مومنہ حنیف
مختلف مقامات پر منشیات کی لت میں دھت نوجوان اور کمسن لڑکوں کی ٹولیاں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہےکہ یہ کن کے جوان بچے ہیں جو اس لعنت کا شکار ہیں، انہیں نہ دن کی فکر ہے نہ رات کی پروا ۔انسان اسی سوچ میں پڑجاتا ہے کہ جب یہ پیدا ہوئے ہوں گے تو والدین نے کتنی خوشیاں منائی ہوں گی، مٹھائیاں تقسیم کی ہوں گی،عقیقہ کئے ہوں گے، لیکن آخر وہ کون ہیں جنہوں نے انہیں گمراہی کے راستے پہ ڈال کران کا مستقبل تباہ کردیا ہے۔ ماں باپ کے لیے اُن کے لختِ جگر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اِرد گرد سے ہی غافل ہوگئے اور اب چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔اسی طرح ہسپتالوں میں زیر علاج نشیئوں کو دیکھ کر انتہائی دُکھ ہوتا ہے،جنہوں نے منشیات کی لت میں پڑی اپنی زندگی اپنی ہی زندگی بر باد کر لی ہے۔اطلاعات کے مطابق بہت سے لوگوں نے راہ چلتے دیکھا ہے کہ اکثرسنسان جگہوں ،قبرستانوں، ندی نالوں کے کناروں اور کھیل کے میدانوںاور سیر گاہوں میں یہ نوجوان دنیا و مافیا سے آزاد ہوکر نشہ کررہے ہوتے ہیں۔اخباری خبروں کے مطابق وادی ٔ کشمیر میں جس قدر زیادہ نوجوان نشہ کررہے ہیں ، اس سے کہیں زیادہ منشیات فروشوں کی تعداد ہے۔اگرچہ پولیس اس معاملے میں پوری طرح سرگرم عمل ہے اور منشیات فروشوں کی گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ اُن کی پراپرٹی بھی ضبط کرتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی یہ سلسلہ تھم نہیں جاتا اور یہ زہر نسل نو کی رگوں میں سرائیت کرنےکا عمل جاری رہتا ہے۔یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ منشیات فروشوں نے اب پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی اپنی چین کا حصہ بنا لیا ہےاورکمیشن پر انھیں کام دیا جاتا ہے۔ وہ کچی آبادیوں اور مختلف علاقوں میں اَن پڑھ اور زیادہ تر بیروزگار نوجوانوں کو منشیات فروخت کرتے ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں واقع اسکولز اور کالجز کے باہر بھی منشیات فروشوں کے کارندے طلباءکو منشیات فراہم کرتے ہیں۔حقائق انتہائی کرب ناک اور دلوں کو دہلانے والے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو معاشی بحران اور مادہ پرستی کی دوڑ میں لگا کر شدید ڈپریشن میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ وہ اس ڈپریشن سے نکلنے کا واحد علاج جان لیوا نشوں ہی کو سمجھتے ہیں، اسے کسی بھی قیمت پر حاصل کرتے ہیں۔ اپنا نشہ پورا کرنے کےلئے چوریاںتک کرتے ہیں۔ شاہراہوں، فٹ پاتھ کے جنگلے، اوورہیڈ برج، میدانوں، پارکوں کی گرل، گیٹ، پلوں کے اوپر لگے لوہے کے نٹ بولٹ، چادریں نشہ خریدنے کی نذر ہورہی ہیں۔ماہرین ِنفسیات کے مطابق کے منشیات کے استعمال کی تین بنیادی وجوہ ہیں، جن میں ذہنی دباؤ سرفہرست ہے، جوجذباتی، معاشرتی، گھریلو حالات اور تعلیم کا بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری وجہ شخصیت کا عدم توازن اور تیسری وجہ بُرے دوستوں کی صحبت ہے۔ کچھ دوست منشیات استعمال کرتے ہیں توان کے بہکاوےمیں آکروہ بھی اس کا استعمال کرنے لگتے ہیں۔ نسل نومعاشرتی ردعمل اور درست رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے نشے کوکر رہی ہے۔
معاشرے کو ایک نشئی کئی نشئی دیتا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ منشیات سے سب سے زیادہ 13 سے 25 سال کے نوجوان متاثر ہورہے ہیں۔ پوری قوم کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل جس کو مستقبل کا معمار بننا، معاشرے کو ترقی کی راہ پر لے جانا ہے وہ خود کچرا کنڈی اور نالوں کے ارد گرد ڈیرے ڈالےنظر آرہے ہیں۔ معاشی اصلاح کا علم اٹھانے والی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے منشیات سے پاک معاشرہ تشکیل دینے کی سمت میں کوئی ٹھوس اور موثر اقدام نہیں ہورہا ہے۔
سب اپنے اپنے مفاد میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ انہیں آنے والے مستقبل کو تابناک بنانے کی کوئی خواہش نہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے بھی اگر اس سے محفوظ نہیں تو پھر کیا کہیں۔ تعلیمی اداروں میں جہاں ہمارے معاشرےکے مستقبل کے معمار تیار ہوتے ہیں، وہاں بھی منشیات فروشوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس انتظامیہ کا اس پر کنٹرول کیوں نہیں ؟ ڈرگ ڈیلرز کون ہیں؟ اور اس کا کاروبار کس طرح کیا جارہا ہے؟کون ہے جو ان سوالوں کا جواب دے گا۔جب تک منشیات کے بڑھنے کے اسباب و محرکات کو ختم نہیں کیا جاتا، تب تک اس کے خاتمے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ شائد جموں و کشمیر میں ابھی بھی آگاہی کی مہمات نہ ہونے کہ برابر ہیں۔ اس کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کے سورس کو روکا جائے۔منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کی ایک اوروجہ ہمارے معاشرتی روئیے بھی ہیں ہمیں چاہئے کہ ایسے افراد جو نشے کے عادی ہو چکے ہوں انہیں تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے انہیں دُرست سمت کی طرف لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔شہر کے معزز علماء، اساتذہ ،حکومتی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ، والدین، سماجی و رفاہی و ملی تنظیموں، سیاسی جماعتوں، ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد اور ڈاکٹروں کی بھی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ معاشرے سے اس لعنت کے خاتمے کے لیے مکمل کوشش کریں۔