سہیل سالم
وہ ایک بوڑھا مکان تھاجس کی آنکھوں میں ابھی بھی تھوڑی بہت روشنی موجود تھی مگر دھند نے اسے اپنی تحویل میں لیا تھا۔روشنی کی ایک بھی کرن نظر نہیں آرہی تھی۔ایسا لگتا تھا کہ بوڑھے مکان کے حسن کو دھند نے نگل لیا تھا۔بوڑھے مکان میں لوگوں کی روحیں قید تھیں۔وہ بھی اپنی روح سے ملاقات کرنا چاہتا تھا۔آخر کار اس نے بھی بوڑھے مکان کے دروازے پر دستک دی۔
مکان کے کسی خستہ حال کمرے سے آواز آئی ۔۔۔!!!!
“تم اس عمر میں یہاں کیا کرنے آئے ہو”
“یہ بوڑھا تمہارے کسی کام کا نہیں ۔۔”
“جاؤ کسی رانی کے محل میں وہاں تمہاری روح کو سکون ملے گا”
“وہ یہ سن کر چونک گیا مگر اس نے بھی کہا….!!!”
میں بھی اسی بوڑھے مکان کے جسم کا ایک حصہ ہوں۔میری روح بوڑھے مکان کے وجود میں اتر چکی ہے۔میری رگوں میں بھی بوڑھے مکان کا خون دوڑھتا ہے۔شعوری اور لاشعوری طور پر میں بھی بوڑھے مکان کے خواب میں آتا رہتا ہوں۔بوڑھے مکان کی گلیوں میں میری بھی پرورش ہوئی ہے۔بوڑھے مکان کی چھت پر میں نے چاند کو روتے دیکھا ہے۔بوڑھے مکان کے بچے جوان ہونے سے پہلی ہی بوڑھے ہوجاتے ہیں ۔
رات کے گیارہ بجے گیا اور وقت نے اپنا لباس تبدیل کیا۔وہ بوڑھے مکان کے ایک ایک کمرے کا جائزہ لے رہا تھا کہ اچانک ایک کمرے کی دیوار پر ایک عجیب و غریب تصویر ابھر آئی۔یہ تصویر رنگین بھی تھی اور بے رنگ بھی۔یہ تصویر ایک عورت کی تھی جو کہ بوڑھے مکان کی ماں تھی۔وہ ڈر گیا اور ننگے پاؤں دریا کی جانب دوڑ پڑا ۔رات کے اندھیرے میں اس نے تمام خواب دریا کے حوالے کر دیئے لیکن بوڑھے مکان کی ماں کا سایہ اس کا پیچھا کر رہا تھا ۔
“بیٹے میرے بیٹے۔۔۔۔۔یہ کیا کیا؟
“جب میں نے بوڑھے مکان کی پتھریلی آنکھوں میں جھانکا کر دیکھا تو وہاں سارے خواب لہو لہان ہوچکے تھے ۔میں ڈر گیا اس لئے میں نے بھی اپنے خوابوں کا گلا گھونٹ دیا ۔”
“اس نے کہا ۔۔۔”
“مطلب ۔۔۔۔قاتل بھی آپ ۔۔۔مقتول بھی آپ۔۔۔۔۔”
“بوڑھے مکان کی ماں نے کہا۔۔۔۔”
“نہیں نہیں میں ایسا نہیں ہوں۔۔۔۔ایسا نہیں ہوسکتا ”
وہ پھر سے دریا کی جانب دوڑ پڑا مگر اب وہ دریا نہیں تھا بلکہ آگ کا دریا بن چکا تھا۔دریا کے آس پاس کی بستیاں دھویں میں غرق ہورہی تھیں۔آہ فغاں سے چرند وں اور پرندوں پر خوف طاری ہورہا تھا۔لوگوں کے خواب ایک دوسرےکو کندھا دے رہے تھے۔وہ بھی اپنے انوکھے خواب، آگ کے دریا، سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اس کا خواب بھی اختتام سفر پر روانہ ہو رہا تھا۔
“وہ اب اپنے آپ سے کہنے لگا”
اب میرے خواب بھی اپنے اصلی سفر پر روانہ ہوئے مگر میری آنکھوں میں اب کسی بھی نئے موسم کا کوئی خواب جنم نہیں لے گا۔
“بیٹے میرے بیٹے کیا سوچ رہے ہو”
“پیچھے سے بوڑھے مکان کی ماں نے کہا”
“ما۔۔ماں۔۔ماں نہیں کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔”
تم یہی سوچ رہے ہو کہ دریا کے کتنے چہرے ہیں۔وہ اب پہلا والا دریا نہیں رہا۔
“بوڑھے مکان کی ماں نے افسردگی کے ساتھ کہا”
اس سے یہ محسوس ہورہا تھا کہ دریا کو یہ کیا ہوا۔اس نے کیوں ایک خوفناک روپ دھار لیا۔دریا کی روانی ایک نئی تاریخ لکھ رہی تھی اور تاریخ کا ایک ایک باب گندگی سے بھر پڑا تھا۔دریا کے کنارے لوگ ایک دوسرے کی عزت و آبرو کے ساتھ کھیلتے رہتے تھے۔
“ایک شخص نے کہا کیوں نہ آج بوڑھے مکان میں قید روحوں کی عفت وعصمت کو تار تار کیا جائے”
“اس شخص کی یہ بات سن کر اس کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی۔”
“وہ زور زور سے چلانے لگا۔نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔۔میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔”
وہ تیزی سے دوڑنے لگا اور آخر کار بوڑھے مکان کے آنگن میں پہنچ گیا۔بوڑھے مکان کے آنگن میں ایک نیا موسم وارد ہوچکا تھا۔ہرطرف ویرانی اور مایوسی چھائی ہوئی تھی۔مگر بوڑھے مکان کا آنگن تو شاید پہلے قبرستان ہی تھا اور آج بھی قبرستان ہی لگ رہا ہے۔وہ قبرستان کے دوراہے پر کھڑا تھا ۔۔۔جہاں ایک طرف بوڑھے مکان کی قبر تھی اور ایک طرف بوڑھے مکان میں قید کی گئی روحیں۔
���
رعناواری، سرینگر
موبائل نمبر؛9103654553