ہم روبہ زال کب سے ہیں ،یہ تونہیں معلوم البتہ اتنامعلوم ہے کہ جب سے ہوش سنبھالاہے، یہی سنتاچلاآیاہوں کہ ہمارے زوال کاسب سے بڑاسبب بدعنوانی یعنی کرپشن ہے۔ چوری، خیانت، دھوکہ ،حق تلفی ، اختیارات کاناجائز استعمال ، اقرباپروری ، میرٹ کی پامالی اورنہ جانے کیاکیاگھناونے جرائم ہیں،جوکرپشن کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ یہی کرپشن ہمارے ہاں ہرجگہ ، ہرمحکمے اور ہرادارے میں کسی نہ کسی شکل میں موجودہوتاہے،جوروزبروزبڑھتاچلاجاتاہے اورکم ہونے کانام نہیں لیتا۔یہاں تک کہ کرپشن کی اصطلاح ہماری زبان اورہمارے عقیدہ کاحصہ بن گئی ہے۔ ہرچھوٹابڑایہ بات جانتاہے کہ یہاں کرپشن کے بغیرکوئی کام نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اگرآپ کسی سرکاری ملازمت کے لئے ٹسٹ اورانٹرویومیں کامیاب ہوجاتے ہیں ، تب بھی کرپشن کے مرحلے سے گزرنے کے بعدہی آپ کوحق ملتاہے۔اسی کرپشن کی ایک صورت رشوت ستانی بھی ہے،جس کے مطابق کوئی بھی غیرقانونی چیزحاصل کرنے کے لئے افرادکو پیسہ استعمال کرناپڑتاہے اورکبھی کبھی یوں بھی ہوتاہے کہ کسی کواپناحق بغیررشوت کے نہیں مل جاتا۔ رشوت کے متعلق نبی کریم ﷺ کی واضح اورقطعی حدیث ہے کہ رشوت دینے والااورلینے والادونوں جہنمی ہیں۔ پھرہم کس قدراحمق ہیں کہ اس قدرسخت وعیدکے باوجودہم اﷲ اوررسولﷺ کے ساتھ لڑائی مول لیتے ہیں۔
کرپشن کے نقصانات بے شمارہیں۔سب سے بڑانقصان یہ ہے کہ اسکی وجہ سے ہماری قوم روبہ زوال ہے۔ترقی کے سفرمیں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ عدم استحکام کرپشن کی وجہ سے پیداہوتاہے۔ ایک خاص طبقہ دولت اوروسائل پرقابض ہے جبکہ دوسراطبقہ روز بروز غریب اورمفلس ہوتاجارہاہے۔ خاص لوگ مالامال ہورہے ہیں جبکہ عوام ذلت اورپستی کی جانب جارہے ہیں۔ بنیادی ضروریات ،جس کے اوپرقوم کی ترقی کادارومدارہے، جوکہ تعلیم ،صحت، مناسب غذااورصاف پانی ہے، ناپیدہورہے ہیں۔ عالمی پیمانہ ترقی جسے ہیومین دیولپمنٹ انڈکس HDIکہتے ہے، انہیں سہولیات کے اوپرفیصلہ کرتی ہے کہ کونسی قومیں ترقی کے سفرمیں آگے جارہی ہیں اورکونسی روبہ زوال ہیں۔ ہمارے یہاں تو یہ تمام بنیادی ضروریات عام آدمی کے دسترس سے باہرہوتے جارہے ہیں۔ تعلیم کے حصول میں مشکلات پیداہورہے ہیں۔ تعلیم اداروں میں فیسوں کی شرح میں روزافزوں اضافہ ہورہاہے،جس سے کسی غریب کابچہ کبھی اس قابل نہیں ہوسکتاکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکے۔ اسی طرح عوام سے صحت کی سہولتیں بھی چھینی جارہی ہیں۔اسکی مثال ہر گزرتےسال کے دوران ادوایات کی قیمتوں میں ہوش ربااضافہ ہے اور ان ادویات میں زیادہ تر جعلی ہوتی ہیں۔ جوکہ تقریباً ایک سوسے لیکردوسوفیصد تک ہے۔ ایک طرف ذریعہ آمدن نہ ہونے کے برابر ، دوسری طرف مہنگائی کاطوفان ۔ایسے حالات میں ایک عام آدمی کے لئے جینامشکل ہوگیاہے۔
یہاں جو اشخاص بھی حکمران بن کے آئے ، وہ حکومت کی باگ ڈورسنبھالنے سے پہلے عوام سے بہت وعدے کرتےتھے کہ جب وہ حکومت میں آئیں گے، تو وہ یہاںسے بدعنوانی کاخاتمہ کرکےیہاںکی معیشیت کو بہترکریں گے۔ تقریباً نصف صدی کے عرصے میں بہتری کے معمولی آثار تک دکھائی نہیں دئے ہیں لیکن عوام نے حکمرانوںسے جوتوقعات وابستہ کی تھیں، انکی تکمیل تاحال باقی ہے۔ ٹیکسوں کانظام مضبوط کیاگیاہے اوراسکے حصول کے لئے کافی اقدامات کئے گئے ہیں۔کچھ کرپٹ افراد کااحتساب شروع کرنے کے دعوے بھی کئے گئے ۔اگرواقعی ایساہواہے توشاید اس سے بھی عوامی خزانے کو کچھ فائدہ حاصل ہواہوگا۔ یہاں کے حالت کے بہتری کے لئے اورموجودہ حالات کامقابلہ کرنے کے لئے عوام نے تقریباً ہر قسم کی قربانی دی ہے لیکن اب شاید عوام مزید مہنگائی کے اس طوفان سے لڑنے کی سکت نہیں رکھتے اورانہیں اس وقت کاانتظارہے کہ کب وہ خوشخبری انہیں سنائی دی جائے گی کہ انکی زندگی بدل رہی ہے۔ تیل، بجلی، گیس، اشیائے خورونوش، تعلیم اورادویات کی قیمتوں میں بڑھتا ہو ا رجحان سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابھی تک یہاںکرپشن یابدعنوانی کاخاتمہ نہیں ہواہے،جس کی بدولت یہاں کی معشیت میں کوئی بہتری نہیںآئی ہے۔ عوام کی نظریں حکومت پر ہیں کہ وہ بھوک، افلاس، جہالت اوربیماریوں میں زندگی گزار نے والے عوام کے لئے کون سا کارِ خیر کرتے ہیں۔لہٰذا اب وقت کا تقاضاہے کہ حکومت اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر عوام کے لئے جلد ازجلد راحت پہونچانے کے لئے موثر اور ٹھوس اقدامات کا اعلان کرے تاکہ تبدیلی کے اثرات عام لوگوں تک بھی پہنچ سکے۔