برپا ہوئی ہیں بادِ مخالف کی آندھیاں!

 سرینگرکے پارلیمانی حلقہ کا ضمنی انتخاب پوری کشمیری قوم کو اس قدر مہنگا پڑیگا، غالباً کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا۔بائیکاٹ مہم کے چلتے احتجاج، پتھرائو اور مارپیٹ کے واقعات کسی بھی ٹکرائو زدہ خطے کے حالات کا حصہ ہوسکتے ہیںلیکن عین الیکشن کے دن ہلاکتوں کا جوباب کھولاگیا اسکے بارے میں کسی کو وہم و گماں بھی نہیں رہاہوگا۔ ہلاکتوں کے اس سلسلہ کا رکنا تو دور کی بات ، یہ مختلف مظاہر کے ساتھ ایک ایسے خوفناک عنوان سے اپنے پر پھیلا رہا ہے کہ جسکی لپیٹ میں کشمیری سماج کے تمام طبقے، خواہ وہ مزاحمت پسندہوں یا مین اسٹریم کے حامی، آرہے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ سوشل میڈیا پر ظاہر ہوئے چند ویڈیو کلپوں کی بنیاد پر سارے ملک میں کشمیریوں کوبدنام کرنے کی ایک نہ تھمنے والی مہم شروع کی گئی ہے، جسکے بہ سبب کشمیر سے باہر مقیم کشمیریوں کا جینا بھی حرام ہو رہا ہے۔ ان حالات کے چلتے مرکزی حکومت کے ذمہ داروں ، فوجی و سول، کی جانب سے ایسی بیان بازیاں ہو رہی ہیںجو اس متشددانہ صورتحال کو مزید انگیخت کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ ایسا کیوں ہو رہاہے؟ یہ بتانے کی شاید ضرورت نہ ہو کیونکہ حکومت کی تمام کوششوں کے باوجود صرف 7 فیصد پولنگ نے مملکتی اداروں اور خاص کر مرکزی و ریاستی حکومتوں کے بہت سے دعوئوں کی قلعی کھلول کر بھارت بھر میں سلجھی اورغیر جانبدارانہ سوچ رکھنے والے طبقوں کو اس صورتحال پر مثبت انداز میں سوچنے کی تحریک عطا کی۔ جسکے نتیجے میں بھارت کے کئی سرکردہ سیاستدانوں نے مرکز پر یہ باور کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کیاکہ کشمیر کو ہینڈل کرنے کے روایتی طریقوں سے رخصت لے کر صورتحال کو ایڈرس کرنے کی خاطر نیا انداز اور نئی سوچ ، جوہر زاویئے سے مثبت ہو، اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر صورتحال کے جو مظاہرسامنے آرہے ہیں، اُن سے لگتا ہے کہ یہ ادارے اور حکومتیں فی الوقت ایسا کرنے کے موڑ میں نظر نہیں آرہے ہیںبلکہ کشمیر کے حالات کے حوالے سے انسانیت کو شرمسار کرنے والی اُس سوچ کا دفاع کرنے کی کوشش ہی نہیں کی جارہی ہے بلکہ اسکی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے، جو ایک راہ چلتے نوجوان کو فوجی گاڑی کے آگے رسیوں سے باندھ کر پتھر پھینکنے والوں کے خلاف بطور ڈھال استعمال کرکے سامنے آتی ہے۔ پہلے سی آر پی ایف اہلکاروں کو دھکے مار مار کر پولنگ سٹیشن سے باہر نکالنے کے ویڈیو کو اُچھال کر سیکورٹی فورسز ادارں کو صابر او شاکر کی صورت میں پیش کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے لیکن بعد اذاں ایک عام شہری کو ڈھال بنانے اور ایک نوجوان کے سر کا نشانہ باندھ کر اُسے گولی لگانے کے ویڈیوز، جو انسانی حقوق کی کھلم کھلا پامالیوں کے واضح اشتہار ہیں، پر چُپ سادھ لی گئی۔ اگر چہ ریاستی حکومت کی جانب سے عام شہری کو ڈھال بنانے والے فوجی یونٹ کے خلاف معاملہ درج کرکے تحقیقات کرنے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن دوسری جانب نئی دہلی کے حلقے بے سر و پیر کی تاویلات پیش کرکے اسے جائز ٹھہرا رہے ہیںواقعات کی توضیح میں یہ تفاوت دوہری سوچ کی عکاس ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ ریاستی اور مرکزی اداروں کے درمیان افہام میں واضح فرق موجود ہے، جو صورتحال کو مزید پیچدہ بنانے میں ایک اہم روال ادا کر رہا ہے۔ کیا وزیراعلیٰ اور ریاستی حکومت کے ذمہ داروں کی جانب سے کی جانے والی یقین دہانیوں کے باوجود فورسز کی زیادتیوں کے نت نئے معاملات اسکی چغلی نہیں کھا رہے ہیں۔ ورنہ طلبہ کی طرف سے احتجاج کے خلاف کاروائی کرنے کےلئے پولیس کے تعلیمی اداروں کے اندر داخل ہونے کی کیا تُک بنتی ہے۔ نتائج ظاہر ہیںکہ پلوامہ ڈگری کالج میں گھُس کر طلبہ کی مارپیٹ کرنے کےخلاف وادی بھر میں ہیجان برپا ہوا ہے اور سوموار کا دن اس حقیقت کا گواہ ہے کہ شاید ہی کوئی کالج رہا ہو، جہاں احتجاجی مظاہرے نہ ہوئے ہوں اور فورسز و طلبہ و طالبات میں جھڑپیں نہ ہوئی ہوں۔ یہ ساری صورتحال ریاستی حکومت کےلئے اپنا احتساب کرنے کا محرک ہونی چاہئے کہ عوامی حکومت کے نام پر غیر عوامی پالسیوں کے اطلاق سے کون سی تصویر سامنے آرہی ہے اور آنے والے ایام میں اسکے مظاہر کیا ہوسکتے ہیں۔ فی الوقت ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ کشمیر میںکم و بیش سارے سیاسی حلقے عوام کو ایک صحیح سمت دینے میں ناکام ہوئے ہیںاگر اس مرحلے پر ایک ایسی متفقہ سوچ ، جس میں کشمیریوں کے تئیں دردمندی موجود ہو، کو اُبھارنے کےلے کوششیں نہ ہوئیں تو آنے والے ایام میں کیا کچھ سامنے آسکتا ہے اُس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔