ملک منظور
بچہ مزدوری کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کی گونج اگر چہ اونچی ہے تاہم اس گونج کا اثر بہت کم نظر آرہا ہے ۔آج بھی ہم معصوم لڑکوں کو ہوٹلوں، ریستوران، چائے کی پٹریوں، دکانوں اور گھروں میں کام کرتے دیکھ رہے ہیں ۔مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے ۔اس سلسلے میں جو رحجان سرت سے پھیل رہا ہے وہ ہے لڑکیوں کی مزدوری کا رحجان ۔اس رحجان کو بڑھاوا دینے والے عام لوگ نہیں ہیں بلکہ ہمارے سماج کا ذہین اور سمجھدار طبقہ ہے ۔جی ہاں وہ طبقہ جوزیرک ہے اور پڑھا لکھا بھی ۔بچوں کی مزدوری اگر چہ قانونی طور پر بھی جرم ہے اور اخلاقی طور پر بھی ۔یہ بچے زیادہ تر ان گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو مفلسی کے شکار ہیں جہاں برابر مقوی غذا، پہننے کےلئے کپڑے ،صاف ماحول اور دوسرے اہم وسائل مہیا نہیں ہیں ۔غربت وہ زحمت ہے جو انسان کو کسی بھی حد تک گرنے کے لئے آمادہ کرتی ہے ۔جب گھر کی ہانڈیاں خالی ہوتی ہیں تو بھوک سے نڈھال لوگ بچوں کا سہارا لیتے ہیں ۔ سماج کے رئیس اور صاحب حیثیت لوگ اس مجبوری کا فائدہ اٹھانا جانتے ہیں ۔زیادہ تر ایسے بچے چند سکوں کے عوض اپنا بچپن گنواتے ہیں ۔
لڑکوں کی مزدوری کا رواج تو سماج نے مختلف بہانے بنا کر جائز قرار دے ہی دیا ہے لیکن لڑکیوں کی مزدوری کو عیب تصور کرنے والے ہمارے سماج نے اب بڑے بےشرم انداز میں اپنانا شروع کیا ہے ۔گھریلو کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے لئے ہمارے ذہین طبقے نے اب چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کو گھروں میں رکھنے کی مہم چھیڑی ہے۔ لڑکیاں جو پہلے ہی مختلف العنوان امتیازی سلوک کی شکار ہیں کو تعلیمی اداروں سے نکال کر تھوڑی سی اُجرت پر گھروں میں رکھنا کسی ظلم سے کم نہیں ہے ۔لوگ ویسے بھی لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کو کم پڑھاتے ہیں ،ان کے ساتھ جنسی امتیاز برتنا عام ہے ۔اس سلسلے میں سماجی بیداری کی تحریک چلانا اگر چہ ذہین طبقے کی ذمہ داری ہے تاہم یہی طبقہ جب ان کو نوکرانی بنانے پر اَڑ جائے تو انصاف کے مہم کی مشعل کس کے ہاتھوں آگے بڑھے گی ۔
لڑکیوں کی تعلیم نہ صرف ہمارے سماج بلکہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے لازمی ہے ۔یہ بھی سچ ہے کہ تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جو مفلسی کی مضبوط زنجیروں کو توڑ سکے۔بچوں کی تعلیم پر توجہ مرکوز کرنا ہر طبقے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری سے منہ موڑ کر خود غرضیوں کے گھنے کہرے میں گم ہونا کسی بڑی نادانی سے کم نہیں ہے ۔یہ نادانی قوم کی بقا کے لئے مضر ہے ۔
سمجھدار اور ذہین طبقے میں کمسن لڑکیوں کی بڑھتی مانگ کا رحجان ہمارے سماج کی بہبودی کے لئے ایک پنپتا ہوا ناسور ہے ۔ہمیں اس رحجان کی مخالفت کرنی ہوگی اور بچوں کی مزدوری کے خلاف سرکاری اداروں کی مدد کرنی ہوگی ۔ سروے کے مطابق ہمارے سماج میں مڈل اسکولوں سے تعلیم چھوڑنے والے بچوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، ان بچوں میں زیادہ تر لڑکیاں ہیں ۔
یہ بات غور طلب ہے کہ ایک امیر باپ کا بچہ بخوبیایک پچھڑے طبقے کے بچے کی نگرانی میں نشونما پارہا ہے جو قابل مذمت ہے۔ ایک خوش نصیب بچہ تعلیم کے نور سے منور ہوتا ہے جبکہ دوسرا بچپن کے حسین دور سے محروم ہوتا ہے ۔ایک بچے کا چہرہ کھلا ہوا ہوتا ہے جبکہ دوسرے کا چہرہ مایوسیوں اور محرومیوں سے بجھا ہوا ہوتا ہے۔
امیر گھرانوں میں ان بچیوں کو بھر پور کھانا اور لباس تو ملتا ہے لیکن ان کی قابلیت پروان نہیں چڑھتی،ان کی صلاحیتیں معزول رہتی ہیں ،انکے سپنے بکھر جاتے ہیں،ان کی سوچ احساس کمتری کے جال میں الجھی ہوئی رہتی ہے۔جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ بچے یا بچیاں کبھی خوشحال زندگی کے لئے سعی نہیں کرتے ۔ان کی ذہنی نشوونما میں نکھار نہیں آتا ،ان کے ارادوں کو پنکھ نہیں ملتے،انکی خود اعتمادی پھولتی پھلتی نہیں ہے ۔اس نا امیدی اور یاس کے عالم میں یہ بچیاں جنسی استحصال کی شکار بھی ہوتی ہیں اور مجبور بھی ۔پھر غریب لوگ خاموشی کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں، امیروں کے ساتھ لڑ نہیں سکتے اور سماج سے جھگڑ نہیں سکتے ۔
یہ ہماری اخلاقی ،سماجی،قانونی اورمذہبی ذمہ داری ہے کہ ہم مفلسوں اور تنگ دستوں کے بچوں کو مزدوری کے دلدل سے نکالنے کی کوشش کریں ۔انہیں تعلیم سے دور نہیں بلکہ اس کی طرف راغب کریں ،ان کے والدین کو تعلیم کی اہمیت اور افادیت سے روشناس کریں ۔
امیر اور دولت مند لوگوں کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے کہ کیسے ان کے ہاتھوں معصوم اور مجبور بچے برباد ہورہے ہیں ۔اپنے بچوں کی خوشحالی کے لئے کس طرح دوسرے بچے کی بلی چڑھ رہی ہے ۔ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ ایک گھر کی چھت کے نیچے کس طرح ان کا بچہ کھیلتا کودتا ہے ،پھلتا پھولتا ہے ،مسکراہٹ کے پھول بکھیرتا ہے ،پیار اور دُلار پاتا ہے ،ناز اور نکھروں میں نشونما پاتا ہے ،شفقت کے جھولوں میں راحتوں کی چسکیاں لیتا ہے ،تاروں کی ٹمٹماتی روشنی سے محظوظ ہوتا ہے اور وہیں دوسرا بچہ جھوٹی مسکان چہرے پر سجا کر ان سب چیزوں سے محروم ہو کر مرجھاتا ہے ۔
ایک ڈاکٹر ،ایک انجینیر ،ایک استاد ،ایک آفیسر اور صاحب ثروت شخص کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کس طرح بچیوں کی زندگیاں پامال ہورہی ہیں، شاید ان کے ہاتھوں سے ۔اس بات کا اعادہ کرنا ضروری ہے کہ کہیں ہم سب ان بچیوں یا لڑکوں کے مجرم تو نہیں ہیں ۔گھر میں بیٹھ کر ان مزدور بچوں کے حالات پر غور کرکے اپنے آپ کا احتساب کرنا از حد ضروری ہے ۔
آج امیر گھرانوں کے صحن میں یا ان کے اندر سینکڑوں ایسی بچیاں ہیں جو معصومیت کا جامہ پہن کر حلیمانہ انداز میں ہر وہ کام کرتی ہیں، جس کا ان کو حکم دیا جاتا ہے۔اب یہ ان کی بدقسمتی ہے یا مالدار لوگوں کی خودغرضی، جو بچہ مزدوری کسی کو نظر نہیں آرہی ہے ۔ معصوم بچوں اور بچیوں کو اگر غلامی کے اس دلدل سے نکالنا ہے تو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے ہاتھ ملانا ہوگا اور ضمیر فروشی سے اجتناب کرنا ہوگا ۔کیوں کہ جو بچیاں اسکولوں میں زیر تعلیم ہونی چاہیے، وہ دوسروں کے گھروں میں برتن دھوتی ہیں ،صفائی کرتی ہیں ،بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں ۔یہ رحجان کسی بھی سماج کے لئے شایانِ شان نہیں ہے ۔
رابطہ۔ قصبہ کھل ،کولگام کشمیر
ای میل۔[email protected]
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)