بکھرے خواب

ڈاکٹر ارشد احمد کوچھے
 انصاف مانگتے مانگتے رمضان کاکاکے پیر تھک گئے اورروتے روتے آنکھوں کی بینائی بھی چلی گئی مگر انصاف نہ مل سکا۔زندگی کے آخری ایام میں رمضان کاکا کوآرام کی ضرورت تھی لیکن انہیں در در کی ٹھوکریں کھانا پڑیں۔رمضان کاکا اگر چہ پیشے سے مزدور تھے لیکن پرُ وقار زندگی بسر کیا کرتے تھے ۔ وقت نے آج رمضان کاکا کواس موڑپر لا کے کھڑا کر دیاجہاں پر بھیک مانگنے کے سوا ان کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہ رہا۔وقت بھی کبھی کبھی کتنا بے رحم ہوجاتا ہے جو انسان کو ایسے موڑ پر تنہا چھوڑ دیتا ہے جہاں اس کادوبارہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہوجانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوتا ہے، جس کی ایک زندہ مثال رمضان کاکا ہے۔ رمضان کاکا نہ صرف ایک شریف النفس انسان تھے بلکہ گاؤں کے ایماندار اورمحنتی لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔وہ اپنی خود داری پر کبھی آنچ نہیں آنے دیتے تھے۔ بھوکارہنا پسند کرتے تھے لیکن کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا ا نہیں گوارا نہ تھا۔کبھی کسی سے کوئی جھگڑا اور نہ ہی کسی کے حق پر ڈاکہ ڈالتے تھے ۔پورے گاؤں میں وہ ایمانداری اور دیانت داری میں اس قدر انگشت نما ہوچکے تھے کہ نہ صرف اپنے بلکہ پرائے بھی ان کی ایمانداری پر رشک کرتے تھے۔

رمضان کاکا اپنے ایک چھوٹے سے کچے مکان میں بیوی ظریف ،جن کو گاؤں کے سبھی چھوٹے بڑے ظریف آپا کے نام سے پکارتے تھے اور اپنی اکلوتی اولاد عبید کے ساتھ پر ُ سکون زندگی بسرکر رہے تھے ۔پیروں فقیروں کی منت سماجت کے بعدخدا نے ان کو ایک اولاد سے نوازا ۔عبید جتناخوبصورت تھا اُس سے کہیںزیادہ نیک سیرت تھا۔ وہ با لکل اپنے والدپر گیاتھا، وہی ایمانداری وہی دیانتداری،وہی خوبیاں ،وہی شرافت پسندی ،وہی خوداری ، وہی منصف مزاجی بلکہ کئی معاملوں میں وہ اپنے باپ سے بھی آگے نکل گیا تھا ۔طریقہ گفتار میں اُس کا کوئی ثانی نہ تھاجب بات کرتا تھا توسامنے والے کو اپنا گرویدہ بنا لیتا تھا۔

 رمضان کاکا اپنے اہل و عیال کے لئے محنت ِشاقہ کرتے تھے۔دن رات خون پسینہ ایک کرکے نہ صرف گھر کے ضروری اخراجات پورے کرتے تھے بلکہ بیٹے عبید کی پڑھائی کی ضروریات کو بھی بہ حسن خوبی پورا کرتے تھے ۔بیٹے کی پڑھائی پروہ بہت زیادہ دھیان دیتے تھے ۔وہ ہمیشہ جب شام کوکام سے واپس لوٹتے تھے تو بیٹھنے سے پہلے بیٹے سے پڑھائی کے متعلق پوچھ گچھ کرتے تھے۔ اگرچہ رمضان کاکا خود  زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن نظام ِہستی احسن طریقے سے چلاتے تھے۔ان کے گھر میںتھوڑا بہت پیسہ ہمیشہ میسر رہتا تھا۔ان کی بیوی ظریف آپا ایک وفا شعار اورسلیقہ مند عورت تھیں جو فضول خرچی کرتی تھیں اور نہ ہی فضول خواہشات کا اظہار ۔وہ ہر وقت اپنے شوہر کی محنت کو قدرکی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔

رمضان کا کاہر کام دل سے کرتے تھے جس کے باعث ان کو ہرکوئی کام پر لینا پسند کرتا تھا اور ہر ایک وقت پر پیسے دیتا تھا تاکہ وہ اُن کودوبارہ کام پرلا سکیں۔ اکثرگاؤں کے دولت مند لوگ رمضان کاکا سے محنت شاقہ کے متعلق پوچھتے رہتے تھے لیکن رمضان کاکا سب کو یہی ایک جواب دیتے تھے کہ کسی کا حق کھانا اور کسی کو دھوکا دینا بہت بڑا گناہ ہے۔اسی لیے وہ ہمیشہ دل سے کام کرتے تھے اورلوگ بھی ان کو زیادہ ترجیح دینے پر آمادہ ہوجاتے تھے۔

رمضان کاکا سادہ دل انسان تھے وہ حرام کھانا با لکل پسند نہیں کرتے تھے ۔وہ حد سے زیادہ محنت کرتے تھے۔ پتہ نہیں وہ اتنی دل جمعی سے کام کیوں کرتے تھے شاید اس ’’کیوں ‘‘کا جواب وہ خود بھی نہیں دے سکتے تھے ۔ایک دن وہ جولائی کے مہینے میں دوپہر کے تین بجے دہکتی دھوپ میں کام کرنے میں منہمک تھے۔ دھوپ میں اتنی شدت تھی کہ دور دور تک کوئی فرد ِبشر نظر نہیں آ رہاتھا ۔ہاں اگر کوئی دکھائی دے رہاتھا تو وہ جبار صاحب، جس کے ہاں وہ کام کررہے تھے اور وہ چھائوں میں آرام فرما رہے تھے۔ دھوپ نے رمضان کاکا کی حالت نڈھال کررکھی تھی۔ کبھی کبھی بادِ سموم کے ساتھ ٹھنڈی ہوا کی لہریں بھی اُٹھتی تھیں جن سے رمضان کاکا کے جسم میں ایک عجیب وغریب قسم کی کیفیت پیدا ہوتی تھی، سمجھو ان میں ایک طرح کی جان آجاتی تھی ۔ ماتھے سے پسینے کی بوندوں کی قطاردر قطار گر رہی تھیں،پورا جسم پسینے سے شرابور تھا ۔پیاس نے رمضان کاکا کو نڈھال کر رکھا تھا وہ پانی کے لئے تڑپ رہے تھے ۔انھوں نے گھر سے جتنا پانی ساتھ لایا تھا اس کاایک تہائی جبار صاحب چھاؤں میں خراماں خراماں پی گئے ۔باقی جو بچ گیاتھا وہ خود بیچ بیچ میں پی گئے ۔اب قرب و جوار میں پانی کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی۔ آس پاس دیکھنے کی بہت کوشش کی مگر نااُمید ی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔لیکن باوجود اس کے وہ اپنے کام میں منہمک و مشغول تھے۔رمضان کا کا کی اس ابتر حالت کو دیکھ کر جبار صاحب کا دل قدرے نرم پڑھ گیا اوردل پر پتھر رکھ کر رمضان کاکا کوسستانے کے لیے اپنے پاس بلالیا ۔پتہ نہیں ان لوگوں کے دل میں انصاف کیوں نہیں ہوتا ۔یہ مزدوروں کی حالت پر ترس کیوں نہیں کھاتے۔ جتنی اجرت یہ مزدوروں کو دیتے ہیں اس سے کہیں زیادہ کا کام ان سے کروانا چاہتے ہیں ۔ آج پہلی بار رمضان کاکا کی نازک حالت سے جبار صاحب کا دل پگھل گیا اور آواز دینے کی زحمت کی۔

’’رمو ادھر آو۔ تھوڑا آرام کر لو ۔گرمی سے تیری حالت خراب ہو گئی۔اگر تم کو کچھ ہوا تو پھر ہمیں تمہا را جیسا مزدور ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا‘‘۔

’’جی صاحب آرہا ہوں‘‘ ۔رمضان کا کا بہت پہلے سے اس آواز کا انتظار کر رہے تھے لیکن جبار صاحب کا دل ابھی تک اس کی طرف مائل نہیں ہو رہا تھا۔ جبار صاحب کے منہ سے اس قدر دھیمی آوازسن کر رمضان کاکا متحیر ہوئےکیوں کہ جبار صاحب جب بھی بات کرتے ہیںتو گرجدار آواز میں، جس سے سامنے والے پر خوف طاری ہوتا ہے ۔اس قدران کے لہجے میں نرمی اور دل میں انصاف دیکھ کر رمضان کاکاپہلے سو چ میں پڑگئے لیکن فوراً جبار صاحب کے حکم کی تعمیل کرکے ان کے قریب چھاؤں میںسستانے لگے ۔ 

’’بیٹھورمو تھوڑا آرام کر لو۔آج گرمی میں کچھ زیادہ ہی شدت ہے ۔‘‘

’’جی صاحب۔آج بہت تیز گرمی ہے۔‘‘ 

’’ رمو ۔میں تم کو صبح سے دیکھ رہا ہوں تم بہت زیادہ محنت کرتے ہو۔‘‘

’’صاحب یہ میری عادت ہے ۔حرام کھانا گناہ ہے اور ان پیسوں میں برکت بھی نہیں ہوتی ہے۔ صاحب اگر میں نے حرام کمائی سے بیٹے کو پال پوس کر بڑا کیا تو وہ بڑھا پے میں میری خدمت نہیں کرے گا ۔‘‘

’’کمال ہے۔رمو تم تو بڑے کام کی چیز ہویار۔ اچھا رمو مجھے ایک بات بتاؤ میں تمہیں بہت دنوں سے دیکھ رہا ہوں تم جتنی مزدوری لیتے ہواُس سے کئی گنا زیادہ کا کام کرتے ہو۔رمو تم نے میرا دل جیت لیا ۔رمو تم اب پورے سال میرے ہی گھر میں کام کرو اورتمہیں بھی ادھر اُدھر بھٹکنا نہیں پڑے گا ۔بتاو کیا کہتے ہو ۔‘‘

’’جی صاحب۔ مجھے کوئی ہرج نہیں ہے مجھے تو اپنے کام سے مطلب ہے ۔‘‘

’’رمو ایک بات بتاؤ ۔تم سال بھر محنت مزدوری کرتے ہو ،یہاںتک کہ ایک دن بھی چھٹی نہیں کرتے ہو، آج تک کتنے پیسے جمع کئے۔آخر اتنے پیسوں کو کیا کرو گے ۔‘‘

’’صاحب۔ ہم غریبوں کے پاس پیسہ جمع نہیں رہتاہے ۔ہم جو کماتے ہیں وہ سب خرچ ہوجاتا ہے۔ صاحب ایک بات کہو ں؟‘‘

’’جی رمو بولو۔ کیا بولنا چاہتے ہو۔‘‘

’’صاحب یہ جو پیسہ ہے نا،یہ ہم غریب لوگوں کے جیبوں میں نہیں رہتاہے۔ صاحب آپ کو پتہ ہے کیوںنہیں رہتا؟‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’صاحب یہ ہماری غربت ومفلسی اور مظلومی کی وجہ سے ہماری جیبوں میں رہنا پسندنہیں کرتا۔یہ صرف بڑے لوگوں کی جیبوں میں رہنا پسند کرتا ہے ۔جو اس کی زیادہ قدر بھی نہیں کرتے ہیں جب کہ ہم غریب لوگ اس کی بہت قدر کرتے ہیں۔ ‘‘

’’کیا بات ہے رمو ۔آج تم بڑی بڑی باتیں کررہے ہو ۔یہ باتیں تم نے کہا ںسے سیکھی ہیں۔‘‘

’’صاحب کیا بتائوں ۔مجھے غربت نے گونگا بنا دیاہے۔ورنہ میں بھی کسی سے کم نہ تھا ۔‘‘

’’رمو اب صحیح صحیح بتاو ٔ کتنے پیسے جمع ہیں تمہارے پاس ۔‘‘

’’صاحب میں جھوٹ نہیں بولتا ہوں کیوں کہ جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے۔ میر ے پاس زیادہ پیسے جمع نہیں ہیں ۔کچھ پیسے ضرور ہیں مگر وہ بیٹے کی پڑھائی کے لیے رکھے ہوئے ہیں ۔صاحب اگر میرے پاس پیسے جمع ہوتے توکیا میں نیا مکان نہیں بناتا ۔ ‘‘

’’رمو تم بیٹے کو پڑھارہے ہو؟کس جماعت میں پڑھ رہاہے تمہارا بیٹا ؟‘‘

’’ صاحب وہ اس سال بارھویں جماعت میں ہے ۔‘‘

’’ تب تم کو کیا فکر ہے رمو ۔ اب تمہارا سارابوجھ ہلکا ہوہی جائے گا۔اس کو بھی کام پر لگاؤورنہ وہ بگڑ جائے گا۔میرے بیٹے کو دیکھولاڈ پیار اور پیسے نے کتنا بگاڑ دیا ۔ وہ اب میری بھی نہیں سنتا ہے وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔‘‘

صاحب میر ا بیٹا ایسا نہیں ہے، وہ نہایت شریف لڑکا ہے ۔وہ میری ہر بات مانتا ہے۔ صاحب میں اس کو بہت پڑھاؤں گا یہ میری تمنا ہے۔ میں جب تک زند ہ ہوں اسے مزدوری نہیں کرنے دوں گا۔

’’رمو پڑھ لکھ کر تمہارا بیٹا کرے گاکیا۔یہاںتو اس جیسے پڑھے لکھے ہزاروں کی تعداد میں بے کار بیٹھے ہوئے ہیں ۔حالانکہ اُن کے پاس پیسوں کی فراوانی بھی ہے ۔تمہارے بیٹے کی تویہاں بات ہی نہیں ہے۔ میرا بیٹااتنا پڑھنے کے بعد ابھی گلیاں چھان مار رہا ہے۔جب کہ میرے پاس پیسہ کے ساتھ ساتھ اُوپر تک پہنچ بھی ہے ۔رمو تم نے آج تک سنا کہ کسی غریب کے بیٹے کو بڑی سرکاری نوکری ملی ۔نہیں سنا ہوگا! صر ف اتنا ہی سنا ہوگاکہ اس نے بڑا امتحان پاس کر لیا ۔امتحان تو وہ پاس کرلیتے ہیں لیکن جب ان کے انٹرویو کا وقت آتاہے تو وہاں ان کو باہر کا راستہ دکھایا جاتا ہے ۔رمو پتہ ہے کیوں ؟کیوں کہ وہاں پیسے والو ں کو سیلیکٹ کیا جاتاہے۔ اگر میرا بیٹا نوکری کے لئے صرف امتحان پاس کرلیتا تو وہ آج بڑی کرسی پربیٹھ کر پیسہ کما رہاہوتامگر وہ ہے نکما۔رمو یہاں قابلیت کم اور رشوت زیادہ چلتی ہے ۔یہ پیسے والوں کا زمانہ ہے، جس کے پاس ہے وہ سب سے افضل ،سب سے آگے اورسب سے قریب اور جس کے پاس نہیں وہ سب سے نکما سب سے پیچھے اور سب سے الگ ۔رمو کتناسمجھاؤں گا تمہیں ۔تم ابھی بھی غفلت کی نیند سو رہے ہو۔‘‘

’’صاحب۔ آپ تو صحیح کہہ رہے ہیں مگر ہم غریب کیا کر بھی سکتے ہیں، ہمارا تو خدا کے سوا کوئی ہے ہی نہیں ۔رشوت خوروں کوتو میرا خدا ایک نہ ایک دن ضرور سزادے گاجو وہ ہم غریبوں کے حق پہ ڈاکہ ڈالتے ہیں۔وہاںکس کی سفارش کرائیںگے ۔‘‘

’’ رمو تم بھی کہاں پہنچ گئے وہاں کا کس نے دیکھا ۔تم موجودہ زمانے کی بات کرو۔ جس کو لو گ ما ڈرن زمانہ کہتے ہیں۔ جس میں دن بہ دن تمام روایتی چیزیں ختم ہوتی جارہی ہیںاورلوگ پیسوں کے پیچھے اس طرح دوڑ رہے ہیں جیسے بھوکے جانور شکار کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ رموپچھلے سال تم نے تو سنا ہی تو ہوگاغلام کے بیٹے کے ساتھ کیا ہوا۔ وہ بھی تو اس نوکری کا حق دار تھا ، اس کے پاس ڈگریوںکا انبار تھا لیکن اس کو وہ کس کام آئیں؟کیوں کہ وہ غریب کا بیٹا تھا اور ہاتھ نوٹوں سے خالی تھے، جس کی وجہ سے اس کی نوکری بھی ہا تھوںسے چلی گئی ۔رمو اگر اس کے پاس پیسے ہوتے تو کیا وہ آج نوکری نہیں کررہا ہوتا ۔مگر ہاتھوں میں کچھ تھا ہی نہیں بچارے کو۔ رمووہ تو انصاف کی خاطر ہائیکورٹ بھی چلا گیا تھالیکن چند پیشیوں میں ہی اس کی جمع پونجی ختم ہوگئی اور مجبوراًاپناکیس واپس لیا۔وہاں جب اس نے وکیلوں کی فیس اور ان کا طرز عمل نزدیک سے دیکھا تو اس پر پاگل پن کا دورہ پڑ گیا۔ رموتم نہیں سمجھوگے یہاں صرف پیسہ بات کرتا ہے صرف پیسہ۔۔۔۔!‘‘

  ’’ رمو تمہاری بری حالت پر مجھے بہت ترس آرہا ہے ۔تم بیٹے کو بھی کام پر لگاؤ۔کم از کم تم کواس عمرمیں تھوڑا بہت آرام نصیب ہو جائے گا ۔ ‘‘

’’نہیں صاحب !میںاس کو بہت پڑھانا چاہتا ہوں ۔میری تمنا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر ایک اچھا انسان بن جائے ۔سماج میں اس کی عزت ہو ۔میرے لیے تو وہی سب کچھ ہے۔ صاحب میرا بیٹا اکثر مجھ سے کہتا ہے کہ لوگ نوکری کی خاطرتعلیم حاصل کرتے ہیں جب کہ  تعلیم اچھا انسان بننے کے لئے بھی حاصل کی جاتی ہے ۔صاحب ایک بات کہوں؟‘‘

’’ہاں رموبتاؤ‘‘

’’صاحب اگر میرے بیٹے کو سرکاری نوکری نہ بھی مل جائے تو مجھے اس کا کوئی افسوس نہیں ہوگا کیوں کہ میرا بیٹااچھا انسان تو بن جائے گا ۔صاحب وہ مجھ سے اکثر کہتا ہے کہ ابا یہاں سب بڑے سرکاری اور پرائیویٹ ادارے چوروں ،لٹیروں ،رہزنوں ،ڈاکوؤںاور مکاروں سے بھرے ہوئے ہیں جو شکل سے انسان تو ہیں لیکن انسانیت سے بے خبر ۔صاحب وہ کہتا ہے جب ان بے ضمیروں کو کسی کو لوٹنے کا  موقعہ ملتا ہے تو اس بچارے کو بے خوف و خطر لوٹ لیتے ہیں۔ ‘‘

رمضان کاکا کی باتوں سے جبار صاحب کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا۔اس کو یہ امید نہیں تھی کہ رمضان کاکا کی سوچ اتنی اچھی  اور اس کے حوصلے اتنے بلند ہونگے ۔جبار صاحب اس کو صرف ایک بے وقوف مزدور سمجھتے تھے بیو قوف اس لئے کیوں کہ وہ حلال کی کمائی کا کھاتاتھا۔جبار صاحب نے رمضان کاکا کے بلند حوصلوں کو پست کرنے کی بہت کوشش کی لیکن رمضان کاکا نے ان کو جواب کچھ اس انداز سے دیا کہ ان کو سبکی محسوس ہونے لگی، جس کی وجہ سے ان کے دل میں نفرت کی آگ سلگنے لگی۔

جبار صاحب کی باتوں سے رمضان کاکا رنجیدہ خاطرہوئے لیکن انھوں نے صبر و تحمل سے کام لیا۔آزردہ خاطر کیوں نہیں ہوتے، انھوں نے دل میں ارمانوں کا ایک محل خانہ سجا کے رکھا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو مزدور نہیں بلکہ ایک اچھا انسان اور ایماندار آفیسر کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں اور یہی وہ امید تھی جو رمضان کاکا کو مزدوری سے نجات دلا سکتی تھی  …….!دوران گفتگو جبار صاحب کی باتوں سے ان کی آنکھوں سے آ نسو کے قطرے بھی زمین پر گر پڑے ۔وہ جبار صاحب کی باتوں سے مایوس تو ضرور ہوئے لیکن بیٹے کی محنت اور لیاقت سے  ناامید نہیں ہوئے۔وہ بیٹے کا نام سن کر اپنا سر فخر سے اٹھاتے تھے۔ اس کا نام لینے سے ہی ان کو خوشی ملتی تھی۔

بالآخر رمضان کاکا کی محنت شاقہ رنگ لے آئی ۔بیٹے نے اعلیٰ تعلیم مکمل کرلی ۔وہ پورے گاؤں میں پہلا ایم۔ ایس۔ سی کمسٹری بن گیا تھا ۔وہ آگے بھی پڑھنا چاہتا تھا لیکن گھر کے حالات نے اسی پر اکتفا کرنے مجبور کردیا۔تعلیم ختم کرنے کے بعد اس نے ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھانا شروع کردیا ۔ وہاں اگرچہ تنخواہ تعلیم کے اعتبار سے نہیں مل رہی تھی لیکن گھر پربچوں کو ٹیوشن پڑھانے سے اس کی آمدنی میں کافی اضافہ ہوا تھااور رمضان کاکا کو مزدوری سے چھٹکارا مل گیا۔ وہ سرکاری نوکری کی تلاش میں بھی ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔جب بھی کبھی کہیں سے کوئی پوسٹ نکلتی تھی وہ درخواست دیتا تھا۔تحریری امتحان بھی پاس کر لیتا تھا لیکن انٹرویو میں اس کو فیل کر دیا جاتا تھا کیوں کہ وہ اپنی قابلیت پر بھروسہ کرکے رشوت نہیں دیتا تھا، جس کی وجہ سے اس کو سرکاری نوکری نہ مل سکی اوریہ تمنا نہ صرف اس کے بلکہ رمضان کاکا کے دل میں بھی باقی رہ گئی۔اس کو کیا پتہ تھا کہ یہاں افسر لوگ پیسے اور تعلقات کو اول درجہ دیتے ہیں اور قابلیت و ایمانداری کو ثانوی درجہ ۔ سرکاری نوکری کی تلاش میں اس کی عمر بھی اب چالیس سال سے تجاوز کرچکی تھی ۔طالب علمی کے زمانے میں اس نے بڑے بڑے خواب دیکھے تھے جو شرمندہ تعبیرنہ ہو سکے۔وہ اب ہر وقت خیالوں کی دنیامیں ڈوبا رہتا تھا جس کی وجہ سے اس کا دماغی توازن بھی بگڑ نے لگاتھا ۔

سرکاری نوکری سے ناامید ہونے کے بعد رمضان کاکا اور ظریف آپانے اس کو شادی کے لیے بڑی مشکل سے راضی کر لیا ۔رمضان کاکا اور ظریف آپا اب بہو کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں ،بہو گھر آئے گی ، کھانا پکائے گی ،چائے بنائے گی، کپڑے دھوئے گی ،گھر کو صاف وشفاف رکھے گی اورگھر کے سب چھوٹے بڑے کا م کرے گی ۔پھر گھر میں پوتا آئے گا جس کے ساتھ وہ دن رات کھیلا کریں گے ۔ غرض وہ طرح طرح کے خواب بن رہے تھے۔

عبید کی شادی کی تاریخ مقرر ہوئی جو گاؤں میں ہی ایک رشتہ دار کی لڑکی سے طے ہوئی تھی ۔رمضان کاکا بہت خوش تھے، اکلوتے بیٹے کی شادی ہے خوشی تو ہو گی ہی ۔وہ عبید کی شادی بڑی دھوم دھام سے کرنا چاہتے تھے۔ پیسوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی عبید بھی اب شادی کی تیاری میں لگ گیا ۔ایک دن اپنے لئے کچھ سامان لانے کے لئے بازار گیا ۔راستے کے کنارے سے چل رہا تھا اور دماغ میں اپنی ناکامیابی کے اسباب کے بارے میں سوچنے میں مصروف تھا کہ اچانک پیچھے سے جبار صاحب کے بیٹے نے اُ سے اپنی گاڑی کے زد میں لا کر کچل ڈالا۔عبید نوکری کی حسرت دل میں لے کر اور والدین کو داغ ِمفارقت دے کر اس دنیاسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلاگیا ۔رمضان کاکا کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے۔تمام امیدوں پر پانی پھرگیا ۔بڑھاپے میں کسی سہارے کی کوئی اُمید نہ رہی۔ ان کی کمر ٹوٹ گئی ۔رمضان کاکا انصاف مانگنے کے لئے ہائیکورٹ تک چلے گئے لیکن جبار صاحب نے اپنی دولت کے بل بوتے پر اپنے بیٹے کوباعزت بری کروادیا ۔رمضان کاکا کے پاس جتنا پیسہ تھا وہ مقدمے میں چلا گیا لیکن انصاف نہ مل سکااور وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہو ئے ۔

کھی کولگام، کشمیر

[email protected]