برق گرتی ہے وادی کے مسلمانوں پر

بلدیاتی  اور پنچایتی انتخابات اختتام پذیر ہو چکے ہیں۔ کس نے کیا کھویا اور کس نے کیا پایا، اس بحث میں پڑے بغیراگر کوئی بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ریاست کی دو بڑی سیاسی تنظیموں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کرکے اپنے حلقۂ اثر کو داوی کشمیر تک ہی محدود کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
بلدیاتی انتخابات میں واقعی کشمیر وادی میں اچھا خاصا بائیکاٹ ہوا۔ لیکن پنچایتی انتخابات میںاچھی خاصی تعداد میں لوگوں نے ووٹ کا استعمال کیا۔ جہاں تک صوبہ جموں اور لداخ کا سوال ہے، وہاں تو بائیکاٹ کا کہیں کوئی اثر دیکھنے کو نہیں ملا۔ حد تو یہ ہے کہ پیر پنچال اور چناب ویلی، جہاں نیشنل کانفرنس کا اچھا خاصا اثر و رسوخ ہوا کرتا تھا، وہاں بھی70 فی صد سے زیادہ لوگوں نے انتخابات میں حصہ لیا اور  یوں ریاست کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے حصے کی زمین بی جے پی اور کا نگریس پارٹی کو تحفے کے طور سونپ دی۔
 ناقدین بھلے کچھ بھی کہیں، نیشنل کانفرنس ریاست جموں و کشمیر کی ایک معتبر اور با رسوخ سیاسی جماعت رہی ہے ۔کئی دہائیوں تک ریاست جموں کشمیر میں نیشنل کانفرنس کا ہی طوطی بولتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جموں خطے کے ایک، ڈیڑھ اضلاع اور لیہہ کو چھوڑ کر پوری ریاست میں نیشنل کانفرنس کا ہل والا جھنڈا ہی ہر سُو لہراتا دکھائی دیتا تھا۔
 نیشنل کانفرنس نے کئی دہائیوں کے بعد الیکشن بائیکاٹ کی بات کی جب کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا یہ پہلا تجربہ تھا۔دونوں پارٹیوں کی قیادت نے بائیکاٹ کے حق میں یہ تاویل دی کہ جب تک مرکزی سرکار سپریم کورٹ میں آرٹیکل35-A کے بارے اپنا موقف واضح نہیں کرتی، وہ کسی الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔حالانکہ بلدیاتی انتخابات سے کچھ ہی دن پہلے انہوں نے کرگل کے ہل ڈیولپمنٹ کونسل الیکشن میں حصہ لیا تھا اور اُس وقت بھی آرٹیکل35-A سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا ،اُس وقت ان پارٹیوں نے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی ۔ 
ٰاین سی اور پی ڈی پی نے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ بائیکاٹ کہاں ہوا؟ کھنہ بل سے کھادنیار تک؟ 
مزاحمتی قیادت نے بائیکاٹ کی کال دی۔ بائیکاٹ کہاں ہوا؟ کھنہ بل سے کھادنیار تک؟
جب مسئلہ کشمیر کی بات کی جاتی ہے تو بات ہوتی ہے کشمیر، جموں، لداخ، میر پور ، مظفر آباد اور گلگت و  بلتستان کی۔ لیکن ہمارے یہاں کی  سیا سی قیادت اس مسئلے کو کھنہ بل سے کھادنیار تک ہی محدود کرنے کے درپے لگ رہی ہے۔
 مزاحمتی قیادت کے بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کے دوران دئے گئے ہڑتالی پروگرام کو ہی دیکھ لیجئے۔ جہاں بھی انتخابات ہونے ہوتے، مزاحمتی قیادت اُن مخصوص علاقوں میں لوگوں سے ہڑتال کی اپیل کرتی۔ لیکن واضح رہے فقط وادی کشمیر کے علاقوں میں۔ ان انتخابات کے دوران اس قیادت نے کبھی تھنہ منڈی، سرنکوٹ، درہال، نوشہرہ، بھدرواہ، کشتواڑ، کرگل، دراس وغیرہ علاقہ جات میں رہنے والے لوگوں سے پولنگ کے دن ہڑتال کی اپیل نہیں کی۔ 
کیا عندیہ ملتا ہے اس تمام صورتحال سے؟  
نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہیں لیکن جموں اور لداخ اُن کی بائیکاٹ کال کو کسی خاطر میں نہیں لاتے اور دوسری جانب مزاحمتی قیادت پولنگ کے دنوں صرف وادی کشمیر کے علاقہ جات کے لوگوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ہڑتال کریں اور ووٹ نا کریں۔  
’نیویارک میں مسئلہ کشمیر کی گونجـ‘ ۔۔۔۔ مقامی اخبارات میں کچھ اسی قسم کی سُرخیاں پڑھتے پڑھتے ہم جوان ہوئے اور جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز پہ آ پہنچے۔ لیکن ہمارے یہاں سیاسی جماعتوں نے مین سٹریم ہوں یا علیحدگی پسند، اس گونج کو وادی کشمیر تک ہی محدود کرکے رکھ دیا۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دہائی دینے والوں سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا وہ قراردادیں فقط کھنہ بل سے کھادن یار تک ہی محدود ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کی بات چھوڑئے، کیا آپ بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر میں اپنے سیاسی نعروں کے حوالے سے کوئی اتفاق رائے قائم کرسکے ہیں۔ جن لوگوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کی خاطر قربانیاں دی ہیں ،اُن قربانیوں کا احترام و تقدس اپنی جگہ، لیکن سیاسی مسائل کیا فقط قربانیوں سے ہی حل ہو سکتے ہیں؟  ٓزاد کشمیر کے لوگ اپنی مرضی کے نمائندوں کو چُن سکتے ہیں،گلگت و بلتستان اور ہمارے یہاں جموں و لداخ خطوں کے لوگوں کو بھی ایسا کرنے کی آزادی ہے لیکن وادی کشمیر کے لوگوں کو ایسا کرنے کی آزادی نہیں ۔ انہیں کبھی آزادی کے نام پر ،کبھی اٹا نومی اور سیلف رول کے نام پر انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اور یوںمسئلہ کشمیر کا سارے کا سارا بوجھ اس چھوٹی سی وادی کے مکینوں کے کاندھوں پر ڈال دیا گیا ہے۔  علامہ سے معذرت کے ساتھ۔
برق گرتی ہے تو وادی کے مسلمانوں پر
سروں کی فصلیں کٹتی ہیں تو وادی میں، بستیاں اُجڑتی ہیں اور قبرستان آباد ہوتے ہیں تو وادی میں، تعلیمی نظام درہم برہم ہوکے رہ گیا ہے تو وادی کا، معیشت برباد ہورہی ہے وادی کی، گرفتاریاں ہوتی ہیں تو وادی کے مکینوں کی، اغوا کرکے مار دئے جاتے ہیں تو وادی کے لوگ،  گولیاں برستی ہیں تو وادی کے نوجوانوں پر، پیلٹ بر ستے ہیں تو وادی کے نو نہالوں پر۔ہڑتال کرو ائی جاتی ہے تو وادی کے لوگوں سے اور الیکشن بائیکاٹ کا حکم بھی اسی بستی  کے ستم رسیدہ باشندوں کو دیا جاتا ہے۔
میری داوی کا ہر اک پھول مہک کو ترسے
آسمانوں سے پانی نہیں اگنی  برسے
پھر جب اسی وادی کے ایک چھوٹے سے گائوں کے ایک چھوٹے سے محلے کے لوگ اپنی بساط کے حساب سے اپنے محلے کی نمائندگی کرنے کے لئے ایک پنچ کو منتخب کرنے کی سوچتے ہیں تو اُنہیں ایسا کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ یہ بیچارہ پنچ نہ تو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر ہی کسی طور اثر انداز ہو سکتا ہے اور نہ پاکستان اور ہندوستان جیسے نیو کلیائی ممالک کی طے شدہ پالیسیوں پر حاوی ہو سکتا ہے۔ نہ وہ وسیع تر آزادی کے خواب کو چکنا چُور کرنے کی اوقات رکھتا ہے نہ اٹانومی اور سیلف رول کو۔ ہاں اگر وہ کچھ کرسکتا ہے تو فقط یہ کہ اپنے محلے کا کوئی ٹوٹا پھوٹا نل ٹھیک کرواسکتا ہے تاکہ لوگ پانی پی سکیں، کوئی خستہ حال سڑک ٹھیک کرواسکتا تھا تاکہ لوگوں کوچلنے پھرنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔جب سیاسی قیادت عام لوگوں کو ان چھوٹی سی آزادیوں کی اجازت نہیں دیتی تو ایسے میں، گستاخی معاف کی جائے، اس قیادت کے ذہن میں پلنے والا وسیع تر آزادی کا تصور لازمی طور شک کے دائرے میں آجاتا ہے۔
 بشکر یہ ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر