کیا حسین ؑ نے صرف اسلام کے لئے قربانی دی تھی؟ کیا حسین ؑنے جاہ و حشمت کے لئے قربانی دی تھی؟ کیا حصولِ حکومت نے حُسین ؑ کو آگ اور خون کے طوفان سے گذرجانے کے لئے مجبور کیا تھا؟ کیا حُسینؑ رسولِ اسلامؐ کے وارث نہ تھے؟ کیا حُسین ؑکے جسم میں کوئی رگ بیعت قبول کرنے کی نہ تھی؟ کیا حُسین بھی عام انسانوں کی طرح وقت کے دھارے میں بہنا چاہتے تھے؟ اور کیا حُسینؑ زندگی کو موت پر ترجیح دینا چاہتے تھے یا عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر قربان کررہے تھے۔ آخر پھر مقصدِ حُسین کیا تھا جس نے وقت کے دھارے کے خلاف مسلسل جدوجہد کی اور آخر میں کامیابی نے ان کے قدم چومے۔دراصل حُسینؑ کی اتنی عظیم قربانی جو ریگ زارِ کربلا پر ہوئی تھی وہ اسلام کی بقاء اور بقائے انسانیت کے لئے تھی کیونکہ ایک مدت تک خاموش زندگی گذارنے کے بعد جب حُسینؑ نے دیکھا کہ انسانیت سسک رہی ہے اور شریعت اسلامی تڑپ رہی ہے تو اس کو وارثِ رسولؐ کیسے برداشت کرلیتا اور جب دارالامارہ مدینے میں اصرارِ بیعت ہوا تو اس کے سامنے حُسینؑ کے انکار نے ایک آہنی دیوار کھڑی کردی جس سے سر ٹکراکر یزیدیت ہمیشہ کے لئے دشنام ہوگئی۔حُسین کا مقصد اگر جنگ ہوتا تو مدینے اور مکے سے ہزاروں کی فوج حُسینؑ لے کر چلتے۔ یہ بات تنظیمِ جنگ کے بالکل خلاف تھی کہ جنگ کے لئے جارہے ہیں مگر نہ سامانِ رسد ہے اور نہ اسلحوں کی فراوانی ہے بلکہ جو لوگ ساتھ ہوگئے تھے اُنہیں بھی قدم قدم پر واپس جانے پر مجبور کررہے تھے۔ ورنہ کم سے کم مدینہ اور مکہ انہیں اچھی طرح سے جانتا پہچانتا تھا، مگر جن لوگوں کو حسینؑ کربلا کی قربانی کے لئے ضروری نہ سمجھتے تھے اُنہیں واپس کررہے تھے اور جن کی ضرورت معرکہ کربلا میں ضروری تھی اُنہیں حسینؑ خط بھیج کر بُلارہے تھے۔ یہ دو ایسے اقدام تھے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کربلا کی جنگ نہ حصولِ دولت کے لئے تھی اور نہ حکومت کے لئے تھی، ورنہ یزید کی بیعت کرلینے کے بعد حسینؑ کو وہ سب کچھ مل جاتا جسے دنیا قابلِ فخر سمجھتی ہے۔ یزید اپنا اسلام رائج کرنا چاہتا تھا جس میں وہ نشے کی حالت میں نماز پڑھاتا تھا۔ ہر جائز اسلام کو ناجائز قرار دے رہا تھا۔
اسلام تشدد کا نام نہیں ہے اور نہ اسلام میں زبردستی ہے بلکہ مذہبِ اسلام اخلاق کی تعلیم دیتا ہے۔ ظلم و جور سے منع کرتا ہے۔ ایک مسلمان کو ایسا ہونا چاہئے کہ اس کے اچھے عمل کو دیکھ کر لوگ متاثر ہوں نا کہ اس سے نفرت کرنے لگیں اور اسی کے ساتھ ساتھ اسلام بھی بدنام ہوجائے۔ اسلام تہذیب و اخلاق و اتحاد کا علمبردار ہے اور اللہ کا پسندیدہ دِین ہے۔ اور جو دِینِ خدا کا پسندیدہ ہو اُس میں ظلم و تشدد کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ وہ اللہ جو رحیم و کریم ہے اس کے اصول نہ تشدد کی اجازت دیتے ہیں نہ ظلم و جور کی اور امام حُسین ؑ چونکہ اللہ کے پسندیدہ دِین کے ماننے والے تھے اس لئے انہوں نے وہی سارے عمل کئے جس کی اجازت اسلام دے رہا تھا۔ ظلم کے مقابلے میں امام حسینؑ نے صبر سے کام لیا۔ تشدد کا مقابلہ عدمِ تشدد سے کیا اور شاعرِ انقلاب جوش ملیح آبادی کو کہنا پڑا:
کاٹ سکتا ہے رگِ گردن سے خنجر آدمی
لشکروں کو روند سکتے ہیں بَہتّر آدمی
کربلا میں ظلم اپنی پوری تابانی کے ساتھ ظاہر ہوا۔ یزید نے امام حسینؑ کے مقابلے میں اپنی پوری بربریت کا مظاہرہ کیا۔ ظلم کا طوفان اس لئے آیا کہ شجرِ دِینِ اسلام کو اکھاڑ پھینکے اور حسینی طاقت کو اپنے بے شمار لشکر کے ذریعہ روند ڈالے۔ مگر امام حُسینؑ کے عدیم المثال صبر نے ظلم کا منہ پھیردیا۔ کربلا میں ظلم کی حد تو معلوم ہوگئی مگر صبر کی حد کا اندازہ نا ممکن ہوگیا ۔ امام حُسینؑ نے اپنے پُرعزم حوصلے سے ثابت کردیا کہ بندشِ آب دشمن کا غلط حربہ ہے۔ کسی پر پانی بند کرنا فرمانِ خداوندی سے بغاوت ہے۔ پانی جیسی ضروری شئے جس کو اللہ نے بہت ہی ارزاں کردیا ہے ، اس کو بند کرنے کا حق انسان کو نہیں ہے اور یہی پانی جو زندگی کی ضمانت ہے اگر عذاب کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو دُنیا پناہ مانگنے لگتی ہے اور کسی کو بھی اس سے راہ فرار نہیں ملتا، جس طرح طوفانِ نوحؑ آیا اور خودسر ددُنیا کے افراد کو ڈبوکر چلاگیا، اوراگر حضرت علی ؓکا فرزند امام حُسینؑ بارگاہِ خداوندی میں بدُعا کردیتاتو یہی فرات کا پانی طوفانی شکل اختیار کرکے یزیدی فوج کی تباہی کا ذریعہ بن سکتی تھی۔ مگر امام حسینؑ کا صبر بددعا کی حد سے بہت دُور تھا، وہ تو اپنے صبروضبط کا بھرپور مظاہرہ کررہے تھے اور جب امام حُسین ؑ صبر کی اُس منزل پر پہنچ گئے جس منزل پر انسان تو انسان فرشتوں کے پر جلنے لگتے ہیں تو آوازِ قدرت آئی’’ اے نفسِ مطمئنہ … آ! میری طرف پلٹ آ، میں تجھ سے راضی اور تُو بھی مجھ سے راضی ہے‘‘۔
کربلا کی جنگ عاشور کی صبح کو شروع ہوئی اور عصرِ عاشور کو ختم ہوگئی، مگر کیا یہ جنگ ختم ہوگئی۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ امام حسینؑ نے تو اپنے حوصلے سے کربلا کی جنگ فتح کرلی مگر معرکہ کوفہ و شام کی علمبردار امام حسینؑ کی بہن حضرت زینبؑ اور بیمار فرزند سید سجادؑ تھے۔ کربلا کی جنگ میں تلواروں کی جھنکار تھی۔ تِیروں کی سن سناہٹ تھی، خنجروں کی چمک تھی اور بندشِ آب تھا۔ مگر کربلا کے بعد راہِ کوفہ و شام میں سیف زبان تھی۔ تقریر کا لافانی عمل تھا۔ طوق و زنجیر کی جھنکار تھی۔ گُلوں میں رسن بندھی ضروری تھی مگر عزم و حوصلہ قید نہیں تھا۔ حضرت زینبؑ کی تقریر نے قصرِ یزید میں دراریں ڈال ڈیں۔ سید سجاد امام زین العابدینؑ کے خطبا ت نے امام حسینؑ کی بے چارگی اور منزلت سے عوام کو آگاہ کیا اور منصوبہ یزید کو بے کار کرکے منصوبہ حسینؑ کی تبلیغ کے فرائض انجام دئے۔ اب عوام آگاہ ہوچکے تھے کہ حسینؑ کون تھے اور ان کا اسلام اور انسانیت سے کیا رشتہ تھا۔ اس کے برعکس یزید کن کثیف سیرتوں کا مالک تھا۔ راہِ کوفہ و شام میں ثانئی زہریٰ حضرت علیؓ کی شیردِل بیٹی حضرت زینبؑ کے خطبات نے آگ لگادی۔ فاتحِ شام و کوفہ حضرت زینبؑ جب دمشق کے دربار میں پہنچیں تو سات سو کرسی نشینوں کے درمیان بے پردہ جانا گوارہ نہ ہوا۔ حضرت زینبؑ کے چہرے سے مظلومیت کا پردہ ہٹا اور یکبارکی جلال عباس نمودار ہو اور کہا … اے اُمِ لیلیٰ، اے اُمِ رباب میری لاڈلی سکینہؑ میرے قریب آو ، میں ان ظالموں کے حق میں بددعا کروں گا تم آمین کہو۔ ابھی بددعا کے لئے ہاتھ اٹھا ہی نہ تھا کہ سید سجاد امام زین العابدینؑ زنجیریں سنبھالتے پوپھی کے قریب آئے۔ چونکہ امام ِ سجادؑ نے دیکھ لیا تھا کہ چچا حضرت عباسؑ کے جلال کی حامل اس وقت پوپھی ہیںاور جلالِ عباسؑ کو ہر منزل پر امام حُسینؑ روکے رہے تھے۔ جلال حضرت عباسؑ کا رُخ چہرئہ حسینؑ کی طرف موڑدیا۔ حضرت زینبؑ نے جب بھائی امام حُسینؑ کی طرف دیکھا تو ڈبڈبائی آنکھوں سے امام حُسینؑ نے کہا… اے بہن! یہ آخری خدمت ہے، یوں ہی سر جھکائے دربارِ یزید میں چلی جائو۔ حضرت زینبؑ نے کمالِ صبر سے جواب دیا…
بھیا! بہن لعیں سے نہیں طالبِ کرم
کہہ دیجیے کہ صبر سے کم ہے جہانِ غم
کرے یزید اور بھی باقی جو ہوں ستم
پیچھے ہٹا ہے اور نہ ہٹے گا کبھی قدم
جھیلے ہوئے ہیں محشر میدانِ کربلا اور یہ کارنامہ زینبؑ تھا کہ آج ہر قوم حُسینؑ کو امام حُسینؑ کہتی ہے۔ انسانیت کی بقاء کے لئے اتنی عظیم قربانی حُسینؑ نے کربلا میں دی تھی جو قیامت تک کے لئے یادگار رہے۔