سے فارغ ہوتے ہی شازیب منہ لٹکائے اپنا بوریا بسترا گول کرکے گھر جانے کی تیاریوں میں مصروف تھا ۔ کتابوں سے پُر بیگ کاندھوں پہ لٹکاکر سیدھے سومو اسٹینڈ جا پہنچا۔ بستر کو سومو کی چھت پر رکھ کر خود بیچ والی نشست پر آکر بیٹھ گئے۔ سومو روانہ ہونے میں ابھی چند منٹ باقی تھے لہٰذا شازیب پاس میں ہی ایک دکان پر ٹھنڈا پینے لگا۔ ابھی بوتل کا ڈھکن کھولنے ہی والا تھا کہ ڈرائیور نے ہارن بجا کر شازیب کو اشارہ کیا اور شازیب سومو میں بیٹھ کر اپنے منزل کی اور روانہ ہو گئے۔
سومو روانہ ہوتے ہی سواریاں ایک دوسرے سے محو گفتگو ہونے لگیں ۔ ایک شازیب تھا جو منہ لٹکائے اپنی بیچ والی نشست پہ اُداس بیٹھا تھا ۔ چہرے سے اُداسی کے آثار خوب ٹپک رہے تھے۔ معلوم نہیں گھر جانے کی فکر کھائے جا رہی تھی یا دوستوں سے جدائی کا غم چہرے پر اداسی کی جو کیفیت نمایاں تھی اُن کو محسوس تو کیا جا سکتا تھا لیکن ان کا اظہار ایک مشکل امر تھا۔
آخر نا چاہتے ہوئے بھی شازیب کو دوستوں کی سنگت کو خیرباد کہنا پڑا۔ کچھ رشتے محض وقتی ہوتے ہیں لیکن وقتی ہونے کے باوجود لیکن ہوتے بڑے ہی عزیز۔۔۔۔۔۔۔!!!
دو تین گھنٹوں کا سفر بڑی آسانی سے طے ہوا ۔ گھر والے اُسکے کے استقبال میں پہلے سے ہی منتظر بیٹھے تھے ۔ بیٹے کو دیکھ کر گھر والے خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے ۔ ایسے موقعوں پر خوشیوں کا مظاہرہ کرنا ایک فطری بات ہے۔
گھر والوں سے سلام و دعا کے بعد شازیب اپنے کمرے میں چلا گیا۔ جسم تھکن سے چور تھا اور دل پر ایک بوجھ سا محسوس ہو رہا تھا۔ کچھ دیر آرام کرنا چاہتا تھا۔ ابھی آنکھ لگنے ہی والی تھی کہ دفعتا دروازے پر کسی نے دستک دی۔
” بھا ئی ! امّی چائے کیلئے پوچھ رہی ہے۔ چائے وہیں آکر پیو گے یا یہیں کمرے میں لائوں گی۔“
شازیب :۔ کیا ہوا ؟
” تم لوگ ڈھنگ سے آرام بھی نہیں کرنے دیتے ہو۔ یہاں بندہ تھوڑی دیر کیلئے چین سے بھی نہیں رہ سکتا۔ میں ابھی بہت تھک چکا ہوں۔ تھوڑا سا آرام کرکے میں خود ہی آئونگا۔ اور پلیز مجھے اب تنگ مت کرنا۔ “
کچھ دیر آرام کے بعد شازیب فریش ہو کر کچن میں داخل ہوا ۔ سب گھر والے کچن میں سہ پہر کی چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ اُس کے کچن میں داخل ہوتے ہی سب گھر والے ایسے خاموش ہو گئے۔ جیسے کوئی سانپ سونگھ گیا ہو۔
والد :۔ ” آئو بیٹا ! میرے پاس آکر بیٹھو ۔
تمہارے آنے سے قبل ہم تمہاری ہی باتیں کر رہے تھے۔
ماشا اللہ تم اتنے بڑے ادارے سے تعلیم حاصل کرکے آئے ہو، یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے۔
اب آگے کا کیا پلان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
شازیب :۔” کیا مطلب آگے کا کیا پلان ہے، میں سمجھا نہیں۔“
والد :۔ دیکھو بیٹا ! میں اب گھر کے اخراجات اُٹھا اُٹھا کر تھک سا گیا ہوں ۔ میرے کہنے کا مطلب صاف ہے۔ اب تمہیں ہی گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب تم کوئی جاب وغیرہ کرو گے۔ “
شازیب :۔ ابو ! میں جاب کا کیا کہہ سکتا ہوں۔ ابھی ابھی تو یو نیورسٹی سے فارغ ہوا ہوں۔ اتنی جلدی میں جاب کہاں سے لائوں گا۔ کوئی فارم بھر کر ہی تو جاب ممکن ہو سکتی ہے ایسے کیسے جاب مل سکتی ہے۔ یہاں کے حالات کا تمہیں پتہ تو ہے کہ میرے جیسے ہزاروں کی تعداد میں پڑھے لکھے بے روز گار گھروں میں بیکار بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر تم کہتے ہو تو میں کسی پرائیوٹ اسکول میں جاب کرکے تمہارے کاندھوں کا بوجھ کچھ حد تک کم کر سکتا ہوں۔ جب تک ان شا ٕ اللہ مستقل نوکری کا بھی کچھ نہ کچھ حل نکل آئے گا۔“
والد :۔ ” یہی تو میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔“
شازیب یہ کہہ کر کچن سے نکل کر سیدھے اپنے دوستوں سے ملنے کیلئے چلے گئے۔ دوپہر دیر تک دوستوں کو یونیورسٹی کے قصے سناتا رہا ۔ باتوں باتوں میں وقت کا کچھ اندازہ ہی نہیں رہا۔ گھر سے مسلسل فون بجتے آرہے تھے لیکن شازیب باتوں میں اس قدر مگن تھا کہ فون کا کچھ پتہ بھی نہ چلا۔ شازیب جوں ہی گھر پہنچا۔ والد نے بھنویں ماتھے پر چڑھا رکھی تھیں۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی شازیب والد کی نوکدار باتوں کا نشانہ بنا۔
والد :۔ بیٹا ! یہ جو تم دیر تک آوارہ دوستوں کے ساتھ مل کر چھچھوری حرکتیں کرتے پھر رہے ہو، یہ اب تمہارے شایانِ شاں نہیں ہے۔ صبح سے تم گھر سے غائب ہو ۔ تمہیں کچھ احساس ہے کہ نہیں میں نے تمہیں اس لئے نہیں پڑھایا کہ تم دیر گئے تک اپنے آوارہ گرد دوستوں کے ساتھ گپیں ہانکتے رہو۔ “
شازیب :۔ ابو ! آج بہت عرصہ بعد دوستوں سے ملا ہوں باتوں باتوں میں وقت کا کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ آئندہ خیال رکھوں گا۔ “
والد :۔ دیکھو بیٹا ! میں کب تک گھر کے بوجھ تلے دبا رہوں گا۔ آخر تم نے ہی تو اس گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں۔ گھر کے اخراجات تبھی پورے ہو سکتے ہیں جب تم میرا کوئی کام کرو گے۔ میں اکیلا انسان کب تک گھر کے مسئلوں میں اُلجھا رہوں گا۔
والد کے کہنے پر شازیب کئی سال تک کنٹریکٹ جاب کرتا رہا ۔ گھر کے مسئلوں میں کسی حد تک کمی تو آگئی تھی لیکن قسمت کے آگے بھلا کس کی چلتی ہے ۔ حالات کی خرابی کے سبب یہ شازیب کا کنٹریکٹ جاب بھی ختم ہوگیا اور دو تین سالوں سے گھر میں بیکار بیٹھا ہوا تھا۔ شازیب کے ساتھ ساتھ اُس کے گھر والے بھی اُس کی نوکری کو لے کر سخت پریشان تھے ۔
بیچارہ کرے بھی تو کیا کرے؟ آج کل کے دور میں نوکری ملنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔
حیران و پریشان شازیب دن بھر دوستوں کے ساتھ رہ کر بالآخر شام کو تھک ہار کے گھر پہنچ ہی جاتا ہے ۔ لیکن بیچارے کو گھر میں بھی کہاں چین نصیب۔ گھر پہنچتے ہی گھر والوں سے روز طعنے سننے پڑتے۔ والد کی جلی کٹی باتیں روز سننی پڑتیں۔ ۔گھر والے ہی کیا گھر کے باہر بھی ایرے غیرے مذاق مذاق میں بے روز گاری کے طعنے مار ہی دیتے ۔ بے روز گاری کے طعنے بھی ایسے لوگوں کی زبانی سننے پڑتے جو کسی گنتی میں بھی شمار نہیں ہیں ۔ شازیب کو ان باتوں سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کیونکہ وہ ایسی باتیں سننے کے عادی بن چکا تھا۔
شازیب کا لگاتار گھر سے باہر رہنا گھر والوں کو سخت ناگوار گزرنے لگا۔ ایک روز شازیب ٹھیک دو پہر کے کھانے پر گھر آگیا تو والد بڑے ہی سخت لہجے میں مخاطب ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
والد :۔ ” تمہیں کچھ شرم بھی آتی ہے کہ نہیں ۔ پورا دن تم گھر سے باہر رہتے ہو اور گھر بھی اسی وقت آتے ہو جب مفت کی روٹیاں توڑنی ہوتی ہیں۔ اس سے بہتر تھا کہ تم پیدا ہی نہ ہوتے ۔ ایک تو میں گھر کا بوجھ اُٹھا اُٹھا کر تنگ آچکا ہوں اوپرسے تم جیسے پڑھے لکھے بے روزگارکا بوجھ بھی میرے سر ہی آن پڑا ہے۔ “
شازیب بیچارہ یہ سب باتیں سن کر دم بخود ہو گیا ۔ والد کے روز روز کے طعنے سننے کے بعد شازیب کی آنکھوں سے موتیوں کی طرح آنسو چھلک پڑے۔ شازیب کی تذلیل گھر والوں کا روز کا معمول بن چکا تھا ۔ روز روز کی ذلّت سے وہ بیچارہ کافی تنگ آچکا تھا۔ والد کی بے تکی باتیں سننے کے بعد شازیب بچارہ آنکھوں میں آنسو لئے اپنے کمرے میں چلا گیااور لائٹ بند کرکے سو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
���
ایسو ( اننت ناگ)