آپریشن تھیٹر کے قریب باہر منیر اور اسکی ماں سروہ اضطراب اور بے چینی کی حالت میں دروازے پر چکر لگاتے ہوئے ،ہاتھ ملتے ہوئے ایک دوسرے سے باتیں کر تے ہو ئے ۔۔منیراپنی ماں سے مخاطب ہوتے ہوئے ۔۔۔۔
ــ’’امی اگر آج بیٹا نہیں ہوا تو میں خودکشی کر لوں گا ‘‘
’’ بیٹے دیوانے ہوئے ہو کیا۔ جان تو تمہاری جورو سائمہ کو دینی ہے، تم کیوں بھلا اپنے آپ کو کوسنے پر تلے ہوئے ہو ۔۔۔‘‘
’’وہی تو ہے جس کی باعث میرا پھول جیسا بیٹا مُرجھا گیا ہے ۔۔ناجانے اُس وقت تجھے کیا ہواتھا جو تو نے اس کلنک کو اپنے ماتھے تھو پا۔میں نہ کہتی تھی اس وقت، پھر بعد میں پچھتاو گے ۔۔‘‘
’’امی اب بس بھی کرو اس وقت یہ باتیں ٹھیک نہیں، بس دعا کرو کہ بیٹا ہو ۔‘‘
سامنے بینچ پر بیٹھی دو معصوم بچیاں یہ گفتگو سنتے ہوئے ایک دوسرے کی اور نم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اپنی اماں کی فکر میں آنکھوں سے موتی برساتی ہوئیں۔۔۔
بڑی لڑکی شبنم اپنے ابو کو ایک درد بھری آہ سے پکارتے ہوئے کہنے لگی۔
’’ ابو ۔۔۔۔امی کو کیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔ وہ کب باہر آئیں گی ۔۔‘‘
اپنے حال سے پریشان منیر نے شکستہ آواز میں جواب دیتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔
’’کچھ نہیں بیٹا ۔۔۔۔۔امی ابھی واپس نکلے گی ۔ ڈاکٹر صاحب معائینہ کر رہے ہوں گے۔۔۔‘‘
من ہی من کچھ بڑ بڑاتے ،ہاتھ ملتے ہوئے اپنی امی کی طرف بے چین ہوکر ۔۔۔
’’امی میں سچ کہہ رہا ہو ں اگر آج بھی بیٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
آپریشن تھیٹر میں موت اور زندگی کی کشمکش میں مصروف بیچاری سائمہ نیم مردہ آنکھوں سے آنسووں کی گنگا بہاتے ہوئے ڈاکٹرکی طرف بس نظریں جمائے ہوئے حلق سے آواز نہ آنے کی باعث اشاروں اشاروں میں ہی اس کو پوچھنے کی کوشش میں کہ اور کتنا وقت درکار ہے ۔ ۔۔۔۔
مسکراتے ہوئے ۔۔۔
’’ کچھ دیر اور بہن جی ۔۔۔۔۔تم مت گبھراو ۔۔۔۔۔۔‘‘
سائمہ کو دراصل گبھراہٹ آپریشن کی نہیں بلکہ من ہی من میں ہسپتال آنے سے قبل ساس کی کہی ہوئی باتیں چبھتی تھیں کہ ۔۔۔۔
’’ بہو اگر اس بار بیٹا نہیں ہوا تو میرے بیٹے کو بخش دینا ۔اپنی تینوں بیٹیوں کو ساتھ لئے اپنے مائکے چلے جانا ۔۔۔۔۔اب ہم اور برداشت نہیں کرسکتے ۔۔۔۔۔ ‘‘
ساس کا برتاوْ کچھ یوں تھا جیسے کہ بچے کی جنس کا تعین سائمہ کے ہاتھ میں ہی تھا اور وہ جان بوجھ کر بیٹیاں چن لیتی ۔۔۔
دوسری جانب منیر کے وہ طعنے کہ ۔۔۔
’’لعنت ہو اُس وقت پر جب میں نے تمہیں اپنے گھر لایا تھا ۔تمہارے حسن پر فریفتہ ہونے سے بہتر تھا کہ کسی کنجری سے شادی کرلیتا، جو بیٹے کو جن سکتی ۔۔۔۔اک تم ہو کہ صرف خوبصورت ۔۔۔۔۔ ‘‘
پریشانیوں کے اس جھمیلے میں غرق سائمہ کی سانسیں اگر چل رہی ہیں تو صرف اس اُمید میں کہ بیٹا جن سکے اور ہمیشہ کے لیے طعنوں کے اس زنداں سے آزاد ہو پا ئے ۔اتنے میں دھیمی سی آواز اس کے کانوں تک پہنچتے ہی وہ بے ہوش ہوگئی ۔۔۔ ۔۔۔
منیر کی نظر آپریشن تھیٹر سے نکلتی ہوئی نرس پر پڑی جو اپنی گود میں کمبل میں لپیٹتے ہوئے بچے کو منیر کی طرف لارہی تھی ۔منیر کے شکستہ قدم بھی نرس کی طرف اْٹھنے والے ہی تھے کہ نرس نے دور سے ہی آواز لگادی ۔۔۔۔
’’مبارک ہو منیر بھائی ۔۔۔۔۔۔بیٹی ہوئی ہے ۔۔۔دیکھو کتنی پیاری بچی ہے ۔۔۔‘‘
نرس کی یہ آواز سنتے ہی منیر یخ بستہ زمین پر گرگیا اْدھر اس کی امی سروہ چلانے لگی ۔۔۔
’’ارے ۔۔۔میرا بیٹا ۔۔۔۔ارے میرے بیٹے کو کوئی سنبھالو ۔۔۔ یہ کلموہی میرے بیٹے کی جان لے کر ہی رہے گی ۔۔۔‘‘
کچھ ہی دیر میں قیامت کا سماں بھر پا ہونے لگا۔۔۔۔ ادھر ’شبنم ‘اور اس کی چھوٹی بہن ’افشانہ ‘ اس قیامت میں ایک کرن کے انتظارکی مانند اپنی ماں کا انتطار کرتے ہوئے ۔۔۔ منیر کے بے ہوش جسم کو ہلاتے ہوئے ۔۔۔۔۔
’’ابو ۔۔۔۔۔۔ابو ۔۔۔۔۔ امی کہاں گئی ۔۔۔۔۔ ‘‘
نرس اپنی گود میں نو زائید بچی کو سنبھالتے شبنم اور افشانہ کو دلاسہ دیتے ہوئے ۔۔۔
’’بیٹا تمہاری امی ٹھیک ہے ۔۔۔دیکھو تمہاری ایک بہن اورآئی ہے۔۔۔کچھ ہی دیر بعد تمہاری امی کو بھی باہر لائیں گے ۔۔ ۔۔فکر نہ کرو ۔۔۔۔ ‘‘
اْدھر منیر کی امی اس کے سر کو اپنی گودی میں لیے چلاتےہوئے۔۔۔ہائے میرا منیر ۔۔۔ہائے بیٹا منیر ۔۔۔ سائمہ نے ہمارے گھر کو تباہ کردیا۔۔۔ ہم برباد ہوگئے ۔۔۔‘‘
جیسے کہ بیٹی ہونے سے ان کے گھر میں تباہی ہوئی ہو ۔۔۔۔
اتنے میں منیر دھندلی نظر اور آدھے منہ سے ۔۔۔
’’امی ۔۔۔ چپ ہوجاوْ ۔۔۔ میں ٹھیک ہو ں ۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوا ہے مجھے ۔۔۔ ‘‘
ابو کی آواز سنتے ہی شبنم اور افشانہ کی جان میں جان آگئی وہ حال پوچھے بغیر پوچھنے لگیں۔۔۔
’’ابو ۔۔۔۔امی کب نکلے گی اندر سے ۔۔۔‘‘
’’تمہاری امی گئی جہنم میں ۔۔۔۔۔۔ اب تک تو صرف تم دو پریشانیوں کو جھیل رہا تھالیکن اب ایک اور آن پہنچی ۔۔۔۔۔‘‘
منیر کا ساتھ دیتے ہوئے اس کی ماں سروہ کم سن بچیوں پر برستے ہوئے۔۔۔۔۔۔
’’میرے بیٹے کو کھا جاوْ گی تم ماں بیٹیاں ۔۔۔۔۔۔ اس سے بہتر تھا کہ تم پیدا ہونے سے سے پہلے ہی مرجاتیں ۔۔۔۔۔ اور تمہاری ماں ۔۔۔۔ تمہاری ماں ۔۔۔۔۔ ‘‘
اتنے میں آپریشن تھیٹر سے چارپائی پر سائمہ کو باہر لاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب منیر کی اور کہتے ہوئے ۔۔۔۔۔
’’مبارک ہو دونوں جانیں بچ گئی ۔۔۔۔۔۔ سائمہ اب بالکل ٹھیک ہے ۔‘‘
یہ سنتے ہی ماں بیٹے کے چہرے پر ایسی مایوسی چھاگئی جیسے کہ وہ سائمہ کی لاش کے منتظر تھے ۔۔۔۔۔ اور ان کی اْمید بھر نہیں آئی ۔۔۔۔۔
سائمہ نے ابھی ہوش ہی نہیں سنبھالے تھے کہ گھر میں ساس اور شوہر کی طعنہ زنی شروع ہو گئی ۔۔۔۔
سروہ اپنے بیٹے کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے ۔۔۔۔
’’ اْسے کہہ دو کہ چلی جائے یہاں سے، میں اس کا منہ بھی نہیں دیکھنا چاہتی ۔۔۔ اور ساتھ میں ان کم بخت بیٹیوں کو بھی لیتی جائے ۔۔۔ ‘‘
۔۔۔۔سائمہ نے جیسے یہ اولاد اپنے مائیکے سے ہی ساتھ لائے ہو ں ۔۔۔۔۔
’’ایک موہن کی وہ جورو کرشما جس نے دو دو بیٹوں کو جنم دیا ہے اور گھر کا چراغ روشن رکھا اور ایک یہ ہماری صاحبزادی جو تیسری دفعہ بھی ہماری بربادی کا سامان۔۔۔جی تو چاہتا ہے کہ زندہ جلا دوں۔۔۔۔‘‘
’’ ارے کم سے کم اس گھر کا خیال تو کرتی ۔۔۔۔ ‘‘
یہ طعنے سنا کر دونوں ماں بیٹے سائمہ کو اپنے حال پر چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گئے ۔۔۔
سائمہ یہ سب خاموش سنتی رہی پر اس کی آنکھوں سے آنسووْں کے دریا بہتے رہے ۔۔۔۔ مگر کیا کرتی وہ بے بس اور مجبور تھی ۔۔۔۔۔
شبنم اور افشانہ ماں کی یہ حالت دیکھ کر اس کے آنسووں کو پونچھتے ہوئے ۔۔۔
’’امی۔۔۔ رو مت۔۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا ۔۔۔۔ ہم آپ کا خیال رکھیں گے۔۔۔۔ ہم آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔۔۔ امی ۔۔۔۔ ‘‘
معصوم بیٹیوں کی ان باتوں سے سائمہ بے اختیار چیختے ہوئے اپنی زندگی کو کوستی رہی۔۔۔ شبنم اور افشانہ بھی بے اختیار ہو کر سسک سسک کر رونے لگیں۔ لیکن سب بے سود۔اتنے میں نو زائید بچی روتے ہوئے یا تواس کی بھوک کا اظہار کرنے لگی یا ان سب کے دکھ میں شامل ہونے کا احساس۔۔۔۔۔ شام ہوتے ہوئے افشانہ اور شبنم زندہ لاشوں کی مانندماں کے بستر پہ ہی بھوکی سو گئیں اور سائمہ نوزائید بچی کو سنبھالتے ہوئے خیالوں کی دنیا میں غرق ہوگئی ۔۔۔
اگلی صبح منیر سائمہ کو گھر سے نکلنے کا پیغام پہنچانے اس کے کمرے میں داخل ہوا تو کمرے میں چار رسیوں میں لٹکی بے بسی کو دیکھ کر اپنی کرتوت چھپانے کی آڑ میں دیوانہ ہوگیا۔۔۔۔۔۔
برنٹی اننت ناگ کشمیر
موبائل نمبر؛9906705778