کاش کہیں سے آئے بچپن
کوئی میرا لوٹائے بچپن
پھر سے ویسا ہی ساون ہو
ماں اور بابا کا آنگن ہو
خوشیوں سے مہکائے بچپن
کوئی میرا لوٹائے بچپن
بہنا، بھیا اور سکھیاں ہوں
کاجل والی دو اکھیاں ہوں
فرصت آئے سجائے بچپن
کوئی میرا لوٹائے بچپن
بھرکھا باش کی مستی ہو
اور وہ کاغذ کی کشتی ہو
یاد بہت ہی آئے بچپن
کوئی میرا لوٹائے بچپن
حدِ نظر تک سُکھ ہی سُکھ ہو
جس میں کورونا کا نا دکھ ہو
سحر کو پھر وہ ہنسائے بچپن
کوئی میرا لوٹائے بچپن
ثمینہ سحرؔ مرزا
بڈھون، راجوری