ڈاکٹر عریف جامعی
توحید اور عبودیت پر مبنی اسلامی نظریۂ حیات انسان سے یہ دوہرا تقاضا کرتا ہے کہ رب تعالی کے ساتھ الوہیت، ربوبیت اور ذات و صفات میں کسی کو شریک نہ کیا جائے اور یکسو ہوکر اسی کی عبادت بھی کی جائے اور اسی سے استعانت بھی کی جائے۔ تاہم رب تعالیٰ نے اس نظریے کو کبھی بھی انسان سے ’’منوایا‘‘ نہیں ہے، بلکہ دلیل اور برہان کی بنیاد پر انسان کو اسے ’’ماننے کی دعوت‘‘ دی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف انسان کو ذی شعور بنایا گیا ہے اور دوسری طرف اس کو کوئی بھی بات (نظریہ) قبول یا رد کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اسی شعور اور اختیار کے حسن استعمال یا سوء استعمال کی بنیاد پر انسان کو اس دنیا میں آزمایا جارہا ہے۔ظاہر ہے کہ نظری طور پر اسی رد و قبول کے ذریعے انسان عملی طور پر خدا کے تئیں کفر یا شکر کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ واضح رہے کہ انسان کے شکر کرنے سے رب کی کبریائی میں اضافہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی کفر کرنے سے اس کی بڑائی میں کوئی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ شکر کا رویہ اختیار کرنے سے دراصل انسان حقیقت کے مطابق جینے کا عادی ہوجاتا ہے، جبکہ کفر کرنے کی صورت میں وہ حقیقت کو نظر انداز کرکے اپنی اصل بنیاد سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یعنی شکر کرنے کی صورت میں انسان اس آزمائش میں کامیاب ہوجاتا ہے جو اس کو دنیا میں درپیش ہے، جبکہ کفر کرکے وہ اس آزمائش میں ناکام ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ’’کفر‘‘ کے لغوی معنی ’’چھپانے‘‘ کے ہیں، اس لئے کفر کرکے انسان اپنی اس فطرت سلیم پر ’’پردہ ڈالتا‘‘ (چھپاتا) ہے جس پر اسے پیدا کیا گیا ہے۔ اور شکر کرنے کی صورت میں اس کے سامنے اپنی اسی فطرت کا ’’انکشاف‘‘ ہوجاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ اپنے آپ (نفس) کو پہچان لیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی خارجی دنیا (آفاق) کو بھی جاننے لگتا ہے۔
تمام انبیاء کرام، سیدنا آدمؑ سے لیکر سید الانبیاءؐتک، انسان کو یہی پہچان کرانے آئے۔ اگرچہ انسان کو عقل کے ذریعے بھی کسی حد تک یہ پہچان ہوسکتی تھی، لیکن اس صورت میں (انبیائی رہنمائی کے بغیر) انسان فلسفے کی انہی بھول بھلیوں میں پھنسا رہتا جن کے تحت وہ بس یہی کہا آتا رہا کہ:
کل ما ھو فی الکون وھم او خیال
او عکوس فی المرایا او ظلال
یعنی، ’’جو چیز بھی کائنات میں ہے، یا تو وہم ہے یا پھر خیال؛ یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ سب کچھ آئینوں میں تصویریں ہیں یا یہ فقط سائے ہیں۔‘‘
تاہم انبیاء کرام علیہ السلام نے انسان کو ان بھول بھلیوں سے نکالنے کے لئے کوئی فلسفیانہ یا منطقیانہ طریقۂ کار اختیا نہیں کیا۔ اس کے برعکس جب بھی انسان نے اپنے عقل و شعور اور اختیار کا سوء استعمال کرکے اپنی فطرت سلیم کو مسخ کیا تو پیغمبران کرامؑ نے رب تعالی کی راست نگرانی کے تحت انسانی فطرت کو اپنی اصل ڈگر پر لانے کے لئے سعی و جہد کی۔ خدا کے پیغمبروںؑ نے انسان کو سدھارنے اور اس کی فطرت کو فطرت سلیم کی سطح پر واپس لانے کے لئے جو طریقہ اختیار کیا اسے قرآن کی زبان میں ’’تزکیہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس اصطلاح یعنی تزکیہ کے معنی یہ ہیں کہ کسی چیز کو ’’پاک صاف کرنا‘‘ اور ’’نشوونما دینا‘‘۔ چونکہ رب تعالی نے انسان کو فسخ و فجور یا تقوٰی (الشمس، ۸) کا راستہ اختیار کرنے کی پوری آزادی دے رکھی ہے، اس لئے انسان کو اس بات سے بھی خبردار کیا گیا کہ ’’جو انسان اپنے آپ (نفس) کو پاکیزہ بنائے گا، تو وہ فلاح پائے اور جو اسے آلودہ کرے گا، وہ نامراد ہوگا۔‘‘(الشمس، ۹-۱۰)
ظاہر ہے کہ انسان کا فسق و فجور پہلے فکری اور نظری سطح پر انسانی شخصیت کا احاطہ کرکے اس کو آلودہ کرلیتا ہے۔ فکر و نظر کی یہی آلودگی جب عمل کی صورت اختیار کرلیتی ہے تو ایک ایسی انسانی معاشرت وجود میں آتی ہے، جس کو اختیار کرکے انسان اس جنت کا استحقاق کھو دیتا ہے جو صرف پاکیزہ (تزکیہ شدہ) لوگوں کی وراثت بنے گی۔ (آل عمران، ۷۷) تمام انبیاء کرامؑ انسان کو تزکیہ یعنی پاکیزگی کا یہی راستہ دکھاتے آئے ہیں۔ تاریخ کے مستند دور میں پہنچتے ہوئے سیدنا ابراہیمؑ نے اللہ کے آخری نبیؐ کی بعثت کے لئے جو دعا فرمائی، اس میں بھی تزکیہ کے اس عمل کو مرکزی اہمیت حاصل ہے: ’’اے ہمارے رب! ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے۔‘‘(البقرہ، ۱۲۹)
صاف ظاہر ہے کہ تزکیہ کے جس عمل سے رب تعالی نے انسان کو ’’احسن عمل‘‘ کے راستے پر ڈالنے کی ابتداء کی تھی اور جسے ہر ایک پیغمبرؑ نے آگے بڑھایا تھا، اسی کو سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔ لیکن یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ پیغمبران کرامؑ کے متبعین نے تزکیہ کے نصاب، جو مختلف آسمانی صحیفوں کی صورت میں دیا جاتا رہا تھا، کا بیشتر حصہ ضائع کردیا۔ تاہم سید الانبیاءؐ کی بعثت چونکہ تاریخ کے روشن ترین دور میں ہوئی اور آپؐ کو جانثار قدسیوں (صحابہ) کی ایک ایسی جماعت فراہم کی گئی جنہوں نے خدا کے منصوبے میں شریک ہوکر کتاب الہی کو محفوظ کرنے کے لئے کوئی کوتاہی نہیں کی، اس لئے راہ تزکیہ کے خطوط بھی قیامت تک کے لئے روشن اور محفوظ کیے گئے۔
قرآن کے غائر مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ تزکیہ کا یہ عمل نظری سطح پر شروع ہوکر انسان کے عمل کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔ توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان اس کی فکری یا نظری سطح یا بنیاد ہے۔ جہاں توحید انسان کو راست کائنات کے رب کا سچا تعارف دیتی ہے اور اسے شرک سے آلودہ نظریۂ حیات سے نجات دیتی ہے، وہیں رسالت پر ایمان اسے ہدایت کے اس چشمۂ آب حیات کے ساتھ ملاتا ہے جو رب تعالی نے ابتدائے آفرینش سے جاری کیا ہے۔ آخرت پر ایمان انسان کے نظریۂ زندگی کو اس قدر وسیع کرتا ہے کہ انسان کا تعلق ایک طرف ’’عہد الست‘‘ (الاعراف، ۱۷۲) سے جڑ جاتا ہے اور دوسری طرف ’’یوم یقوم الناس لرب العٰلمین‘‘ (جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ المطففین، ۶) اس کا مطمح نظر بن جاتا ہے۔ ان دو سروں کے درمیان دنیوی حیات کی حیثیت ’’عشیۃ او ضحٰھا‘‘ (دن کا صرف آخری یا اول حصہ، النٰزعٰت، ۴۶) کی ہے، جو انسان کو ’’احسن عمل ‘‘اور ’’آزمائش‘‘ کے لئے عطا کی گئی ہے۔
نبی اکرمؐ تزکیہ کے اس عمل کو مسلسل جاری رکھتے ہیں، اور فکر و نظر کے بعد مؤمن کے اعمال کا تزکیہ کیا جاتا ہے۔ یعنی افکار کا تزکیہ اعمال کے تزکیہ کا باعث بنتا ہے۔ حضورؐ نے تزکیہ کی اس جہت کا کس طرح خیال رکھا، اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے صحابہ کی یہ بات قابل توجہ ہے کہ ’’تعلمنا الایمان قبل ان نتعلم القرآن،‘‘ یعنی ’’ہم نے پہلے ایمان (کا علم) سیکھا، اس کے بعد قرآن (فرائض، اعمال کا علم) سیکھا۔‘‘ (بخاری، التاریخ الکبیر) عمل تزکیہ کی اس ترتیب کا صحیح اندازہ سورۃ العصر سے ہوتا ہے، جس میں ابدی خسران سے بچنے کے لئے ایمان کو اعمال صالحہ پر مقدم رکھا گیا ہے۔جہاں تک اعمال صالحہ کا تعلق ہے تو ان میں والدین سے حسن سلوک کی کلیدی اہمیت ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین ہی معاشرے کی خاندانی تنظیم کا باعث بنتے ہیں۔ یہاں پر توحید کو حقوق الوالدین کی ادائیگی کے ساتھ کچھ اس طرح جوڑا گیا ہے کہ توحید کے ذریعے ہونے والی فکری تطہیر اور تزکیہ بہت جلد حسن معاشرت کا رنگ اختیار کرتا ہے۔ والدین سے شروع ہونے والی حقوق العباد کی ادائیگی رشتہ دار، مسکین اور مسافر کے حقوق کا خیال رکھنا سکھاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اپنے آس پاس زندگی گزارنے والی خلق خدا کا خیال رکھنے والا مؤمن فضول خرچ ہوسکتا ہے اور نہ ہی بخیل۔ اس سے یہ بات آپ سے آپ مترشح ہوتی ہے کہ بندگان خدا کا خیال رکھنے والا انسان خدا کی مخلوق کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ اسی طرح انسانی شخصیت کی عزت و تکریم کے بارے میں حساس انسان فواحش (زنا) کے قریب نہیں پھٹک سکتا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ رسولؐ کے مبارک ہاتھوں انجام پانے والا عمل تزکیہ فرد کی پاکیزگی کے ذریعے خاندان اور معاشرے کو استحکام عطا کرتا ہے۔ ایسے ہی معاشرے میں یتیم کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں اور یہی معاشرہ معاشی دیانت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ تزکیہ شدہ اسی معاشرے میں اٹکل اور ظن و تخمین کے بجائے علم کی بنیاد پر معاملات طے ہوتے ہیں۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود اس معاشرے کے لوگ شیخی خور ہوتے ہیں اور نہ ہی متکبر، کیونکہ انہیں خدا کی کبریائی نرم خو اور منکسرالمزاج بنا دیتی ہے۔ (بنی اسرائیل، ۲۳-۳۷)
اس کا مطلب یہ ہے کہ رسولؐ کے ذریعے انجام پانے والا تزکیہ کا عمل، جس میں قرآنی آیات ’’کیمیائے سعادت‘‘ کا کام کرتی ہیں، فرد کی تطہیر کے ذریعے معاشرے کو آلودگیوں سے پاک کرتا ہے۔ یعنی تزکیہ سے فرد کے دل کا زنگ (ران، المطففین، ۱۴) دور ہوجاتا ہے۔ یہی افراد ایسا معاشرہ ترتیب دیتے ہیں جس کو حقیقی معنوں میں ’’عباد الرحمٰن‘‘ کا معاشرہ کہا جاسکتا ہے۔ رحمٰن کے یہی بندے حقوق اللہ اور حقوق العباد کے درمیان ایک حسین توازن پیدا کرتے ہیں۔ کامیابی ان کا مقدر بن جاتی ہے، کیونکہ تزکیہ ان کو اترانا نہیں سکھاتا، بلکہ ان کی زبان ذکر الہی سے تر رہتی ہے اور یہ نماز کی پابندی کرتے ہیں۔ (الاعلی، ۱۴-۱۵) یعنی یہ اپنی پاکیزگی کا دم نہیں بھرتے، بلکہ ان کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ’’پاکیزگی تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔‘‘ (النساء، ۴۹) بندۂ مؤمن کو یہ پاکیزگی حاصل ہوگی جب ہی وہ خدا کی ابدی جنت کا مستحق قرار پائے گا، جہاں پہنچنے سے قبل اس کو رب تعالی خود حتمی پاکیزگی عطا فرمائے گا۔ (آل عمران، ۷۷)
تاہم افکار (توحید، حق کی معرفت)، اقوال (حق کی شہادت، حق گوئی اور جھوٹ، غیبت، تنابز بالالقاب اور فحش گوئی سے اجتناب) اور اعمال (حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی) کی پاکیزگی یعنی تزکیہ کا ابد تک ایک ہی نصاب ہے، یعنی قرآنی آیات اور ان سے پاکیزگی حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے، یعنی وہی طریقہ جس کی تعلیم سید الانبیاءؐ نے امت کو دی۔ اسی تعلیم سے بندۂ مؤمن اپنی ذمہ داریوں (فرائض، کتاب) سے روشناس ہوتا ہے اور اسی سے وہ حکمت و دانش ہاتھ آتی ہے جو دنیا اور آخرت میں انسان کے کام آتی ہے۔ اسی لئے اس حکمت کو ’’خیر کثیر‘‘ (البقرہ، ۲۶۹) کہا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے ساتھ ساتھ اس عمل تزکیہ اور تعلیم کتاب و حکمت کا تکمیلی منہج بھی امت کے سامنے رکھا۔
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج، سوگام، لولاب میں اسلامک سٹیڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ 9858471965)