بچہ مزدوری

انسانی معاشرے کے بعض حقائق ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کوئی فہم و فراست کا دھنی ہو یا ادنیٰ ادراک کا حمل سب لوگ اس بارے میں نہایت حساس ہیں کہ بچوں کی اہمیت کیا ہے اور اُن کے بارے میں ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔ سب جانتے ہیں کہ پرامن معاشروں میں بچوں کے تئیں کئی رویوں کو درست کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جب بچے جنگ و جدل، تشدد، ہلاکتوں اور خوف کی فضا میں عمر کی سیڑھیا چڑھ رہے ہوں، تو بالغ اور حساس طبعیت لوگوں کا کردار کس قدر ناگزیر اور اہم بن جاتا ہے۔ 
گزشتہ روز 12جون کو پوری دنیا میں بچہ مزدوری کے خلاف مزاحمت کا عالمی دن منایا گیا۔ دْنیا کے سبھی بڑے شہروں میں بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے اور اُنہیں تعلیم کے بنیادی حق سے بہرہ ور کرنے کی قسمیں کھائی گئیں، پسماندہ والدین کے بچوں کو زندگی کے مواقعہ فراہم کرنے کے عہد و پیماں باندھے گئے ۔یہ کاوشیں نہایت ضروری ہیں۔ اگرچہ نتائج کے اعتبار سے ابھی بہت کچھ کرنا ہے، لیکن کم از کم بیداری کے حوالے سے یہ مہم کامیاب ہے۔ اُسی کے طفیل جدید ذہن یہ تسلیم کرنے میں ضرورت تامل کرتا ہے کہ بچوں سے مزدوری کروانا پست اخلاق اور استحصالی سوچ کا کھلا اشتہار ہے۔ 
گزشتہ برس اگست میں جو آئینی تبدیلی یہاں لائی گئی، اُس کی ذیل میں سینکڑوں نئے قوانین نے ہمارے روایتی قانونی سٹرکچر کو بدل ڈالا۔اس میں ایک اہم قانون بچوں کے بنیادی حقوق سے متعلق ہے۔ ہمارے یہاں یہ قانون قدرے مبہم اور غیرتسلی بخش تھا۔ اب ہمارے یہاں وفاقی قانون Child Labour Prohibition and Regulation Actنافذ ہے۔ اس قانون کی رْو سے جموں کشمیر کے بچوں کے لئے تعلیم کو بنیادی حق کے طور تسلیم کیا گیا ہے، اور اس حق کی خلاف ورزی کو قابل سزا جرم۔ قانون نیا ہے، بچوں کے بنیادی حق کو تسلیم کرتا ہے، یہاں تک بات مناسب بھی اور قابل تعریف بھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کشمیری بچوں کو سبھی بنیادی حقوق محض قانون سازی سے ملیں گے؟ قوانین کو نافذ کرنا، اُن پر معاشرے کو پابند بنانا اور بھی بڑا کام ہوتا ہے۔ 
2011کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق جموں کشمیر میں 14سال سے کم عمر کے بچوں کی آبادی 26لاکھ53ہزار422 ہے۔ اِن میں جو بچے تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں ،اُن کی سرکاری طور پر تسلیم شدہ آبادی 1,75,630ہے۔ یہ بھی بہت بڑی تعداد ہے، لیکن بھارت میں سرگرم کئی تسلیم شدہ غیرسرکاری اداروں کی رپورٹ دیکھیں تو جموں کشمیر میں ساڑھے گیارہ لاکھ بچے سکول نہیں جاتے اور وہ اپنا اور اپنے اپنوں کا پیٹ پالنے کے لئے مزدوری کرتے ہیں۔ کھیتوں میں، کارخانوں میں، چائے خانوں میں، ہوٹلوں میں، فیکٹریوں وغیرہ میں۔ اس کے علاوہ ہمارے یہاں گھریلوں صنعت جیسے قالین بافی اور شال بافی وغیرہ میں بچوں کی کثیر تعداد اپنے نازک ہاتھوں سے سرمایہ داروں کی تجوریوں میں چار چاند لگا رہے ہیں، لیکن اُجرت کے نام پر اُنہیں بھیک ملتی ہے اور پھر نئے قانون کی رُو سے اب یہ ایک قابل سزا ْجرم ہے لیکن انتظامیہ کو اس بارے میں حساس ہونا ہوگا۔ 
عالمی سطح پر اقوام متحدہ نے یہ اعلان کردیا ہے کہ زرعی سرگرمیوں میں اگر والدین بچوں سے کھیتوں میں کام کروائیں تو یہ بچہ مزدوری کے خلاف قوانین کے زمرے میں ہوگا۔ چونکہ بچوں کی ذہنی نشونما کے لئے ضروری ہے کہ اُن پر کسی قسم کا کوئی دبائو نہ ہو اور وہ تخلیقی اور تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رہیں، یہ از بس ضروری ہے کہ سرکاری سطح کے ساتھ ساتھ یہ بیداری عوامی سطح پر بھی پیدا ہو۔ 
بدقسمتی سے ہمارے یہاں بچہ مزدوری کا ایک پوشیدہ پہلو بھی ہے۔ گزشتہ تیس برس کے دوران جو مسابقتی رویہ کشمیریوں میں پروان چڑھا ، اُس کا سارا بوجھ بچوں پر پڑا ہے۔ بچوں کو مستقبل میں افسری یا اچھی نوکری پانے کی غرض سے کٹھن کورسز میں جھونکا جارہا ہے، اُنہیں بیرون ریاست یا بیرون ملک پاپڑ بیلنے کے لئے بھیج دیا جاتا ہے۔ اکثر والدین کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ ’’اگر میں کچھ نہ کرپایا تو تم کو ضرور کرنا ہوگا‘‘۔ یہ محبت ، شفقت اور فکرِ پسری کے لبادے میں ایسا استحصال ہے جو کسی قانونی شق کی کے دائرے میں نہیں سماسکتا۔ اس پہلو سے جائزہ لیں تو نہ پونے دو لاکھ کی تعداد درست ہوگی نہ ساڑھے گیارہ لاکھ کی، بلکہ یوں کہئے کہ ہمارے سبھی بچے اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں بدترین استحصال کا شکار ہیں۔
عالمی اعدادو شمار کے مطابق پوری دنیا میں21 کروڑ بچے سکول نہیں جاتے اور تقریباً سبھی مزدوری کرتے ہیں۔ بھارت میں یہ تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔ مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش، اترپردیش، پنجاب اور دیگر صنعتی ریاستوں میں اس تعداد کی غالب اکثریت ہے۔ جموں کشمیر کے لاکھوں بچے اسی بڑی تعداد کا حصہ ہیں۔ لیکن میں یہاں کہنا چاہتا ہوں کہ بچوں کے بنیادی حقوق کے حوالے سے کشمیریوں کو زیادہ حساس ہوناچاہیے۔ ہمارے بچے کھیل کے میدانوں میں نہیں ہیں، اُن کے والدین کو ڈر ہے کہ وہ مارے نہ جائیں۔ ہمارے بچوں کی بینائی حالات نے چھین لی ہے۔ ہمارے بچے اپنے دوستوں کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں، اُنہیں اپنی مائوں کی نیم بیوگی پریشان کررہی ہے۔ لہٰذا ہمارے یہاں بچوں کے بنیادی حقوق پر ہم سب کا حساس ہونا زیادہ ضروری ہے۔ 
کشمیر میں سینکڑوں این جی اوز سرگرم ہیں، لیکن ایک بھی ادارہ نہیں جو انتظامیہ کو قوانین نافذ کرنے پر مجبور کرے۔ ظاہر ہے بچہ مزدوری کے خلاف مہم میں مفلس اور نادار والدین شریک نہیں ہونگے، اُنہیں ڈر ہے کہ کہیں وہ فاقہ کشی پر مجبور نہ ہوجائیں، اُن کے بچے سکول جاتے ، لیکن اُنہیں فیس، وردی اور کتابیں کون فراہم کرے گا؟ لہٰذا وہ ہر اُس مہم کو اپنے لئے سمِ قاتل سمجھتے ہیں جو بچوں کو کارخانوں سے اُٹھا کر سکول بھیجنا چاہتی ہے۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم ایک نئی قانون سازی کی مہم چلائیں۔ ایسا قانون جس میں غریب بچوں کے کام کرنے پر کچھ شرائط عائد ہوں، ایک نیا پروٹوکال ہو۔ اگر کوئی کارخانہ دار بچوں کو کام پر رکھ رہا ہے تو اُس پر قانوناً یہ واجب ہو کہ وہ ایسے بچوں کی تعلیم کا انتظام کرے، اُن کے اوقات کار اور اُجرت کی باپت بھی مناسب قانون سازی ہو۔ 
یاد رکھیں کہ ہر انسان کا رویہ اُس کی پرورش کے اثرات کا حامل ہوتا ہے۔ امریکہ میں پچھلے چند سال کے دوران جرائم کے بارے جو تحقیق ہوئی ہے، اُس کے مطابق ہر قبیح جرم کے پیچھے ناقص پرورش کارفرما رہی ہے۔ اگر ہم اپنے بنگلوں کی باغبانی اور مہنگی گاڑیوں کی صفائی کے لئے بچوں کا استحصال کررہے ہیں تو وہ وقت دور نہیں جب ہمیں سماج میں ایسے عناصر کے ظہور کا سامنا ہوگا جو ہماری جاہ و حشمت کو راکھ کردیں گے۔ اور پھر ہمیں خدا کے حضور اپنے اعمال کا حساب بھی دینا ہے۔ کیا جواب دیں گے ہم سے جب پوچھا جائے گا کہ ہم اپنے بچوں کی فکر میں دوسروں کے بچوں کا خون چوس رہے تھے۔ 
(کالم نویس سماجی رضاکار ہیں، رابطہ 9469679449، ای امیل  [email protected])