ڈاکٹر عریف جامعی
انسان نفسیاتی طور پر ہر دم تغیر پذیر رہتا ہے۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ اسے ہر آن مختلف قسم کے حالات سے سابقہ پڑتا ہے۔ زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لئے اسے ان حالات سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو انسانی زندگی پژمردگی کا شکار ہوگی۔ اس طرح حیات انسانی جمود کا شکار ہوجائے گی اور پورے کرہ ارض کی رونقیں ماند پڑ جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر انسان زیادہ وقت کے لئے ایک جیسی حالت میں نہیں رہتا۔ انفرادی سطح پر ایسا ہو تو فرد کی نفسیات مشکوک ہوجاتی ہیں، جبکہ اجتماعی طور پر ایسی حالت معاشرے کی صحت میں بگاڑ کا پتہ دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خالق کائنات نے فطرت انسانی کو ایک خاص انداز میں ترتیب دیکر خارجی دنیا سے ہم آہنگ کیا ہے۔ اس ہم آہنگی کا تقاضا یہ ہے کہ خارج کی دنیا میں بھی تبدیلی آتی رہے۔ اگرچہ خارج کی یہ تبدیلی ایک عمومی چیز ہوتی ہے، تاہم یہ تبدیلی کچھ اس طرح سے وقوع پذیر ہوتی ہے کہ یہ انسان کے لئے ایک غیر معمولی واقعہ ثابت ہوتی ہے۔ ایک بار آئی ہوئی تبدیلی اور دوسری بار آنے والی تبدیلی کے درمیان ایک اچھا خاصا وقفہ ہونے کی وجہ سے تبدیلی کا یہ واقعہ انسان کے لئے واقعی ایک نیا اور نرالا تجربہ بن جاتا ہےاور اس تبدیلی کا فوری اثر یہ ہوتا ہے کہ یہ انسان کی زندگی کو تر و تازہ کرکے اس کو جلا بخشتی ہے اور اس کو ایک نیا ہیولا عطا کرتی ہے۔
انسانی زندگی کو فطرت کے ساتھ جوڑ دینے والے ان واقعات میں سب سے بڑا واقعہ جو مسلسل وقفوں کے بعد آتا رہتا ہے ،وہ بہار ہے۔ بہار دراصل ایسا عظیم واقعہ ہے جو فطرت میں ہر طرح کی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ تاہم بہار کے توسط سے رونما ہونے والی تبدیلی مجموعی طور پر ایک مثبت اور خوش آئند تبدیلی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس تبدیلی کا اثر فطرت کے ہر دائرے پر پڑتا ہے۔ چونکہ انسان فطرت کا ایک مرکزی کردار ہے، اس لئے انسانی زندگی پر بہار کا اثر پڑنا ایک بدیہی امر ہے۔ اور جس طرح فطرت کا ہر ہر جز بہار کی آمد سے تر و تازہ ہوتا ہے، بالکل اسی طرح بہار کے نمودار ہوتے ہی انسان کی زندگی کھل اٹھتی ہے۔
یہاں پر یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ دراصل بہار انسان کی حس جمالیات کو نئے ابھرنے والے نظاروں سے سرشار کرتی ہے۔ چونکہ حسن اور خوبصورتی سے متاثر ہونا انسانی فطرت کا خاصہ ہے، اس لئے انسان بہار کا نہ صرف منتظر رہتا ہے بلکہ اس کا والہانہ استقبال بھی کرتا ہے۔ اس طرح انسان گل اور بلبل کے درمیان بہار میں استوار ہونے والے رشتے کو نہ صرف سراہتا ہے، بلکہ اس سے خوب محظوظ ہوتا ہے۔ بلبل کے نغموں کو سن کر سر ہلا ہلا کر جب کلیاں محو رقص ہوتی ہیں، تو انسان خود بخود وجد میں آجاتا ہے۔ ندیوں اور نالوں کا اچھلتا ہوا پانی انسان کے اندر کے تار چھیڑ کر ایک عجیب قسم کا زیر و بم پیدا کرتا ہے اور انسان بہار کی مناسبت سے نغمہ سرا ہوجاتا ہے۔ آبشاروں کا صاف و شفاف پانی جب قوس قزح کے رنگ بکھیرتا ہے تو انسان کے اندر کی ’’رنگینی ‘‘گل و لالہ کی رنگینی سے مل جاتی ہے اور پوری انسانی زندگی رنگین ہوجاتی ہے۔ اس طرح بہار کا یہ پر کیف راگ و رنگ کل حیات کو ایک محفل نغمہ میں تبدیل کرنے کا سامان کرتا ہے۔ ایسے ماحول میں پھر انسان کا کھل اٹھنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے!
البتہ ہم کبھی کبھی بہار کی آمد سے صرف یہ مراد لیتے ہیں کہ باغ باغیچے کھل اُٹھتے ہیں اور کھیت کھلیان لہلہانے لگتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے، لیکن بہار کو صرف یہاں تک محدود کرنا نہ صرف بہار کے تصور کے ساتھ ایک ناانصافی سی لگتی ہے، بلکہ بہار کی یہ تحدید اس کی پوری رنگا رنگی کو پھیکا کردیتی ہے۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ اس صورت میں بہار کا یہ تصور پوری حیات کا احاطہ نہیں کرپاتا اور زندگی کے کئی ایک دائرے بہار کی رنگت اور اس سے پیدا ہونے والی بوقلمونی سے پرے رہ جاتے ہیں۔ ویسے بہار اسی وقت بہار کہلائی جائے گی جب وہ پوری حیات کو اپنی آغوش میں لیکر ایک طرح کی حیات نو کا سامان بھی کرے گی اور خزاں نے حیات کے اوپر جو پردہ لٹکایا تھا، اس کو ہٹائے اور اس کے اندر ایک نئی روح پھونکے۔
بہار کس طرح زندگی کے ہر میدان کی حیات نو کا سامان کرتی ہے، اس کو ہم اپنے معمولات سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ بہار کی نئی رت کے ساتھ ہی ایک کسان اپنے کھیت کی راہ لیتا ہے اور اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ مٹی کتنی زرخیز ہے اور اس کو ’’نم‘‘ کی کس قدر ضرورت ہے؟ چونکہ نئی بہار نے اسے نیا جوش اور ولولہ عطا کیا ہوتا ہے، اس لئے یہ نئی امیدوں کے ساتھ زمین کا سینہ چیرتا ہے اور دانے اور گٹھلی کو ’’گل و گلزار ہونے کے لئے زمین میں دفن کرتا ہے!‘‘ بہار میں متحرک ہونے والا کسان اپنے عمل سے ہر ایک کو یہ سبق دیتا ہے کہ نئی بہار کے آرزو مند کو اپنی محنت شاقہ سے پس انداز کیے ہوئے قیمتی دانوں (سرمائے) کو زرخیز زمین میں خون پسینہ بہاکر دفن کرنا پڑتا ہے۔ تاہم اس کو اپنی محنت سے زیادہ اس بات پر یقین کامل ہوتا ہے کہ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والی اور بہار عطا کرنے والی ذات صرف اور صرف ذات باری تعالی ہے۔ واضح رہے کہ کسانی کے اس عمل خیر میں مرد و زن ایک دوسرے کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔ خواتین بھی بہار آتے ہی اپنی باڑیوں کا رخ کرتی ہیں۔ دونوں یعنی مرد اور خاتون دانوں کو بکھیرتے ہوئے اس خدا کا نام لیتے ہیں جو ہر شئے کا خالق حقیقی ہے اور ساتھ ساتھ اس بات کا بھی عہد کرتے ہیں کہ آنے والی بہار میں وہ ہر کسی کو شریک کریں گے، کیونکہ خدا کی مشیت کے بغیر کسی بہار کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کے الفاظ میں: ’’بے شک اللہ دانے اور گٹھلی کو پھاڑ نکالنے والا ہے۔ وہ مردہ سے زندہ کو پیدا فرماتا ہے اور زندہ سے مردہ کو نکالنے والا ہے۔ یہی (شان والا) تو اللہ ہے۔ پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔‘‘(الانعام: 95) اور پھر وہ گھڑی آجاتی ہے جب کسان کی آنکھیں فصل گل دیکھ کر دمک اٹھتی ہیں تو خدائے بزرگ و تعالی کے ایک اور اعلان پر اس کا یقین کامل ہوجاتا ہے، یعنی ’’تو اللہ کی رحمت کے نشانات دیکھو کہ وہ کس طرح زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ بیشک وہ مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر شئے پر قادر ہے۔‘‘ (الروم: 50)
بہار میں چرواہے اور گڈریے بھی بستیوں کو چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں اور بیابانوں کی راہ لیتے ہیں۔ اپنے ریوڑوں کے ساتھ یہ لوگ اس قدر محو اور مصروف ہوجاتے ہیں کہ دنیا اور مافیھا سے بے خبر سے ہوجاتے ہیں۔ جس طرح عرب کے شتر بان اپنے کاروانوں کی رکھوالی کے دوران خوب نغمہ سرا ہوا کرتے تھے، بالکل اسی طرح دنیا بھر کے چرواہے بہار کی آمد کے ساتھ ہی اپنے سروں کو نیا ترنم بخش کر اپنے گلوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے فطرت کی ساز و آواز سے پر وادیوں میں کھو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ان کی ’’نَے‘‘کچھ اس طرح کا راگ چھیڑتی ہے کہ ان کی نگرانی میں چرنے والے چرندے بھی پرندوں کے سروں کے ساتھ اپنے ’’خاص درد بھرے سُر‘‘ (جو بے زبان آواز سے مزین ہوتے ہیں) ملا کر پورے ماحول میں وجد طاری کردیتے ہیں۔ غرض بہار ہر سمت میں ہر طرح کے پھول برساتی ہے اور ہر شئے ’’اپنے محبوب کی تلاش میں سرگرداں‘‘ ہوتی ہے اور ہر چیز اپنی اصل کی طرف رجوع کرنے کے لئے بیتاب ہوتی ہے۔
بہار کا تصور کتنا ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے کہ نظریات اور اعتقادات کی دنیا کو بھی اس تصور سے کسی صورت الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں عمل خیر کی نتیجہ خیزی کو لہلہاتی کھیتی کی بالیوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے: ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اُگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں)، اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرماتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘ (البقرہ: 261) اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے شکر گزار اور ناشکرے بندوں کے مابین فرق کو واضح کرنے کے لئے بھی اس قسم کی ایک تمثیل بیان فرمائی ہے۔ اس بارے میں خدا کا ارشاد ہے: ’’انہیں ان دو شخصوں کی مثال بھی سنادے جن میں سے ایک کو ہم نے دو باغ انگوروں کے دے رکھے تھے اور جنہیں کھجوروں کے درختوں سے ہم نے گھیر رکھا تھا اور دونوں کے درمیان کھیتی لگا رکھی تھی۔‘‘ (الکہف: 32) تاہم یہاں پر دو رویوں (شکران نعمت اور ناشکراپن) کے فرق کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ’’قرآن کے فنی محاسن‘‘ کی ایک بہترین تصویر کھینچی گئی ہے، جس میں بہار کی رعنائیوں کے ساتھ ساتھ کاشتکاری کی تنظیم اور ترتیب خوب ابھر کر سامنے آئی ہے۔
مجرد نظریاتی معاملات کو بھی قرآن نے شجر ثمر دار اور شجر بے ثمر کے تقابل کے ذریعے، جس میں بہار کی جھلک بدرجہ اتم موجود ہے، سمجھاکر انسانی فکر کو خوب جھنجھوڑا ہے۔ خدا کا فرمان ہے: ’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کیسی مثال پیش کی ہے کہ کلمہ طیبہ شجر طیبہ کی مانند ہے جس کی جڑ مضبوط گڑی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔۔۔ اور کلمہ خبیثہ کی مثال اس شجر خبیثہ کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا گیا ہو اور اس کے لئے کوئی ثبات نہ ہو۔‘‘(ابراہیم: 24۔26) ایسے ہی نظریاتی شجر ہائے سایہ دار اور عمل صالح کی لہلہاتی کھیتی کو دیکھ کو کاشتکار کچھ اس طرح خوش ہوتے ہیں: ’’۔۔۔۔۔ان کی شناخت ان کے چہروں میں سجدوں کا نشان ہے۔ یہی وصف ان کا تورات میں ہے، اور انجیل میں ان کا وصف ہے، مثل اس کھیتی کے جس نے اپنی سوئی (کونپل) نکالی، پھر اسے قوی کردیا، پھر موٹی ہوگئی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی، کسانوں کو خوش کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔‘‘ (الفتح: 29)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق پرست صالح انسان اور رجل فاجر کے درمیان خط امتیاز کھینچتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’مومن کی مثال پودے کی نکلی ہوئی ہری شاخ جیسی ہے کہ جب بھی ہوا چلتی ہے اسے جھکا دیتی ہے۔ پھر وہ سیدھا ہوکر مصیبت برداشت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور بدکار کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے کہ سخت ہوتا ہے اور سیدھا کھڑا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالی جب چاہتا ہے اسے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
اس طرح بہار اپنی تمام تر رعنائیوں کے ذریعے انسان کو محظوظ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دائیہ فکر کو مہمیز بھی کرتی ہے تاکہ وہ بہار کے توسط سے بہار کے خالق سے جڑ سکے، جو اصل میں اس کا اپنا خالق ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ بہار سے پوری فضا طور کا رنگ اختیار کرتی ہے جو انسان کو دعوت نظارہ بھی دیتی ہے اور دعوت فکر بھی۔ یعنی بقول مرزا محمد رفیع سودا ؎
ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا
موسیٰ نہیں کہ سیر کروں کوہِ طور کا
( رابطہ۔9858471965)
[email protected]