بچوں میں خون کا سرطان فکر ِ صحت

ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری

خلیہ(Cell) انسانی وجود کی بنیادی اکائی ہے،کہا جاتاہے کہ انسان تقریباً 30ٹریلین خلیات سے مل کر بنا ہے،یہ خلیات ہی ہیں جو انسانی جسم کو تشکیل دیتے ہیں، خلیے بڑھتے ،گھٹتے اورتقسیم ہوتے ہیں ،پھر نئے خلیات جنم لیتے ہیں،کینسر کا آغاز بھی انہیں خلیوں میں خرابی کے آنےسے ہوتا ہے ۔کینسر اس وقت شروع ہوتا ہے جب انسان کے کسی عضویا بافتوں(Tissues) میں جینیاتی تبدیلی رونما ہوتی ہے اورخلیات بے قابو ہو کرغیر معمولی طور پر بڑھنے لگتے ہیں۔
کینسر دنیا بھر میں موت کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں کینسر کی وجہ سے ہر 6 میں سے ایک فرد موت کا شکار ہوتا ہے۔ کینسر ایک جان لیوا مرض ضرور ہے، مگر کینسر کے نشوونما سے قبل اگر بروقت اس کی تشخیص کر لی جائے تو مریض صحت یاب ہوکر نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔
خون کا کینسرعام کینسرہی کی ایک قسم ہے جو خون کے خلیوں کو متاثر کرتا ہے،یہ خون کے خلیوں کے اندر موجود ڈی این اے میں تبدیلیوں (میوٹیشن) کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 4 لاکھ بچے کینسر کا شکار ہوتے ہیں ۔ہر 10 میں سے 6 بجے بلڈ کینسر کا شکار ہوتے ہیں۔
بچوں میں خون کے کینسر کی کئی قسمیں ہیں لیکن عام طور پر(ALL) Acute Lymphocytic Leukemia اور(AML) Acute Myeloid Leukemia زیادہ عام ہیں۔لیوکیمیا خون کا کینسر کہلاتا ہے جب کہ لیمفوما غدود کا کینسر۔غدود کے کینسر کی اگر بروقت تشخیص کرلی جائے تو مریض کےٹھیک ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ Lymphocyte سفید خون کے وہ خلیے ہوتے ہیں جو انفیکشن سے بچنے اور بچانے کا کام کرتے ہیں اور بچوں اور بڑوں کو انفیکشن سے محفوظ رکھتے ہیں ،مگر خدانخواستہ اگر کسی بچے کے خون کےسیلز غیر معمولی طور پر زیادہ بننے لگیں اور جو بن رہے ہیں وہ بھی اپنی افادیت کے لحاظ سے نارمل نہیں ہیں تو اس کیفیت کو جس میں Lymphocyte بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں اور اپنی افادیت کے حساب سے بھی نارمل نہیں ہوتے اسے Acute Lymphocytic Leukemia کہا جاتا ہے،جس کی مزید تشخیص مخصوص قسم کے ایڈوانس ٹیسٹوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔
علامات :۔بچوں میں خون کے کینسر کی کئی علامات ہیں، اس مرض میں خون کے سرخ ذرّات میں کمی ہو تو بچے کی رنگت پیلی پڑنا شروع ہوجاتی ہے،بچہ سست ہو جاتا ہے پیٹ پھول جاتا ہے، سفید خون کم ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں خون کی افادیت کم ہو جاتی ہے اور بار بار انفیکشنز ہونے لگتے ہیں اور زیادہ ایبنارمل سیلز بون میرو میں ہونے کی وجہ سے پلیٹیلیٹس بھی بننا کم ہو جاتے ہیں،جسم کے مختلف حصوں سے خون آنا شروع ہو جاتا ہے۔چناں چہ اگر کسی بچے کے جسم سے خون آرہا ہو ،اس کا پیٹ پھول رہا ہو، اس کی سانس پھول رہی ہو،نمونیا بار بار ہو رہا ہو ،بخار ہو رہا ہو،بچہ ڈائریا کا شکار ہو اورخون کی کمی ہورہی ہو تو فوری طور پر معالج سے رجوع کرنا چاہیے کہ کہیں بچے کو خون کا کینسر لیوکیمیا یا لمفوماتو نہیں، واضح رہے کہ لیو کیمیا کی طرح لمفوما بھی ایک ایسا کینسر ہے جو خون میں بہتا تو نہیں ہے، مگر جو غدود ہیں ان کو بڑا کر دیتا ہے اور یہ بھی بچوں میں پایا جاتا ہے۔
وجوہات :۔خون کے کینسر کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ طبی ماہرین ابھی تک اس کی اصل وجہ نہیں جان سکے، تاہم خون کے کینسرکی بنیادی وجہ خون کے سفید خلیوں کے جینز میں اتفاقی تغیرات کو سمجھا جاتا ہے، خون کے سفید خلیے دراصل ایک مدافعتی نظام ہے جو جسم کو بیماریوں سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔مدافعتی نظام میں خرابی،وائرس اور انفیکشنزبلڈ کینسر کے امکانات کو بڑھا دیتے ہیں،تاہم زیادہ تر کینسر میں کوئی نہ کوئی خاص جینٹکس کی نشاندہی کی گئی ہے اور زیادہ تر سائنسی تحقیق اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ مخصوص ماحولیاتی آلودگی کی موجودگی میں یعنی اگر کوئی بہت ہائی الیکٹریسٹی یاہائی پاور کے تاروں کے
پاس رہتا ہے یا کوئی ایٹامک پلانٹ کے پاس رہتا ہے یا کوئی ایسے علاقے میں رہتا ہے جہاں بمباری کی گئی ہو اور اسلحہ بارود کا استعمال کیا گیا ہو تو ایسی جگہوں پر رہنے والوں میں کینسر کا مشاہدہ کیا گیا ہے، یہ تو ماحولیاتی مسائل ہیں۔اس کے علاوہ ایسے جراثیم ،وائرسز اور بیکٹیریاز بھی معلوم کیے گئے ہیں کہ جن کا تعلق بھی کینسر کے ساتھ دیکھا گیا ہے، جن علاقوں میں آلودہ پانی اور گندی کھانے پینے کی اشیاء ہوتی ہیں وہاں بھی کینسر کے امکانات بڑھتے ہیں۔علاوہ ازیں پودوں، سبزیوں اور پھلوں میں جراثیم کشن ادویات (pesticide) چھڑکی جاتی ہیں، اگر یہ بھی زیادہ مقدار میں ہو تو ان سے بھی کینسر کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
علاج :۔کیموتھراپی بلڈ کینسر کا طریقہ علاج ہے اور اس کے ذریعےکینسرکا کام یاب علاج ممکن ہو رہا ہے ۔ 10 سے 20 فی صدوہ مریض جن میں کیموتھراپی نہیں کام کر پاتی ، ایسے مریضوں کو بون میرو ٹرانسپلانٹ کی ضرورت پیش آتی ہے۔بون میرو ٹرانسپلانٹ کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مریض شفایاب ہو جاتے ہیں ،تاہم زیادہ تر مریضوں میں ٹرانسپلانٹ کی نوبت نہیں آتی اوروہ صرف کیمو تھراپی ہی سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ محض 20 سے 25 فی صد مریض ایسے ہوتے ہیں جن کو کیموتھراپی کے بعد بون میرو ٹرانسپلانٹ کی بھی ضرورت پڑتی ہے جب کہ دیگر کینسرز میں ٹرانسپلانٹ کا کوئی خاص رول نہیں ہے۔ ان کو کیموتھراپی سے ہی ٹریٹ کیا جاتا ہے۔
کینسر کے علاج کے دوران خاص طور پر بلڈ کینسر کے علاج کے دوران خون کی شدید ضرورت پڑتی ہے، اس وقت خون کا انتظام کرنا مشکل ہو جاتا ہے چنانچہ یہ بہت ضروری ہے کہ مریض کے رشتہ دار، دوست، احباب تازہ خون کا بندوبست رکھیں۔ کینسر کے وہ بچے جن کا علاج کیاگیا وہ اب خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔یہاں پر یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ شروع کے دنوں میں علاج کے دوران یا بعد میں جو خوف اور سائیکولوجیکل ایموشنل ڈسٹرکشن مریض اور اس کے خاندان میں آجاتی ہے اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔اس حوالے سے ایموشنل اور سائیکالوجیکل تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔