عظمیٰ مانیٹرنگ ڈیسک
ڈھاکہ//بنگلا دیش میں شیخ حسینہ واجد کا اقتدار ختم ہونے کے بعد عوامی لیگ اب بیک فٹ پر ہے۔ ایسے میں سابق حکمراں جماعت بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا امکان ہے تاہم بی این پی اور جماعتِ اسلامی کو اس بات کا بھی ڈر ہے کہ کہیں فوج اپنی سرپرستی میں کوئی نئی پارٹی کھڑٰی نہ کردے۔چیف ایڈوائزر (عبوری وزیرِاعظم) ڈاکٹر محمد یونس ماہرِ معاشیات ہیں۔ سیاسی معاملات میں اْن کی سمجھ بوجھ کتنی ہے اِس کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ وہ ایک علمی شخصیت ہیں اور سیاست کے داؤ پیچ اْن کے بس کی بات نہیں۔ اْن کے سامنے سب سے بڑا ٹاسک حقیقی منتخب حکومت کا قیام یقینی بنانے کا ہے۔ عام انتخابات جلد از جلد ہونے چاہئیں۔جماعتِ اسلامی اور بی این پی ماضی میں مل کر الیکشن لڑتی رہی ہیں اور حکومت میں بھی بی این پی نے جماعتِ اسلامی کو ساتھ ساتھ رکھا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بنگلا دیش میں عام انتخابات کب ہوں گے اور کیا اِن انتخابات میں بی این پی اور جماعتِ اسلامی تحفظات کے بغیر حصہ لیں گی۔خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ پسِ پردہ رہتے ہوئے اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے فوج اپنی سرپرستی میں پارٹی تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر کسی کنگز پارٹی کو بنگلا دیش کا اقتدار سونپنے کی تیاری کی گئی تو ملک میں مزید انتشار پھیلے گا۔بنگلا دیش میں فوج کی حکمرانی طویل مدت تک رہی ہے۔ جمہوریت کی بحالی اور استحکام کے لیے طویل عرصے تک جدوجہد کی جاتی رہی ہے۔ عوامی لیگ کی حکومت نے بی این پی اور جماعتِ اسلامی سمیت اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو دبوچ کر رکھنے کی پالیسی اپنائی ہوئی تھی۔ اب ان جماعتوں کو سکون کا سانس لینے کا موقع ملا ہے کیونکہ عوامی لیگ مکمل طور پر بیک فٹ پر ہے۔