سرینگر// برفباری کے بعدشہر و دیہات میں برف سے’’فن مجسم سازی‘‘ کے مناظر جہاں معمول کی روایت ہے،تاہم کئی جگہوں پر موجودہ صورتحال بالخصوص پیلٹ قہر کی بھی عکاسی کی گئی۔ برف سے بنے اس مجسمہ کو جگہ جگہ پر داغتے ہوئے ایک آنکھ کو بھی کوئیلہ سے بند کیا گیا تھا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ پیلٹ سے اس کی آنکھوں کو داغا گیا ہے۔2016کی ایجی ٹیشن کے دوران پیشہ وارنہ ذمہ داریوں کو نبھانے کے دوران پیلٹ سے زخمی ہوئے فوٹو جرنسلٹ زہیب مقبول کا کہنا ہے کہ انسان آس پاس جس چیز کو دیکھتا ہے ،اس کے خاکوں کو ہی تراشنے کی کوشش کرتا ہے۔انہوں نے کہا’’ پیلٹ کا قہر اس قدر بھاری ہے کہ بار بار کوششوں کے باوجود اس سے انسان نکل نہیں پاتا‘‘۔انہوں نے کہا کہ وہ اس دور سے خود گزر چکے ہیںاور اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مجسمہ سازی میں جس چیز کی عکاسی کی گئی ہے،وہ اندر کے درد کا اظہار ہے۔میر جاوید احمد نامی ایک اور صحافی،جو بھی2016میں پیلٹ کا نشانہ بنے،نے کہا کہ پہلے کے اوقات میں برف سے مختلف چیزوں کی خاصیت جھلکتی تھی اور فی الوقت جب ہر سو پیلٹ ہیں تو بچے بھی اسی ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔ شہر خاص کی تنگ وگنجان گلیوں اور سڑکوں پر جگہ جگہ برف کے پتلے بنائے گئے ہیں اور ان پر ’’مسٹر چلہ کلان‘‘کے بوڑ آویزان کردئے گئے ہیں ۔
برفانی مجسمہ سازی میں عصری جذبات کا اظہار
