوق کی کمی نہیں بلکہ کتاب کی موت واقع ہو رہی ہے ۔ حکیم الامت علامہ اقبال قوموں کی خودی کی تعمیر کا ایک اہم ذریعہ کتاب دوستی کو گردانتے ہیں ۔ نہ معلوم ہم کیوں ترقی ، فلاح و بہبودی کی راہوں کو کتابوں میں اخذ نہیں کر پاتے اگرچہ تاریخ گواہ ہے کہ تاریخ ساز شخصیات کی کامیابی کے پس منظر میں کتاب بینی کا شوق کے اسرار مضمر ہے ۔ حتی کہ ہمارے عزیزر ہبر آیت اللہ سید علی خامنه ای حفظ اللہ کی رہبریت اور انکے دیگر اسلامی ، سماجی ، سیاسی و اقتصادی روشن افکار کے پیچھے مفید اور موقتی مطالعہ نظر آرہی ہے ۔ دلبند زہرا ( س ) خود فرماتے ہیں کہ ’’کتاب کا مطالعہ روح کے لئےاتنا ہی ضروری ہے جتنا جسم کے لئے غذا ۔ ‘‘ نیز وہ فرماتے ہیں کہ ’’ میں نے آٹھ جلدوں پر مشتمل کتاب صرف دوران سفر پڑھی ہے ۔ ‘‘
موبائل فون اور میڈیا کے غلبہ کے علاوہ مغربی غیر اسلامی ، غیر اخلاقی اور آزاد خیالی بھی ہمارے نوجوانوں کی کتاب سے دوری کا ایک سبب ہے ۔ سراب کی مانند اور ہلاہل کی کڑواہٹ سے بھری مغربی دانشوری جدید نسل کو مطالعہ اور کتب بینی سے دور رکھنے کی سنی میں مسروف عمل ہے۔انہوں نے موجودہ نسل کو پر تعیش زندگی کا خو گر اور عادی بنانے کی ٹھان لی ہے تا کہ ہم کتابوں سے مانوس نہ ہونے پائے ۔ مغربی غیر انسانیت پر مبنی دانشوروں نے عہد کر لیا ہے کہ ہم اسلامی افکار کی مٹھاس اور انسیت رکھنے والی عالمی نسل کو مطالعہ کتب اور کتاب دوستی سے دور رکھ کر انکا بیڑا غرق کر لیں گے لیکن انکو شاید معلوم نہیں کہ ہم فرزند انقلاب اور فرزند کتاب ہیں جو کہ نہ مغلوب ہونے پر راضی ہوتی ہے اور نہ ہی غالب ہوئے بغیر سکون پاتی ہے ۔
غرض ، دنیا و آخرت کی ہر کامرانی کے پس منظر میں کتاب دوستی کا راز چھپا ہوا ہوتا ہے ۔ آیئے اپنے اذہان و ضمائر کو پر کھ لیتے ہیں اور خود سے پوچھتے ہیں کہ ہماری تخلیق کی علت کیا ہے ؟ اور کن علل اور اسباب کی بنیاد پر ہمیں اس ظاہری حسن کے دلدادہ میں بھیجا گیا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے اذہان اور ضمائر آپکے سوال کے رد عمل میں آپ سے کہے گا کہ اس قید میں آپ پرندہ کی مانند ہیں کہ جو کبھی اعلی اقدار کے نتیجہ میں اذان بھر تا ہے اور کبھی پت مقاصد کی خاطر زمین پر آکر ادنی اور حقیر شئی کی مانند تباہ ہو جاتا ہے لیکن ہاں اگر چاہے کہ صرف پرواز کرے اور پستی اختیار نہ کرے تو اس راہ میں آپکا صرف ایک دوست رفاقت کی راہ عطا کرے گا اور وہ رفیق کتاب کے علاوہ کوئی اور شئی نہیں ہے ۔
[email protected]