بہتر سڑک روابط ہنوز ایک خواب

بہترسڑک روابط کو کسی بھی علاقے کیلئے ترقی کی بنیادماناجاتاہے اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس خطے اور علاقے کی سڑکیں بہتر حالت میں ہوں ،وہاں کی شرح ترقی نسبتا دیگر مقامات سے زیادہ ہوتی ہے ۔ریاست جموں وکشمیر میں بھی بہتر رسل و رسائل کی فراہمی کے دعوے آئے روز کئے جاتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہم آج بھی ایسے دور میں زندگی جی رہے ہیں جہاں معمولی سی برفباری ہونے پر نہ صرف دیہات و قصبہ جات کے ضلع اور تحصیل صدر مقامات سے رابطے منقطع ہوجاتے ہیں بلکہ جموں کا سرینگر اور سرینگر کا لداخ خطے سے رابطہ ٹوٹ جاتاہے ۔پچھلے چند روز سے چلے آرہے خراب موسم کے دوران بھی لوگوں کو ایسی ہی مشکلات کاسامناکرناپڑاہے جو وہ ہر بار برفباری اور بارشوں کی وجہ سے سہتے آرہے ہیں ۔ جموں ۔سرینگر شاہراہ بند ہوجانے کے باعث بس اڈہ جموں اور دیگر کئی مقامات پر سینکڑوں مسافر درماندہ ہوکر رہ گئے جن کو اپنی منازل تک پہنچانے کیلئے سوائے موسم میں بہتری کی امید کے کچھ بھی اقدامات نہیں کئے گئے ۔متعدد مقامات پر بھاری پسیاں گرآنے کی وجہ سے لگ بھگ تین سو کلو میٹر مسافت والی شاہراہ پچھلے چار دنوںسے گاڑیوں کی آمدورفت کیلئے بند پڑی ہوئی ہے ۔یہ شاہراہ امسال موسم سرما کے دوران مہینے کے کئی دنوں بند رہی ہے تاہم کوئی متبادل انتظام نہ ہونے کے باعث مسافروں کو اس کے ذریعہ سفر کرناپڑتاہے ۔ یہ معمول بن گیاہے کہ موسم سرماکے دوران سینکڑوں مسافر بس اڈہ اور دیگر کچھ مقامات پر درماندہ ہوتے ہیں او ر ان میںسے کئی کے پاس نہ کچھ کھانے کیلئے ہوتاہے اور نہ ہی آرام سے ٹھہرنے کا انتظام ہوتاہے ۔یوں جو سفر ایک دن میں طے ہوسکتاہے ، اسے مکمل کرنے میں انہیں کبھی کبھی ہفتے بھی لگ جاتے ہیں ۔اسی طرح سے ریاست کے دیگر خطوں اور ذیلی خطوں میں بھی سڑکوں کا یہی حال ہے اورکئی پہاڑی اضلاع کی سڑکیں بھی برف تلے دب کر رہ گئی ہیں ۔ سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا مڑواہ اور واڑون کی لگ بھگ پچاس ہزار آبادی کودرپیش ہے جن کیلئے سڑک تو ہے ہی نہیں البتہ پیدل چلنے کا دشوار گزار راستہ موجود ہے لیکن وہ بھی ایک رابطہ پل گر جانے کی وجہ سے بند ہوگیاہے ۔راجوری ۔تھنہ منڈی۔سرنکوٹ براستہ دیرہ گلی سڑک بھی پچھلے تین روزسے بند پڑی ہوئی ہے جبکہ کوٹرنکہ ۔خواس روڈ پر بھی گاڑیاں نہیں چل رہیں ۔اسی طرح خطہ چناب میں میں بھی کئی سڑکیں بند ہوجانے سے ہزاروں لوگوں کا رابطہ منقطع ہے ۔ایسے حالات اور حقائق کے باوجودارباب اقتدار آئے روز بس یہی دعوے کرتے رہتے ہیں کہ بہتر سڑک روابط کی فراہمی ان کی ترجیحات میں شامل ہیں اور ریاست کی کلہم ترقی کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔لوگوں کو تسلی دینے کیلئے دعوے کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ بہتر سڑک روابط کی فراہمی ہنوز ایک خواب ہے جس کے شرمندۂ تعبیر ہونے میں دہائیاں لگنے کا امکان ہے ۔ پہلے تو ریاست میں بہت بڑی آبادی ایسی ہے جس کو آج تک سڑک کی سہولت ہی نہیں دی گئی اور پھر جن علاقوں تک یہ سہولت پہنچائی بھی گئی ہے تو وہ بھی خراب موسم کے بیچ بقیہ دنیا سے کٹ کر رہ جاتے ہیں ۔ ریاست کے پاس ایسی مشینری بھی نہیں ہے کہ برفباری کو فوری طور پر سڑکوںسے ہٹاکر ان پر گاڑیوں کی آمدورفت بحال کی جائے اور اگر کچھ سڑکوں سے برف ہٹائی بھی جاتی تو بیشتر ایسی ہوتی ہیں جہاں اس کے پگھلنے کا انتظار کیاجاتاہے ۔اس ترقی یافتہ اور جدید دو رمیں اگر جموں کشمیر کی عوام کو بہتر سڑک روابط فراہم نہیں ہونگے اور سال میں کئی مرتبہ خطے ایک دوسرے سے منقطع ہوںگے تو پھر کونسی صدی میںیہ سہولیات فراہم ہونگی ۔حکام کوچاہئے کہ وہ زبانی دعوئوں کے بجائے ریاست کی جدید خطوط پر ترقی کیلئے اقدامات کریں جس کیلئے بہتر سڑک روابط کاہونا لازمی ہے ۔