امتیاز گورکھپوری (ممبئی)
شاعری ایک یونیورسل لینگویج ہے جو جذبات و واقعات اور حالات کی ترجمان ہے۔ میں سمجھتا ہوں اظہار کا اس سے بہترین طریقہ اور کوئی نہیں جہاںاپنا غم زمانے کا غم بن جاتا ہے اور اپنا درد سب کا درد نظر آتا ہے، جہاں اپنی کہی بات انسانی احساسات کو جاکر چھوجاتی ہے، اور ان ہی احساسات کو چھونے والے شاعر کا نام ’اقبال نوید‘ ہے۔
یہ شعری مجموعہ غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ برطانیہ میں مقیم ہونے کے باوجود یہ اپنی زمین سے جُڑے ہوئے ہیں۔ اقبال نوید صاحب بنیادی طورپر غزل کے شاعر ہیں اور غزل اُن کی پسندیدہ صنف ہے اور غزل کے تمام اصناف اُن کے یہاں موجود ہیں۔جیسے
یہ زمیں ہم کو ملی بہتے ہوئے پانی کے ساتھ
اِک سمندر پار کرنا ہے اسی کشتی کے ہاتھ
حاصل ہے وہی جس کی نہیں آرزو کوئی
آنکھوں کو کبھی خوابِ تمنّا نہیں ملتا
……
خواب و خیال ،آنکھ کا دھوکہ نہیں یہ دن
سورج غروب ہوگیا ، ڈوبا نہیں یہ دن
……
میں اُس کے پھول پھل سے بہت کھیلتا رہا
لیکن وہ مہربان شجر چپ کھڑا رہا
……
شہروںتک آگئی تھیں درندوں کی بستیاں
ہر شخص اپنے جسم کے اندر چھپا رہا
اقبال نوید وہی باتیںکرتے ہیں جو اُن سے زندگی کہلواتی ہے، روزہ بروز زندگی کے نئے نئے تجربات و مشاہدات اور اندر ہونے والی ہلچل، و واردات اور حالات کو شعری شکل میں ڈھال کر دوبارہ زندگی کو لَوٹا دینا۔
بطورِ تمثیل :
پھول ایساتھا کسی رُت میں نہ جھڑنے والا
جانے کس حال میںہوگا وہ بچھڑنے والا
……
بدن کی ڈور اگر کھولنے سے ڈرتا ہوں
ہوا کے سامنے پر کھولنے سے ڈرتا ہوں
……
دستک ہے نہ آہٹ ہے خدا خیر کرے گا
صدیوں کی تھکاوٹ ہے خدا خیر کرے گا
کوئی تجھے الفاظ کی خوشبو نہیں دے گا
یہ دنیا تو منہ پھٹ ہے خدا خیر کرے گا
……
کوئی خیال ہو ، کہتا ہوں مختلف سب سے
اسی لیے تو ہے دنیا مِرے خلاف بہت
جس طرح اقبال نوید صاحب نے غزلوں میں اپنے آپ کو منوایا ہے اُسی طرح نظموں میں بھی اُن کی شخصیت نمایاں نظر آتی ہے۔
موصوف نے نظموں میں متفرق و مختلف انداز میں گفتگو کی ہے، کہیں دلفریب دنیا کا ذکر، کہیں عشق ومعاشقہ، کہیں منطق و فلسفہ تو کہیں انسانی زندگی کا جائزہ، غرض یہ ہے ہر طرح سے اُنھوںنے اپنے فن کار کی روشنی سے جذبات و احساسات کو ضَوبار کرنے کی کوشش کی ہے جس میں حد درجہ کامیاب بھی ہیں۔
نظموں کے چند چنندہ بند ملاحظہ کریں:
ستارے ٹوٹتے ہیں
ستارے ٹوٹتے ہیں
ڈوب جاتے ہیں
اندھیرا اور بڑھتا ہے
ابھی تک روشنی روٹھی ہوئی ہے
کسے رُخصت کریں
کس سے ملیں
زمیں کو رزق کتنا اور دیں گے
ہمارے ہاتھ …
قبریں کھودنے میں جھڑ گئے ہیں
…………
ابھی تک کربلا میںہوں
فضا میں آہ و زاری ہے
لبوں پر سسکیوں کی نوحہ خوانی سے
یہ ماتم اور گریہ ختم ہونے میں نہیں آتا
قیامت کے تعاقب میں
ابھی خیموں کی جلتی آگ میں
چیخیں تڑپتی ہیں
یہ صحرا اور تپتی ریت کے کوفے سے نکل کر
ساری دنیا کے گلی کوچوں تک آپہنچی
عزادارو! ابھی تک کربلا میں ہو
اُنھوںنے خصوصی طور پر بطور تحفہ یہ کتاب مجھے برطانیہ سے بھیجی ہے، کتاب بہت ہی خوبصورت طریقے سے شائع ہوئی ہے اور سرِورق کا تو جواب نہیں، چونکہ میں بذاتِ خود ایک پبلشر ہوں اور گزشتہ ۲۶؍برسوں سے طباعت و اشاعت کے نئے نئے مراحل طے کر رہا ہوں۔ اخیر میں جناب اقبال نوید صاحب کے لیے بطورِ خاص دعا گو ہوں۔
���