بوپی سکینڈل:مشتاق پیر کو 16برس قید سخت

سرینگر //5برس قبل منظر عام پر آئے سنسنی خیز مسابقتی امتحانات کے دوران پرچے فروخت کرنے کے سکینڈل، جسے عرف عام میں بوپی سکینڈل سے جانا جاتا ہے،میں انسداد رشوت ستانی کی عدالت نے فیصلہ صادر کرتے ہوئے سابق بوپی چیئر مین مشتاق پیرسمیت 46افراد کیخلاف سزا سنائی ہے۔ عدالت نے 8افراد کو بری کردیا ہے۔ نومبر 2012 میں اس سکینڈل کو بے نقاب کیا گیا تھا جس کے بعد کرائم برانچ نے اسکی تحقیقات کی اور چالان عدالت میں پیش کیا۔ 5سال سے زائد عرصہ تک اس کیس کی سماعتیں ہوتی رہیں اور بدھ کو انسداد رشوت ستانی کی خصوصی عدالت نے فیصلہ صادر کیا۔عدالت نے مشتاق پیر کو مختلف دفعات کے تحت الگ الگ سزائیں سنائیں جو کل ملا کر 16سال قید سخت بنتی ہے اور اس پر ایک کروڑ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیاہے۔عدالت نے پرچے فروخت کرنے میں دلالی کرنے والے سرغنہ سجاد احمد بٹ کومختلف دفعات کے تحت 12 سال قید سخت اور 50ہزار جرمانے کی سزا دی ہے۔اسکے علاوہ 2درمیانہ داروں محمد امین گنائی اور سہیل وانی کو بھی مختلف دفعات کے تحت 8سال قید سخت اور 25لاکھ کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔مزید 2درمیانہ داروں ہارون رشید اور شبیر ڈار کو مختلف دفعات کے تحت 6سال قید سخت اور 5لاکھ کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں 19والدین ، جنہوں نے اپنے بچوں کیلئے پرچے لاکھوں روپے میں خریدے، کو دو مختلف دفعات کے تحت 6سال کی قید سخت کے علاوہ 5لاکھ کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ایم بی بی ایس  امتحان میں شامل ہوئے 11امیدواروں کو بھی دو مختلف دفعات کے تحت دو سال کی قید سخت کی سزا سنائی ہے۔عدالت نے متاثرہ امیدواروں کوفی کس 50ہزار معاضہ بھی دینے کا حکم دیا ہے۔عدالے کا کہنا ہے کہ مجرموں پر عائد جرمانہ انکی منقول یا غیر منقول جائیدادوں کو فروخت کر کے وصول کیا جائے۔سرینگر میں انسداد رشوت ستانی کی خصوصی عدالت  کے جج یشپال بورنی نے بدھ کو377صفحات پر مشتمل فیصلہ صادر کیا۔ اس کیس کے ساتھ جڑے ایک وکیل نے کہا کہ فیصلے کے وقت مشتاق احمد پیر عدالت میں موجود تھے،جبکہ خصوصی جج یشپال بورنی نے فیصلہ سناتے ہوئے43لوگوں کو سزا سنا دی،جبکہ اس کیس سے منسلک7 افراد کو بری کر دیا ۔ انسداد رشوت ستانی کے خصوصی جج یشپال بورنی نے کہا’’ ملزم  نمبر ایک جو کہ ایک عوامی خدمتگار تھا،اور بورڑ میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا،غلطی کا تانہ بانہ بننے میں مرکزی کردار ادا کیا،جس نے لاکھوں طلاب و انکے والدین کے اعتماد اور بھروسے کو ٹھیس پہنچائی،اور اپنی پوزیشن کا ناجائز استعمال کرکے کے تیزی سے رقومات کمانے میں لگا‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ معاملے کے درمیان دار اور انکے  دیگر ساتھیوںنے راتوں رات اپنی قسمت بدلنے اور لاکھوں روپے کمانے کیلئے یہ موقعہ استعمال کیا۔ خصوصی جج نے کہا کہ والدین نے اپنے بچوں کو ڈاکٹر دیکھنے کیلئے اس جرم کے ارتکاب کو کوئی بھی حرج نہیں سمجھا،اور اپنے برسوں کی کمائی کو کسی کی مٹھی گرمانے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ دی،تاکہ وہ غیر قانونی طریقے سے اپنی دولت اور پوزیشن سے نشستیںحاصل کرسکیں۔خصوصی جج نے مزید کہا کہ انفرادی امیدوارگو کہ اپنی زندگی کے اہم پائیدان پر تھے،کو بہت کم چارہ تھا،تاہم وہ اپنے پر زیادہ عزم والدین کے توقعات پر کھرا اترنا چاہتے تھے،اور بالاخر اس غلطی کا پھل بھی حاصل کیا،جس کے تحت وہ غیر قانونی طور پر میرٹ میں اپنا نام درج کرانا چاہتے تھے،جبکہ وہ ان نشستوں کو حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ یشپال بورنی نے  فیصلہ سناتے ہوئے کہا ’’ سزا دینے کا مقصد اخلاقی طور پر انہیں سزا دینا اور انصاف کرنا ہے‘‘۔ مشتاق احمد پیر کو23نومبر2014کو کرائم برانچ نے اس وقت گرفتار کیا تھا،جب تحقیقات کے دوران انہیں اس بات کا علم ہوا تھا کہ پیر نے سوال ناموں اور ان کے جوابات کی چابی کو60لاکھ روپے میں فروخت کیا ۔اس دوران مشتاق احمد پیر کو دیگر50کے قریب لوگوں کے ہمراہ ایف آئی آر نمبر24/2014زیر دفعات 420,120B آر پی سی5شقR/W2 دفعہ5شق 2انسداد رشور ستانی ایکٹ کے تحت کرائم برانچ چالان پیش کیا گیا۔ریاستی ہائی کورٹ نے گزشتہ برس24مئی کو مشتاق احمد پیر کو ضمانت پر رہا کر دیا،جبکہ اس سے پہلے ہائی کورٹ اور اس کی ماتحت عدالتوں نے کئی بار پیر کی ضمانتی درخواست کو مسترد کیا تھا۔واضح رہے کہ عدالت نے اس کیس میں میر واجد، میر دانش،عبدالمجید میر،ہلال احمد شوکھلی،محمد سلیم میر،افروزہ اختر،نریش کمار پنڈتا اور صائمہ حسین کو بری کردیا۔