بچوں میں سرطان کا عالمی دن | وادی میں 2021کے دوران 300سے زائد نئے کیسوں کا اندراج

سرینگر // میڈیکل انسٹی چیوٹ صورہ میںقائم سٹیٹ کینسر یونٹ میں سال 2021کے دوران بچوں میں کینسر بیماری کے 300سے زائد نئے معاملات کا اندراج ہوا ہے۔پچھلے سال بچوں کے علاوہ کینسر میں مبتلا دیگر4738 مرد و زن کا اندراج ہوا تھا۔ یاد رہے کہ سال 2020میں 287بچے سرطان کی بیماری میں مبتلا ہوئے تھے۔پچھلے دو برسوں میں سرطان سے کوئی بھی بچہ فوت نہیں ہوا ہے۔ منگل 14فروری کو بچوں میں سرطان کی بیماری کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کینسر انسٹی ٹیوٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں میں 2ہفتوں سے زیادہ بخار ، جسم میں کسی بھی جگہ ورم اور آنکھوں میں کسی بھی قسم کی تکلیف ، کینسر کی ابتدائی علامات ہوتی ہیں اور ان علامات کی نشاندہی ہوتے ہی  بچوںکا فوراً ماہر ڈاکٹروں سے معائنہ کرانا چاہئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سٹیٹ کینسر انسٹی ٹیوٹ میں چندی گڑھ، ایمز اور ٹاٹا اسپتال ممبئی سے بہتر معیار ہے اور اسلئے کسی بھی مریض کو بیرون ریاست منتقل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔مذکورہ یونٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فیصل نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’بچوں میں خون، جگرکا کینسر، دماغ میں پھوڑااور دیگر اقسام کے سرطان پائے جاتے ہیں‘‘۔ڈاکٹر فیصل نے بتایا ’’بڑوں میں کینسر موٹاپے، سگریٹ نوشی اور دیگر وجوہات کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن بچوں میں کینسر کی بڑی وجہ والدین سے منتقلی ہے‘‘۔ ڈاکٹر فیصل نے بتایا ’’ جہاں تک سرطان سے بچوں میں ہونے والی ہلاکتوں کا تعلق ہے ، تو بلڈکینسر سے ہونے والی اموات 5فیصد سے بھی کم ہے‘‘۔ ڈاکٹر فیصل نے بتایا ’’ابتدائی مرحلے پر علاج کرنے والے کینسر مریضوں میں 90فیصد مکمل طور پر صحت یاب ہوتے ہیں اور بچوں میں بھی یہ شرح رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسپتال میں بچوں کیلئے کھلونے، ٹیلی ویژن اورکھیل کود کے دیگر وسائل بھی دستیاب رکھے گئے ہیں اور ماہر ڈاکٹروں کے علاوہ بچوں کے علاج کیلئے ماہر نفسیات، ماہر غذائیت اور رضاکار بھی موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کینسر میں مبتلا بچوں کو مختلف اسکیموں کے تحت مالی مدد دی جاتی ہے کیونکہ اس بیماری کا علاج کافی عرصہ تک جاری رکھنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کینسر انسٹی ٹیوٹ میں کسی بھی مریض کو مالی مشکلات کی وجہ سے علاج روکنے کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ علاج جاری رکھنے کیلئے ہر ممکن مالی مدد دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر فیصل نے بتایا ’’ کینسر بیماری چاہئے بچوں میںہو یا بڑوں میں، علاج کے قوائد و ضوابط تمام  اداروں میں ایک جیسے ہیں اور ایک ہی طرز کا علاج ہر اسپتال میں دستیاب ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر فیصل نے بتایا ’’ چندی گڑھ، راجیو گاندھی میموریل اسپتال اور ایمز علاج کیلئے جانے والے مریضوں نے واپسی پر سکمز میں ہی علاج کرنا بہتر سمجھا ہے۔