سمت بھارگو
راجوری//راجوری کے منکوٹ گاؤں کے بنی محلہ میں رہنے والی گوجر برادری رابطہ سڑک کے منتظر ہیں جبکہ مقامی لوگوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ سیاسی لیڈران انہیں ووٹ بینک کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور وہ سڑک کے رابطے کے ان کے حقیقی مطالبے کی کوئی پرواہ نہیں کر رہے ہیں۔ٹھنڈی کاسی علاقہ کے منکوٹے گاؤں میں پہاڑی کے اوپر واقع اس محلہ میں رہنے والے لوگوں نے بتایا کہ ان کا علاقہ راجوری شہر سے بمشکل چھ کلو میٹر دور ہے اور شہر کے بالکل سامنے شمال مغرب کی طرف واقع ہے لیکن ترقیاتی محاذ پر اسے مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ علاقہ میں رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بچوں کو بہتر تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں محمد اسلم نامی ایک مقامی شہری نے بتایا کہ اس علاقے میں درجنوں گوجر خاندان رہتے ہیں جو منکوٹ گاؤں کے آخری کونے میں ہیں اور تین اطراف سے ننگا نار، پلولیان اور مونگا گلی کے ساتھ سرحدیںملتی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ’ہم اب بھی قریب ترین سڑک تک پہنچنے کے لئے دو سے تین کلومیٹر پیدل سفر کرتے ہیں جہاں سے مسافر گاڑی ملتی ہے۔محمد صادق نے کہا کہ علاقے کے بہت سے خاندانوں نے اپنے بچوں کی پڑھائی کیلئے باہری علاقوں میں ہجرت کی جب کہ بہت سے دوسرے خاندانوں کے پاس وسائل نہیں تھے جنہوں نے اپنے بچوں کو مڈل اسکول یا ہائی اسٹینڈرڈ سے باہر کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ بچہ کئی کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد اسکول نہیں پہنچ سکتا۔صادق نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ محکمہ تعمیرات عامہ کے تحت منکوٹ مڈل اسکول سے شیو پریوار کے غار اور کوٹے محلہ کے راستے بنی محلہ تک ایک سڑک شروع کی گئی تھی لیکن اس سڑک پر کام دو سال سے زیادہ عرصے سے رکا ہوا ہے اور ہمیں کوئی امید نہیں ہے کہ یہ سڑک تعمیر ہوگی۔ ایک اور مقامی شخص محمد مشتاق نے کہا کہ’’ علاقے کی گجر آبادی کو سیاسی لیڈروں نے ہمیشہ صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا ہے خاص کر اسمبلی انتخابات کے دوران یہاں تک کہ ہمارے اپنے گجر لیڈران نے بھی الیکشن جیتنے کے بعد ہماری طرف مڑ کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی‘‘۔نور حسین نامی ایک مقامی شخص نے بتایا کہ ’’میں ایک دودھ والا ہوں اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوں۔ مجھے قریبی سڑک تک پہنچنے کے لئے تین کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے جہاں سے مجھے گاڑی ملتی ہے اور دودھ بیچنے کیلئے راجوری شہر پہنچتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ لوگ آج بھی سڑک پر موجود دکان سے خشک راشن لے جانے کیلئے گھوڑوں کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ اتنی دیر تک پیدل چلتے ہوئے آدمی کیلئے وزن اٹھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔انہوں نے حکومتی انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ بنی محلہ ٹاپ تک سڑک کی تعمیر کیلئے ایک نیا پروجیکٹ لائے۔رابطہ کئے جانے پرپی ایم جی ایس وائی کے ایگزیکٹیو انجینئر راجوری نے کہا کہ پی ایم جی ایس وائی فیس ایک اور دوم کے تحت پہلے سے منظور شدہ کاموں کو انجام دے رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ پی ایم جی ایس وائی روڈ رابطہ پر غور کررہا ہے جس میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق 250 سے زیادہ آبادی والی تمام غیر منسلک بستیوں پر غور کیا جائے گا۔ایگزیکٹیو انجینئر نے مزید کہا کہ اس ڈیمانڈ شدہ روڈ پراجیکٹ کو نئے فیز میں بھی شامل کیا جائے گا جس کے لئے ضروری شرائط کو پورا کیا جائے گا۔