’بلڈوزری انصاف ‘یا انصاف کا قتل!

سہیل انجم
اس بار بھی وہی ہوا جو 2019 میں سی اے اے مخالف احتجاج کے موقع پر ہوا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اُس بار کم از کم پچیس مسلمانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا تھا، اس بار کم ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ البتہ پچھلی بار مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار نہیں کیا گیا تھا ،اس بار کئی مکانات منہدم کر دیے گئے ہیں۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے جس ’بلڈوزر سیاست‘ کا آغاز کیا تھا ،وہ اِس وقت اپنے شباب پر ہے۔ اُدھر پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی کا معاملہ پسِ پشت چلا گیا ہے اور اب ساری توجہ مسلمانوں کی جانب سے کئے جانے والے مبینہ تشدد پر مرکوز ہو گئی ہے۔ نپور شرما نے 26 مئی کو گستاخی کی تھی لیکن ابھی تک سوائے اس کے کہ انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا ہے اور کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص نپور کے خلاف سوشل میڈیا پر کوئی ایسی بات پوسٹ کرتا ہے جو پولیس کی نگاہ میں امن و امان کو خطرے میں ڈالنے والی ہے تو ا س کے خلاف فوراً کارروائی کی جاتی ہے اور اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ لیکن جس کے اشتعال انگیز اور توہین آمیز بیان نے یہ آگ لگائی اُسے گرفتار کرنے کی ہمت پولیس میں نہیں ہے۔ حالانکہ متعدد ایف آئی آر درج ہو چکی ہیں لیکن ابھی تک کچھ ہوا نہیں۔ جہاں تک ہندوستانی مسلمانوں کے احتجاج کا معاملہ ہے تو جمہوری ہندوستان میں اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے کا حق ہر شہری کو ہے۔ یہاں تو معاملہ حضور اکرمؐ کی شان میں گستاخی کا ہے۔ لیکن احتجاج میں یہ شرط بھی ہے کہ وہ پرامن ہونا چاہیے۔ احتجاج کے دوران تشدد کی کوئی گنجائش نہیں۔ تین جون بروز جمعہ کانپور میں ہونے والے احتجاج کے دوران تشدد اور اکثریتی طبقے کے ساتھ مسلمانوں کا ٹکراؤ ہوا تھا۔ مقامی باشندوں کے مطابق وہاں پولیس مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ طور پر کارروائی کر رہی ہے۔ اس احتجاج کے بعد پولیس کے رویے کے پیش نظر مسلمانوں کو بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت تھی۔ اگر انہیں دس جون کو بعد نماز جمعہ احتجاج کرنا ہی تھا تو احتیاطی تدابیر بھی اپنانی چاہئیں تھیں۔ انہیں اس بات کو کسی بھی صورت سے یقینی بنانا تھا کہ احتجاج کے دوران تشدد کا کوئی واقعہ نہ ہو۔ بہت خاموشی کے ساتھ اور پر امن انداز میں مظاہرہ کرنا تھا۔ لیکن بعض ویڈیوز میں دیکھا گیا ہے کہ مسجدوں سے نکلتے ہوئے نوجوان پُرجوش انداز میں نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہمیشہ جوش سے کام نہیں چلتا، ہوش کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ کانپور کے واقعہ سے مسلمانوں کو سبق سیکھنے کی ضرورت تھی۔ لیکن بہرحال تشدد ہوا۔ کس نے کیا اور کیوں کیا اور کیا نمازیوں کے ہجوم میں کچھ غیر سماجی عناصر بھی داخل ہو گئے تھے، اس پر کون غور کرتا ہے۔ سب تو یہی کہیں گے کہ مسلمانوں نے تشدد برپا کیا۔ حالانکہ یہاں کے مسلمان ایک ہفتے تک خاموش رہے۔ خلیجی ملکوں سے احتجاج کے بعد وہ میدان میں آئے۔ ان کے ساتھ ملک کا انصاف پسند طبقہ بھی تھا۔ لیکن جمعے کو ہونے والے بعض پرتشدد واقعات نے اب تک کی حصولیابیوں پر پانی پھیر دیا۔ حکومت کو بھی ان کے خلاف کارروائی کا موقع مل گیا۔ سیکڑوں مسلمان جیلوں میں ڈال دیے گئے اور کانپور، سہارنپور اور پریاگ راج (الہ آباد) میں یہ کہہ کر کچھ مسلمانوں کے مکانات منہدم کر دیے گئے کہ وہ فساد کے ماسٹر مائنڈ تھے۔

الہ آباد میں ایک باعزت سیاسی و سماجی کارکن اور حکومت و انتظامیہ کے ساتھ ہمیشہ تعاون کرنے والے جاوید محمد کے دو منزلہ مکان کے انہدام کا معاملہ کافی مشکوک ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ جاوید تشدد کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ حالانکہ ان کے اہل خانہ اس کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ تو لوگوں کو احتجاج سے روک رہے تھے۔ پولیس یہ بھی دعویٰ کرتی ہے کہ جاوید کا مکان غیر قانونی طریقے سے تعمیر کیا گیا تھا اور اس کا نقشہ کارپوریشن سے منظور نہیں کرایا گیا تھا۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ مکان بیس سال پرانا تھا اور ویسے ہی اس پورے علاقے میں لوگوں نے اپنے مکانات تعمیر کروائے ہیں۔ ہندوستان میں تو نصف آبادی ایسے ہی مکانات میں رہتی ہے جن کا نقشہ منظور نہیں کرایا جاتا۔ سوال یہ ہے کہ پھر صرف انہی کا مکان کیوں گرایا گیا۔ ان کے اہل خانہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ مکان جاوید کے نام تھا ہی نہیں وہ ان کی اہلیہ کے نام تھا جو ان کے والد نے انھیں تحفتاً دیا تھا۔ پھر کارپوریشن کے عملہ نے اس مکان کو کیسے منہدم کر دیا۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جاوید کے نام نوٹس دیا گیا اور وہ بھی ایک روز قبل۔ جبکہ نوٹس بہت پہلے دیا جانا چاہیے تھا اور جاوید کے نام نوٹس دینے کا کوئی جواز بھی نہیں تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ کارپوریشن اور پولیس نے قانونی ضابطے کی دھجیاںاڑاتے ہوئے مکان کو منہدم کر دیا۔ جبکہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ قانونی ضابطے پر عمل کیا گیا۔ لیکن اگر ہم قانونی ماہرین کی بات سنیں تو پائیں گے کہ قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی ہے۔ خود الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس گووند ماتھر کا کہنا ہے کہ یہ انہدامی کارروائی مکمل طور پر غیر قانونی تھی۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس کی تعمیر غیر قانونی طور پر ہوئی تھی تب بھی اس طرح گھر کو منہدم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکی۔ یہ کوئی تکنیکی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی کا معاملہ ہے۔ جہاں تک ’بلڈوزری انصاف‘ کی بات ہے تو ماہرین قانون اس کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انصاف کے بارے میں جہاں یہ کہا گیا ہے کہ ’جسٹس ڈلیڈ، جسٹس ڈنائڈ‘۔ یعنی انصاف میں تاخیر انصاف سے محرومی ہے۔ وہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’جسٹس ہریڈ، جسٹس بریڈ‘۔ یعنی عجلت میں انصاف کرنا انصاف کو دفن کرنا ہے۔ یہاں جتنی جلد کارروائی ہوئی اس پر لفظ ’عجلت‘ بھی شرما جائے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہر جرم کے لیے الگ الگ سزا مقرر ہے۔ جس جرم کی جو سزا طے ہے، وہی دی جائے گی دوسری نہیں۔ جس نے جرم کیا ہے سزا بھی اسی کو ملے گی دوسرے کو نہیں۔ لیکن جب کوئی مکان منہدم کیا جاتا ہے تو سزا پورے گھر کو دی جاتی ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی احتجاج میں کسی نے تشدد کیا ہے تو کیا اس کی سزا یہ ہے کہ اس کا مکان بلڈوز کر دیا جائے یا پھر قانون کچھ اور کہتا ہے۔ اگر قانون یہ کہتا ہے کہ تشدد کرنے والے کا گھر گراد و، تو بے شک گرا دو۔ لیکن اگر قانون اس کی اجازت نہیں دیتاتو پھر اس کے گھر کو گرانا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا ادارے انڈیا ٹوڈے نے کئی ججوں سے اُن کی آراء جاننے کی کوشش کی تو سب نے اس طرح مکانات کے انہدام کو غلط بتایا۔ ہندوستان کے سابق چیف جسٹس آر ایم لوڈھا کہتے ہیں کہ جرم کا ارتکاب کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی پراپرٹی گرادو۔ اگر کسی پراپرٹی پر کوئی تنازع ہے تب بھی اس کے لیے عدالتی عمل سے گزرنا ہوگا۔ سابق جج جسٹس چیلامیشور کا کہنا ہے کہ اگر کسی مکان کے سلسلے میں نوٹس دیا گیا ہے اور وہ شخص عدالت سے رجوع نہیں کرتا ہے تب اس کی غلطی ہے۔ (یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ عدالت جانے کا موقع ہی نہیں دیا گیا)۔ جسٹس اینڈلا کہتے ہیں کہ اگر کسی نے سرکاری زمین پر قبضہ کرکے مکان بنایا ہے تب بھی اس کے انہدام میں قانون کی پابندی کرنی ہوگی اور قانون کا اطلاق سب پر برابر ہوگا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کے خلاف کارروائی ہو اور کسی کو چھوڑ دیا جائے۔ دیگر اور بہت سے ماہرین قانون بھی انہی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان آراء کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہے کہ اس مہذب سماج میں ’بلڈوزری انصاف‘ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ آخری بات یہ (او ریہ بھی بہت اہم ہے) کہ کانپور ہو یا پریاگ راج، جن کے مکانات گرائے گئے ہیں وہ سی اے اے مخالف احتجاج میں پیش پیش رہے ہیں۔ خواہ وہ کانپور کے حیات ظفر ہاشمی کے رشتے دار ہوں یا پریاگ راج کے جاوید محمد۔ جاوید کی بیٹی آفرین فاطمہ بھی اس تحریک میں شامل رہی ہیں۔ وہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور جے این یو کی سابق طالبہ اور اسٹوڈنٹ لیڈر رہی ہیں۔ تو کیا یہ بلڈوزری کارروائی سی اے اے مخالف احتجاج کا انتقام ہے؟

[email protected]