بہترین صحافت جوڑتی ہے ،توڑتی نہیں اُردو صحافت میں انسانیت، امن و محبت کا پیغام

منیر حُسین حرہ 
صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاتاہے ۔صحافت ایک ذریعہ ہے، جس کی مدد سے ایک صحافی قارئین اور سامعین کے دلوں پر حکمرانی کرسکتا ہے۔ انسانیت، امن اور محبت کو بگاڑ کے کچھ معاملات نے جو تصویر اختیار کرلی ہے وہ انتہائی کرب ناک ہے، لوگ تقسیم ہورہے ہیں ۔ اسباب عیاں ہیں اور کچھ درپردہ ہیں، کچھ سمجھ میں آتے ہیں ، کچھ سمجھ سے باہر ہیں۔ جہاں ان تمام معاملات کے حل کیلئے مختلف طریقوں سے کاوشیں جاری و ساری ہیں، وہیںاسی میں اردو صحافت کا کردار بھی کافی اہم ہے۔
آج اس پُر آشوب دور میں جو امن و محبت، اتحاد و اتفاق کی بات کرے وہ انسانیت کی خدمت کررہا ہے۔ بلاشبہ اخباری اور ڈیجیٹل دنیا میں کہیں کہیں نفرت اور ٹکرائو کی خبریں ہوتی ہیں تاہم مثبت خبروں کا ایک گلدستہ بھی ہوتا ہے جس میں امن اور محبت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا پیغام ہوتا ہے۔ ایسی خبریں آج کے دور میں کسی تحفہ سے کم نہیں۔ بہت سارے اخبار اور نیوز چینلز جوڑنے پر یقین رکھتے ہیں نہ کہ توڑنے پر جو کہ معاشرے کے سدھار کیلئے سب سے اہم ہے۔
کچھ فلسفیوں نے صحافت کے چار فوائد بتائے ہیں۔ (۱) صحافت کا مقصد تفریح دینا ہے۔ (۲) صحافت کا مقصد نظر نہ آنے والی سچائی سے پردہ ہٹانا ہے۔ (۳) صحافت کا مقصد رنج آلودہ دلوں کو سکون و راحت دینا ہے ۔ (۴) صحافت کا مقصد تحقیق کے بعد تخلیق کرنا ہے۔آج پوری دنیا بدامنی اور خوف و ہراس کے تاریک ماحول سے لرز رہی ہے اور ہر طرف ظلم و ستم کا المناک دور چل رہا ہے۔انسان امن کی تلاش میں پریشان ہے اور صحافت اس پریشانی کو دور کرنے میں خاصا رول ادا کررہی ہے۔ بے بس انسان کی کپکپاتی نگاہیں دیانت دار صحافت کیلئے تڑپ رہی ہیںجوان کو سیاہی کے اس دلدل سے چھٹکارا دلائے۔ صحافت کا بنیادی مقصد اپنے افکار و خیالات ، احساسات و جذبات سے دوسروں کو آگاہ کرناہے ۔ یہ انسان کی بنیادی خواہش ہوتی ہے۔ کوئی ذی شعور انسان اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ معاشرے سے برائیاں ختم کرنے، دوریاں مٹانے اور امن و محبت پھیلانے میں صحافت کا اہم کردار ہوتا ہے لیکن یہ اُسی وقت ممکن ہے جب صحافت اصول و آداب اور اعلیٰ اخلاقی اقتدار پر مبنی ہو۔ انسانی معاشرہ کو صاف و شفاف صحافت کی ضرورت ہے۔
یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ جہاں صحافت کے مثبت کردار سے انقلابات رونما ہوئے ہیں وہیں صحافت کے منفی کردار سے تباہیاں بھی ہوئی ہیں۔ صحافت کاایک کام امن و محبت، اتحاد اور یکجہتی کی فضا کونہ صرف فروغ دینا ہے بلکہ برقرار رکھنا بھی ہے۔اسی لیے ایک جائز یعنی حقیقی صحافی جب اپنا فرض نبھاتے وقت کسی تشدد کا شکار ہوتا ہے تووہ شہید کہلاتا ہے۔ انسانیت کو عروج بخشنے کیلئے صحافت ایک کارآمد آلہ ہے۔یہ ایک ایسی درسگاہ ہے جس میں انسانی قدریں (Human Values) اُستوار کی جاتی ہیں۔ صحافت برائے فروغِ انسانیت، امن و محبت عصرِ حاضر میں ایک مشن کے طور پر کام کررہی ہے۔ صحافت میں تخلیق کار اپنے ہُنر سے امن و محبت کا پیغام دیتا ہے۔ صحافی چنانچہ ایک ایسا انسان ہے جس کے سینے میں درد سے بھرا دل ہوتا ہے، اس کی پہچان ایک Selfless تخلیق کار کی ہوتی ہے۔ امن و محبت ہی انسانیت کی معراج ہے۔ صحافی نہ صرف رپورٹنگ سے بلکہ اپنے بیانیہ سے محبت اور امن جیسے مقدس مضمون کو قارئین تک پہنچاتا ہے۔ ایک اچھے صحافی کابیانیہ سب سے اہم جُز ہے۔ اس کا محور ہی اس کا کرافٹ بناتا ہے۔
مضمون یا ریسرچ پیپر میں جہاں کتابوں یا رسائل و جرائد کے حوالے دئے جاتے ہیں، تاہم میں اپنے ذاتہ تجربے کو بنیاد بناکر کچھ مشاہدات قارئین کی نظرکرتا ہوں۔ میں ملک کی صحافت میں مثبت خبروں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ایک نیا تجربہ لے کر آیا ہوں، جو معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کررہا ہے، جو ملک کے اندر امن و محبت کا درس دیتاہے۔دنیا بھر میں مشہور شہرئہ آفاق سیاحتی مقام گلمرگ کی اگر بات کریں تو یہاں اکثر و بیشتر دنیا بھر سے مختلف مذاہب کے سیاحوں کی آمد ہوتی ہے اور اس طرح یہاں عیدملن کی طرح مختلف مذاہب کے لوگ آپس میں ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے اپنے تاثرات پیش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس گلمرگ بلکہ پوری وادی مذہبی ہم آہنگی کا ایک بہترین گلدستہ ہے۔جب کسی چینل یا اخبار میں گلمرگ کے مندر، مسجد، گُردوارہ اور گرجا گھر کی یکجا تصویر دکھائی جاتی ہے تو ہر مذہب کے لوگ واہ واہ کرتے ہیں اور اس طرح امن و محبت کی یہ تصویر اور خبر پوری دنیا کو جاتی ہے۔ایک سال قبل News-18 اردو پر ایک مفصل رپورٹ نشر ہوئی تو سیاحوں نے کیمرے کے سامنے دل کو چھو لینے والے تاثرات بیان کئے۔ دلی سے آئی ہوئی ایک خاتون سیاح نے کہا کہ ’’ میں نے نہیں سنا تھا کہ کشمیر کے گلمرگ میں ہر دھرم کی عبادت گاہیں ہوں گی۔ جب ٹیلی ویژن پر اس بارے میں رپورٹ دیکھی تو میری چاہت بڑھ گئی کہ میں گلمرگ جاکر یہ نشانیاں دیکھوں اور کشمیر آکر انتہائی خوشی ہوئی کہ یہ جگہ زمانہ قدیم سے امن و محبت کا گہوارہ ہے‘‘۔
اسی طرح کشمیر کے دیگر مقامات سے متعلق جب سیاحوں کے تاثرات نشر ہوتے ہیں تو امن و محبت کا پیغام ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کشمیری لوگوں سے متعلق سیاحوں کے تاثرات اس طرح ہوتے ہیں کہ ’’ یہاں کے لوگ بہت پیارے ہیں ، پیار و محبت سے پیش آتے ہیں، وغیرہ‘‘ ۔جب یہی بیانات اخباروں اور نیوز چینلوں کی سرخیاں بنتی ہیں تو دنیا میں امن و محبت کا پیغام ہی جاتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ایک صحافی امن و محبت اور بھائی چارے کا سفیرہے اور صحافت میں امن و محبت اور انسانیت کا پیغام یہی ہے کہ جب ملک کے ساتھ ساتھ کشمیر کے امن و محبت کے پیغام سے سیاح متاثرہوتے ہیں اور آپس کے پیار کا تذکرہ کرتے ہیں۔ 2022کے جون مہینے میں گجرات کی ماں اور بیٹی اکیلے اپنی ذاتی گاڑی میں ایک ماہ کے سفر پر واردِ کشمیر اور لداخ ہوئیں۔ ان ماں بیٹی میں سے ایک نے کہا کہ وہ امریکہ میں ایک کمپنی کے ساتھ منسلک ہے، کشمیر کی خوبصورتی سے متعلق اخبارات اور ٹیلی ویژن پر دیکھتی رہتی تھی، تبھی کشمیر آنے کا ارداہ ہوا۔ یہاں کی خوبصورتی اور مہمان نوازی نے انہیں کشمیر آنے پر محبور کیا۔ان کے الفاظ یوں تھے کہ ’’ جب یہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی کے بارے میں سُنا تبھی یہاں پہنچی، یہاں مہمان نوازی خوب دیکھی‘‘۔ ان سیاحوں کے مہمان نوازی اور پیار جیسے الفاظ امن و محبت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
صحافت اب پوری طرح سے ٹیکنالوجی سے آراستہ ہوگئی ہے۔ تازہ خبروں کی نشریات پر بھی الیکٹرانک میڈیا کو پرنٹ میڈیا پر سبقت حاصل ہے۔ علاو ہ ازیں الیکٹرانک میڈیا کافی فاسٹ ہوگیا ہے۔ لہٰذا اس کے ذریعے قلیل مدت میں بھی بڑی سے بڑی خبر کو آسانی سے پیش کیا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک اچھی سٹوری کے ڈیڑھ دو منٹ کافی ہوتے ہیں اور ان دو منٹوں میں نشر ہونے والی سٹوری میں امن ومحبت کا پیغام دیا جاتا ہے۔
 ملکوں اور قوموں کے کردار کی تعمیر و تشکیل میں صحافت کا اہم رول ہوتا ہے۔ خوشحالی ، امن اور ملک و قوم کے درمیان اتحاد اور استحکام وبقاء میں صحافت کابنیادی کردارہے۔ اگر یوں کہیں کہ انسانی معاشرے کے لئے صحافت آبِ حیات سے کم نہیں ہے تو بیجا نہ ہوگالیکن وہ واقعی صحافت ہی ہو،کثافت نہیں۔صحافت رنگ و نسل ، ذات پات اور امتیاز سے صاف و پاک ہونی چاہئے۔ امن و محبت اس طرح بھی قائم ہوگا جب ہر فرد خوش خلقی سے پیش آئے۔ خوش خلقی کا برتائو کرنے کا تعلق مخاطب کے اچھا یا بُرا ہونے سے نہیں ہوتا ، بلکہ وہ تو ہمارا وصف ہے۔ سامنے والے کی برائی یا اس سے ہماری ناراضگی کا اثر یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ اہم اخلاقی خوبی سے غافل ہوجائیں۔ اس طرح کی بہت سی چیزوں پر غور کرنے سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ اگر ایسے معاملات میں احتیاط برتی جائے اور مختلف قسم کے معاشرتی حقوق اور اخلاقی تقاضوں کا لحاظ رکھا جائے تو یقین ہے کہ ضرور مختلف طبقات کے درمیان قرب و یگانگت اور صلح و آشتی ،امن و محبت کی فضا قائم ہوجائے گی اور فاصلے بڑی حد تک گھٹ جائیں گے۔ ایسے ہی فاصلوں کو مٹانے کیلئے صحافت خاص طور پر اردو صحافت نے کافی کام کیا ہے اور آگے بھی کرتی رہے گی۔
پتہ۔ملہ بوچھن ماگام ،بڈگام کشمیر
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)