جموں و کشمیرمیںاس سال طویل خشک سالی بعدوادئ میںبرف باری ہونے پر لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ چلہ خورد کے ابتدائی ہفتہ کو سرینگر سمیت میدانی علاقوں میں درمیانہ درجے اور بالائی علاقوں میں بھاری برفباری سے جہاں سرینگر سمیت شمال و جنوب میں برف کی چادر بچھ گئی وہیں بیشتربالائی علاقے برف سے ڈھک گئے،جس کی وجہ سے اگرچہ کئی علاقوں میں معمولات زندگی درہم برہم ہوگئے اور بعض علاقوںمیںزندگی کی سرگرمیوں میں رکاوٹیں اور دشواریاں پیدا ہوگئیں تاہم مجموعی طور پر تاخیر سے ہوئی یہ برف باری جموں و کشمیرکےعوام کے لئے اطمینان کا باعث بنی،خصوصاًیہاں کے کسانوں کے لئے انتہائی مسرت اور راحت کا سانس لینے کاسبب ثابت ہوئی۔بے شک برف باری ہماری وادی کا سرمایہ افتخار ہے،اس سے جہاں وادی ٔ کشمیر کے حُسن اور دلکشی میں اضافہ ہوجاتا ہے ،وہیں موسم گرما کے لئے یہی برف نہ صرف یہاں کے باشندوں کے لئے نعمت ہوتی ہے بلکہ یہاں کے درند،پرند ، چرنداور دیگر مخلوقات کو زندہ رہنے کے لئے راحت کےسامان مہیا کروانے میں بھی اہم رول ادا کرتی ہے۔برف باری سے ہی یہاں کے جنگلات ،کھیت کھلیان ،گلستان ،مرگزاراور باغات لہلہاتے اور سَر سبز و شاداب رہتے ہیں جبکہ اسی برف باری سے یہاں کے ندی نالے اور دریائوں میں پانی کی روانی رہتی ہےاور یہاں موجود تمام مخلوقات کے لئے پینے کا پانی مہیا رہتی ہےجبکہ بجلی پیداوار میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ وادی ٔکشمیر کے لوگ اس بات پر واقعی خوشی کا اظہار کررہے ہیں کہ دیر سے ہی سہی ،اب تو برف باری ہوئی۔کیونکہ برف باری اور بارشیں نہ ہونے سے خشک سالی کی جو صورت حال پیدا ہوگئی تھی اور جو اندیشے پیدا ہوئے تھے ،وہ کافی حد تک دور ہوگئے ہیں۔خاص طور سے ہمارے یہاں کےسوشل ویب سائٹس نے،خشک سالی کی صورتِ حال اور برف باری و بارشیں نہ ہونے پر جس طرح کے خوفناک اندیشے اور وسوسے لوگوں کے دلوں میںڈال دیئے تھے ،اُس سے عام لوگ متفکرتو تھے ہی، لیکن سوشل ویب سائٹس کے ذریعےپھیلائی گئی خود ساختہ پیش گوئیوں اور خطرناک اندیشوںنے یہاں کے کسان طبقہ کو زبردست تشویش میں مبتلا کردیا تھا ،اِس برف باری سے کسانوں اور میوہ باغات مالکوں کی تشویش بھی بہت حد تک دور ہوگئی ہے۔در حقیقت انسان فطرتاً کمزور،خود غرض اور لالچی ہے۔جب بھی اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی آزمائش کے تحت کوئی بُراوقت آتا ہے تو وہ فوراً اپنے خالق و مالک کو ہی بھول جاتا ہےاور اُن باتوں پر عمل کرنے لگتا ہے جو کہ اُس کے دینی احکامات اور تعلیمات کے خلاف ہوتی ہیں۔بے شک اس کائنات کے خالق و مالک نےانسان کے رہنے سہنے ، کھانے پینے کا نظام اسی کرہ ارض میں چھُپا رکھا ہے اور بنی آدم نے محنت و مشقت کر کے اس زمین سے اپنی غذا حاصل کرنے کو اپنا مشغلہ بنا رکھا ہے ۔حالانکہ کھلانے پلانے کی ذمہ داری خودخالق کائنات کی ہےاور دنیا میں جتنی بھی مخلوقات ہیں ،اُن تمام مخلوقات کے کھلانے پلانے کی قدرت بھی وہی رکھتے ہیں۔ لیکن ان میں صرف انسان ہی ہے،جس نے اپنے آپ کو دو وقت کی روٹی حاصل کرنے میں پوری زندگی صرف کرنے کو مقصد ِحیات بنا رکھا ہے ۔ایک طرف ہم نےاپنی خود عرضی سے چاروں سمت ماحولیاتی آلودگی سے اوزون کی تہہ سمیت پوری کائنات کے نظام کو درہم برہم کر رکھا ہے اور دوسری جانب اعمال بداور اپنے سیاہ کارناموں سے خالق کائنات کی ناراضگی کو مول لیا ہے ۔چنانچہ کل تک یہ بات زبانِ زد عام تھی کہ اس سال نہ بارشیں ہوئی اور نہ ہی برفباری ہوئی ،اس لئے نہ ہی غلہ نکلے گا اور نہ ہی میوہ جات و فصل ہونگے،نہ کمائی ہوگی نہ کچھ۔ کھائیں تو کیا کھائیں۔ گویا یہاں کا ہر انسان اپنے اُس خالق و مالک کو یکسر بھول گیاتھا ،جو پتھر کے اندر کیڑے کو بھی سبزہ پہچاتا ہے ۔ضرورت اس بات ہے کہ ہمیں کسی بھی حال اللہ کی رحمت سے نا اُمید نہیں ہونا چاہئے۔ہر حالت میں اپنے آپ کو اُسی کے سُپرد کر دینا چاہئےاور ہر لمحہ اُسی کی خوش نودی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ کیونکہ اﷲ کی رضامندی میں ہی ہماری کامیابی ہے لیکن ساتھ ہی ماحولیاتی تباہی کا کچھ تدارک کرنا چاہئے کیونکہ فطرت کے ساتھ یوں مسلسل کھلواڑ گھاٹے کا سودا ہے اور دیر سویر ہمیں اس کی سزا بھگتنا ہی پڑے گی۔