کپوارہ // سرحدی ضلع کپوارہ کے دور دراز علاقوں میں دور جدید میں بھی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ،ان علاقوں کے لوگوں کے لئے بہتر سڑک رابطے، طبی سہولیات، پینے کا صاف پانی اور بجلی ایک خواب ہے لیکن یہ سب سہولیات ان علاقوں کے لوگوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنی ذہانت کا لو ہا منوایا۔لولاب وادی کے کھرہامہ سے متصل بٹہ ناڑ علاقے کے تقریباً نصف درجن دیہات جن میں چکلہ، بٹہ ناڑ شرانٹھ، گرٹناڑ، ڈوبن اور ٹارئیاں شامل ہیں کے عوام نے کہا ہے کہ ان کی دیرینہ مانگ کے بعد اگر چہ اس سال ان دیہات میں سڑک رابطہ پر کام شروع کیا لیکن کام شروع کرنے کے بعد محکمہ تعمیرات عامہ کے اہلکار اچانک نو دو گیارہ ہو گئے اور یوں ایک بار پھر ان کے ساتھ پہلے کی طرح مذاق کیا گیا ہے۔ مقامی سماجی کارکن یونس ابرار چودھری نے اس بات کو لے کر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور علاقے کے غریب اور سادہ لوح عوام کے ساتھ بار بار اس طرح کا بھونڈا مذاق کئے جانے پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے مقامی ممبر اسمبلی عبدلحق خان کو بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لئے جانے پر بھی نہایت افسوس جتایا حالنکہ متعلقہ ممبر اسمبلی نے متاثرہ علاقے کا متعدد بار دورہ بھی کیا ہے اور مقامی لوگ اس حوالے سے ان سے ملاقات بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقہ سے سوتیلی ماں کا سلوک کیا جاتاہے ۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے یہ سب کچھ ہم برداشت کرسکتے تھے لیکن اب یہاں کے تعلیمی اداروں کی طرف بھی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ہائی سکول شراٹھ نے دسویں جماعت کے حالیہ نتایج میں جو کارکردگی دکھائی ہے وہ نہایت ہی حیران کن ہے۔ مقامی لوگو ں کا کہنا ہے کہ رمسا سکیم کے تحت اگرچہ چار سال قبل یہاں کے مڈل سکولوں کا درجہ بڑھا کر اسے ہائی اسکول کا درجہ دیا گیا لیکن گورنمنٹ ہائی اسکول شرانٹھ میں یا تو تدریسی عملے کی کمی رہتی ہے یا پڑھائی کا معیار غیر تسلی بخش ہوتا ہے جس کے نتیجے میں مسلسل چار سالوں سے دسویں کے نتایج میں اس اسکول نے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی نتیجتاً بچوں کا مستقبل مخدوش ہوتا جا رہا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ میٹرک کے امتحان میں بیٹھے 40 طلباء و طالبات میں سے صرف ایک طالب علم نے کامیابی حاصل کی ہے جو کہ نہایت حیرانی کی بات ہے۔ واضح رہے کہ اکیسویں صدی کے جدید دور میں بھی بجلی کی رو اور دیگر سہولیات سے محروم اس علاقے کے ایک طالب علم جمال الدین کھٹانہ نے گورنمنٹ ہائیر اسکینڈری سے اس سال بارویں جماعت کے امتحان میں ساینس مضامین میں %82 نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔ جمال الدین کھٹانہ نے کہا کہ اس نے دسویں اور بارویں جماعت میں اس علاقے میں بہت پہلے سے چلی آ رہی روایت کے مطابق چوب چراغ اور موم بتی جلا کر کتابوں کی ورق گردانی کی ہے تبھی وہ دونوں امتحانات میں کامیاب ہو پایا ہے اور اس طرح کے حالات سے گزر کر دوسرے چند لوگوں کی طرح وہ بھی بارہویںمیں کامیابی حاصل کر پایا ہے۔ اس نے ایک مقامی ناول نگار ایک ایڈوکیٹ اور چند دوسرے پڑھے لکھے نوجوانوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا انہوں نے بڑی محنت و مشقت سے گزر کر اپنا لوہا منوایا ۔ اگرچہ علاقے میں قابل بچوں کی کوئی کمی نہیں تاہم سہولیات کی کمی کی وجہ سے وہ زندگی میں اکثر ناکام ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ علاقے کے بہت سارے پرایمری اسکولوں کو مخلوط کیا گیا ہے چھوٹے بچوں کو بہت چلنا پڑتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کا من پڑھائی سے اکتا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر سطح پر یہاں پڑھائی کا معیار بہت ناقص ہے جس علاقے میں اٹھویں کا کوئی بھی بچہ اردو نہیں پڑھ سکتا اس علاقے میں بچوں کی بورڈ امتحانات میں کامیابی کی کیا ضمانت دی جا سکتی ہے۔ جمال الدین کھٹانہ نے مزید بتایا کہ بجلی کی عدم دستابی کی وجہ سے ہی یہاں کے عام بچے اپنی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ہیں اور نتیجے کے طور وہ امتحانات میں ناقص کردگی دکھا کر بد ظن ہوتے ہیں اور پھر تعلیم سے منہ موڈ لیتے ہیں لیکن میں نے یہ سب ایک طرف چھوڑ کر اپنی تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتا گیا اور یہی وجہ ہے کہ حالیہ بارویں جماعت کے امتحانات میں، میں نے امتحانی پوزیشن حاصل کی۔علاقہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ طبی سہولیت ہو یا سڑک رابطہ،پینے کے صاف پانی کی قلت یا بجلی کی عدم دستیابی ہو ،ان علاقوں کے لوگوں کیلئے ایک خواب بن گیا ہے۔