’’برکتِ رمضان‘‘

دو سال پہلے میں ایک دوست کے ساتھ دہلی گیا تھا، ایک کام کے سلسلے میں ۔ کام نپٹانے کے بعد سوچا کہ کچھ خریداری کرلیں۔ اس غرض سے ہم کرُول باغ کے مارکیٹ میں گئے۔ ایک دوکان میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ دُکان دار نے موٹے حروف میں بورڈ پر Fixed Price لکھا تھا۔ ہم نے ضرورت کی چیزیں اُٹھائیں اور قیمت ادا کرنے کے لئے کاونٹر کے پاس کھڑے ہوگئے۔ دوکاندار نے بل بنا کر ہمیں تھما دیا۔ میں نے جب بل دیکھا تو اِس پر 15% کم کر دیا گیا تھا۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ آپکی Rates تو Fixed ہیں پھر 15% کم کیسے؟ اُس نے دوسرے بورڈ کی طرف اشارہ کیا، جس پر لکھا تھا ’’دیوالی کے شُبھ اَوسَر پر 15% کی چھوٹ‘‘۔
مجھے فوراً اپنا کشمیر یاد آیا۔ ہم کتنے اچھے لوگ ہیں، ماہ رمضان کا معتبر مہینہ شروع ہوتے ہی نانبائی روٹی کا وزن گھٹا دیتا ہے،  شائد یہ سوچ کر اس مبارک مہینے میں لوگ زیادہ کھاتے نہیں، لیکن قیمت میں اضافہ کردیتے ہیں اور قصاب بھلے ہی ایک کلو کے بدلے میں 900 گرام نہ رکھیں لیکن قیمت تو ضرور بڑھا دیتے ہیں، شائد یہ سمجھ کر کہ اضافی رقم وصولنے سے ہی حصول برکت کی بات پوری ہوگی۔ اب سبزی فروش،بیچارے غریب خوانچہ فروش، ان پر کیا الزام دھریں، وہ تو بڑوں کے پیچھے چھوٹوں کی دوڑ میں شامل ہیں۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ شروع ہوتے ہی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔کسی سے اگر پوچھیں تو کہتا ہے کہ رمضان کا مہینہ ہے جی ۔ 
آج نہ بڑھائیں تو پھر کب؟ سنا ہے کہ عرب میں ماہ رمضان میں لوگ دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔راہ چلتے لوگوں کو منت و سماجت کر کے افطاری کراتے ہیں۔ غریبوں اور محتاجوں میں زکوٰۃو صدقات بانٹتے ہیں اور میرے کشمیر میں پیشہ ور بھکاری سال بھر کے لئے کما لیتے ہیں۔ غرض ہم ہمیشہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھولیتے ہیں ۔ میں لالچوک سے گذر رہا تھا تو ایک جوان بھکاری نے ہاتھ پھیلا کر گھمبیر آواز میں کہہ دیا ’’اللہ کے نام پر بیس روپیہ دے دو‘‘۔ میں ریٹ سن کر حیران ہوا۔ پوچھا دس کیوں نہیں؟ اُس نے کہا قصاب سے کبھی پوچھا؟ نانبائی سے پوچھا ؟
انہوں نے ریٹ کیوںبڑھادی۔ مجھ غریب نے بھی اگر ریٹ بڑھا دی تو آپکو مرچی کیوں لگی؟ میں نے غصے پر قابو پا کر کہا کہ چلو میرے گھر میں کام کرو، میں مہینے کے پانچ ہزار روپیہ تنخواہ دیا کروں گا۔ اُس نے مُسکرا کر کہا، جناب بُرا نہ ماننا، میرے ساتھ بھیک مانگنے چلوگے میں مہینے کی دس ہزار تنخواہ دوں گا۔ یہ میرا کشمیر ہے، جہاں بھکاری بھی تکرار میں اعتقاد رکھتا ہے۔ لیکن بھکاری کی ایک بات میرے دل کو چھو گئی۔ ہم قصاب، سبزی فروش ، نانبائی یا کسی اور دُکان دار سے پوچھنے کی جُرأت نہیں کرتے کہ اِس مقدس مہینے میں دنیا بھر میں اگر قیمتوں میں کمی کی جاتی ہے تو ہم انہیں کیوں بڑھا دیتے ہیں؟۔ ویسے کہہ بھی نہیں سکتے۔ میں ایک دوست کے آفس گیا، وہ ظُہر کی نماز کے لئے تیار ہورہا تھا کہ اتنے میں ایک سائیل اُس کے پاس آیا اور اپنی فائیل کے بارے میں پوچھنے لگا۔ میرے دوست نے اُسے کہا کہ فائل تب ہی آگے بڑھے گی جب آپ چائے کا بندوبست کرینگے۔ لیکن رمضان کا مہینہ ہے اور چائے پی کر روزہ توڑنا تو گناہ ہے، لہٰذا نقد ہی چائے کا بندوبست ہو تو کام فوراً ہوجائیگا۔ بیچارہ مرتا کیا نہ کرتا، جیب میں ہاتھ ڈال کے چند کرارے نوٹ نکالے لیکن میرا دوست تو ابھی ابھی وضو بنائے آیا تھا اور ہاتھ منہ ابھی پونچھا بھی نہیں تھا، اس لئے مجھے اشارہ کیا کہ چائے کی نقدی لیکر اُسکی جیب میں ڈال دوں۔ ایسے لوگوں کے لئے قیمتیں بڑھنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
میں نانبائی کے پاس گیا اور جُرأت کر کے کہہ ہی ڈالا کہ میں گورنمنٹ سے شکایت کروں گا تو اُس نے پُر خلوص انداز میں کہہ دیا جناب چوبیس لوگوں کی سرکار کے بجائے اب چار لوگوں کی ہے۔ وہ بچارے کیا کریں۔ انداز ہ کیجئے کہاں چوبیس اور کہاں چار۔ اُن میں بھی تین پردیسی ہیں اور ایک بیچارہ لاچار، وہ کتنا بوجھ سہہ سکیں گے۔ ہم چوبیس کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں تو پھر چار کس کھیت کی مول ہیں اور آپکی آواز وہاں پہنچ بھی نہ پائے گی کیونکہ انکی  Bullet Proof گاڑیوں کے آگے Jammers لگے ہوئے ہیں۔ آپکی آواز اُن کی سماعت سے ٹکرانے سے پہلے ہی Jam ہوجائے گی۔ میں خاموشی سے روٹیاں لے کر گھر پہنچا اور افطارکا انتظار کرنے لگا۔
���
سرینگر موبائل نمبر؛9419006926