سرینگر// نیشنل کانفرنس نے جموں وکشمیر میں بے روزگاری میں کمی کے دعوئوں کو یہاں کے بے روزگار نوجوانوں کے زخموں پر نمک پاشی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اعداد و شماری کی ہیرا پھیری سے ملک کے عوام کو گمراہ کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ پارٹی ترجمان عمران نبی ڈار نے ایک بیان میں سنٹرل فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (CMIE)کے جموں وکشمیر میں بے روزگاری میں کمی سے متعلق اعداد و شمار کو گمراہ کُن قراردیا اور کہا کہ حکومت ایسی ایجنسیوں کے ذریعے یہاںکے زمینی حقائق پر پردہ ڈالنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز کے غیر سنجیدہ اور غیر دانشمندانہ فیصلوں سے یہاں کا ہر شعبہ زوال پذیر ہوا ہے جس کی وجہ سے بے روزگاری نے ماضی کے تمام ریکارڈ مات کردیئے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ 5اگست2019کے بعد دوہرے لاک ڈائون سے جہاں جموں وکشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں نجی سیکٹر میں کام کرنے والے ورکراپنا روزگار کھو بیٹھے ہیں،وہیں حکومت کے عوام کُش فیصلوں نے بھی ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اُجرتوں پر کام کرنے والوں کو نان شبینہ کا محتاج بنا ڈالا ہے۔ سیلف ہیلپ گروپ اسکیم کو ختم کرنے کی مثال پیش کرتے ہوئے این سی ترجمان نے کہا کہ 17سال پرانی اس سکیم کو ختم کرکے 4500کے قریب انجینئروں سے روزگار چھین لیا اور یہ اقدام اُس وقت کیا گیا جب کورونا وائرس کی وجہ سے کسی بھی دوسری جگہ ملازمت ملنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور اس طرح سے 4500کنبوں کو نان شبینہ کا محتاج بنا ڈالا ہے۔ ایسے ہی مختلف محکموں میں روزانہ اجرتوں پر کام کرنے والے عارضی ملازمین کو بھی نوکریوں سے محروم کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حد تو یہ ہے کہ گذشتہ دنوں جموں وکشمیر بینک کیلئے 1500اسامیوں میں سے صرف 200کشمیری منتخب کئے گئے۔ ایسے ہی جموں و کشمیر میں گذشتہ دو برسوں کے دوران پُر کی گئی سینکڑوں مرکزی ملازمتوں میں سے مقامی نوجوانوں کی گنتی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ گذشتہ دو سال کے دوران یہاں مقامی بے روزگاروں کو سرکاری ملازمتیں فراہم کئے جانے کا سلسلہ لگ بھگ ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے ۔ترجمان نے کہا کہ جموں وکشمیر میں مرکز کی ناانصافیوں ، امتیازی سلوک اور انتقام گیری کی پالیسی رواں ہے اور ایسے میں مقامی نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع معدوم کئے جارہے ہیں جبکہ دوسری جانب دنیا کو دکھانے کیلئے فریبی اعداد و شمار جاری کئے جارہے ہیں۔
بے روزگاری میں کمی کے دعوے زخموں پر نمک پاشی
