بھلیسہ کے 3معصوم بھائیوں کی دنیا ہی اجڑ گئی،پہلے باپ بہن لقمہ اجل، ا ب ماں اور دوسری بہن غرقآب ،کفالت کون کریگا؟

ڈوڈہ //پہلے والد اور ایک بہن کا سایہ سرسے اٹھ جانے اور ا ب والدہ و دوسری بہن کے بھی اس دنیا سے چلے جانے کے بعد گندوہ کے دور دراز علاقہ گلی بٹھولی کے تین معصوم بھائی ایسے وقت میں یک و تنہا ہوکر رہ گئے ہیں جب پوری دنیا کورونا وائرس سے ایک دوسرے سے دور بھاگ رہی ہے۔پندرہ سالہ محمد رفیع، بارہ سالہ محمد شفیع اورتین سالہ شکیل احمد کے سر سے ایک سال پہلے ہی باپ کا سایہ اٹھ گیا تھااورگزشتہ دنوں والدہ اور بہن لکڑی کا ایک عارضی پل عبور کرتے ہوئے دریا میں گر کر لقمہ اجل بن گئیں جس کے بعد ان کی جیسے دنیا ہی اجڑ گئی ہو۔ مقامی لوگوں کے مطابق ان بچوں کے پینتالیس سالہ والد چوہدری محمد حسین کی ایک برس قبل طویل علالت کے بعد موت ہوگئی اوراس کے بعد اس کے پسماندگان میں ایک بیوہ عورت، دولڑکیاں و تین لڑکے رہ گئے، ابھی متاثرہ کنبہ اسی غم میں نڈھال تھا کہ ایک سال کے اندر مرحومہ سکینہ بیگم زوجہ چوہدری محمد حسین کی نو سالہ بیٹی اسی خونی ترنگڑی سے گر کر لقمہ اجل بن گئی تھی جہاں سے دو روز قبل سکینہ بیگم اور اس کی گیارہ سالہ لڑکی گر کر دریا میں بہہ گئیں۔ سکینہ بیگم اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے مال مویشی و محنت و مزدوری کیا کرتی تھی لیکن اسے کیا معلوم تھاکہ تین معصوم لخت جگر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یتیم بن کر رہ جائیں گے اور نہ ہی بچوں نے کبھی ایسا سوچا تھاکہ والد کی وفات کے بعد والدہ بھی چھوڑ کر چلی جائے گی۔بچوں کے ایک نزدیکی رشتہ دار چوہدری عبدالغنی نے بتایا کہ اس متاثرہ کنبہ کی مالی حالت پہلے سے ہی کمزور تھی اور پھر بیمار ی اور ماتم داری نے انہیں مزید کمزور بنادیا ہے لیکن حکومتی سطح پر ان کی کسی قسم کی مدد نہیں کی گئی۔انہوں نے بتایاکہ بچوں کے والد کے انتقال کے بعدوسکینہ بیگم نے ہمت نہیں ہاری اور دونوں لڑکوں کو نزدیکی اسکول میں داخل کروایا، بڑا بیٹا جسمانی طور پر ناخیز ہے اور وہ نویں جماعت کا طالب علم ہے جبکہ چھوٹا بیٹا چھٹی جماعت میں زیر تعلیم ہے اورتین سالہ شکیل احمد ابھی اسکول نہیں گیا۔جب ان تینوں بچوں سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تووہ صرف دیکھتے ہی رہ گئے اور دکھ کے مارے کوئی بات لبوں پر نہ لاسکے۔ان بے سہارا بچوں کو دیکھنے والا ہر شخص جذباتی ہوجاتاہے۔ ان کے پاس رہنے کے لئے ایک عارضی کچا مکان ہے جس کے اندر ان کے 
والدین و بہنوں کی یادیں چھپی ہیں۔ وہ ماتم پرسی پر ا?نیوالے ہر شخص کا منہ دیکھتے ہیں اور اداسی سے اسے جاتے بھی دیکھتے رہتے ہیں۔ان بچوں کی دیکھ بھال کون کریگا اور کون ان کی پڑھائی و کفالت کی ذمہ داری ادا کرے گا،یہ سوال مقامی لوگوں کے ذہنوں میں ہے۔ نوجوان گجر لیڈر چوہدری غلام رسول نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان معصوم بچوں کے حق میں ایس ڈی آر ایف کے تحت معقول مالی امداد فراہم کی جائے اور ان کے رہنے و پڑھائی کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔رابطہ کرنے پر ایس ڈی ایم گندوہ ڈاکٹر پریتم لال تھاپا نے کہا کہ اس سلسلہ میں ضلع ترقیاتی کمشنر ڈوڈہ کو تحریری طور پر آگاہ کیاجائیگا اورچائلڈ لائن پروجیکٹ کے تحت ان کی پڑھائی و کفالت کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ ریلیف کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ریڈ کراس میں مدد کے لئے اعلیٰ حکام سے رجوع کیاجائیگا۔