اسد مرزا
برطانیہ کی ہوم سکریٹری سویلا بریورمین نے گزشتہ منگل یعنی 26 ستمبر کو اپنی ایک تقریر میں خبردار کیا کہ بے قابو ہجرت مغربی ممالک کے لیے ایک ’’وجود کا چیلنج‘‘ ہے اور اس معاہدے کو دوبارہ لکھنے پر زور دیا جس نے پچھلی سات دہائیوں سے عالمی سیاسی پناہ گزیروں کی پالیسی کو متاثر کیا ہے۔واشنگٹن میں امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ نامی تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے، بریورمین نے کہا کہ اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن نے’’ظلم‘‘ کی تعریف کو وسیع کیا ہے اور پناہ گزینوں کے تحفظ کے لیے اہل افراد کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔بریورمین، جنھیں حکمران کنزرویٹو پارٹی کے ممکنہ مستقبل کے رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے، نے امیگریشن کے حوالے سے عالمی سطح پر نظر ثانی کرنے پر زور دیا، جو کہ اگلے سال متوقع برطانیہ کے عام انتخابات میں ایک اہم مسئلہ ہوگا۔
اقوام متحدہ کا 1951 کا کنونشن – دنیا بھر میں پناہ گزینوں کے تحفظ کی قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے اور جس کی برطانیہ اور تقریباً 150 دیگر ممالک نے توثیق کی ہے – یہ کنونشن اس اصول کو بیان کرتا ہے جس کے تحت معاہدے پر دستخط کرنے والے ریاستوں کو تنازعات یا ظلم و ستم سے بھاگنے والے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔
بریورمین نے کہا کہ کنونشن سے پیدا ہونے والے کیس کے قانون نے حد کو کم کر دیا ہے تاکہ پناہ کے متلاشیوں کو صرف یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ انہیں تشدد یا تشدد کے حقیقی خطرے کے بجائے “امتیازی سلوک” کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کی تعداد جو سیاسی پناہ کے لیے اہل ہو سکتے ہیں ’’غیر پائیدار‘‘ سطح تک پہنچ چکی ہے اور ’’ہم جنس پرست ہونا، یا عورت ہونا، اور آپ کے آبائی ملک میں امتیازی سلوک سے خوفزدہ ہونا، تحفظ کے لیے اہل ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔‘‘برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت چھوٹی کشتیوں میں برطانیہ پہنچنے والے لوگوں سے نمٹنا اور انہیں گھر بھیجنے یا روانڈا جیسے نام نہاد محفوظ تیسرے ممالک بھیجنے میں سب سے بڑی قانونی رکاوٹوں میں سے ایک یہ کنونشن رہا ہے اور اب برطانیہ اس کا اہل نہیں ہے کہ وہ اور مزید پناہ گزینوں کو اپنے یہاں جگہ دے سکے۔
محترمہ بریورمین کے اس خطاب کی برطانیہ میں شدید مذمت ہوئی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں، اپوزیشن کے سیاست دانوں اور یہاں تک کہ ان کی اپنی پارٹی کے کچھ ارکان نے بھی بریورمین کی تقریر پر تنقید کی۔سکاٹش نیشنل پارٹی کی رکن پارلیمنٹ سٹیورٹ میکڈونلڈ نے کہا کہ اس نے “خوفناک، گندی اور ظالمانہ جبلت کا مظاہرہ کیا جو عام شائستگی سے متصادم ہیں۔‘‘ بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی کی یوکے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر لورا کرک سمتھ نے حالیہ پولنگ کی طرف اشارہ کیا جس میں دکھایا گیا ہے کہ دو تہائی برطانوی بالغ افراد’’یقین رکھتے ہیں کہ پناہ حاصل کرنے کے حق کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔‘‘ اپوزیشن لیبر پارٹی نے بھی اس تقریر پر تنقید کی، شیڈو ہوم سکریٹری یوویٹ کوپر نے برورمین پر الزام لگایا کہ وہ برطانیہ کے اپنے سیاسی پناہ کے نظام کے ساتھ مسائل کے لیے ’’بیرون ملک رہنے کا سہارا لے رہی ہیں اور کسی اور کو قصوروار ٹھہرانے کے لیے تلاش کر رہی ہیں۔‘‘سکاٹش ریفیوجی کونسل نے بریورمین کے تبصروں کی مذمت کی جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان کی “اشتعال انگیز” تقریر پر تنقید کی۔
جس طریقے سے سولا بریورمین نے پناہ گزینوں کی پالیسی اور برطانیہ کی کثیرالثقافتی سوسائٹی پر تنقید کی ہے وہ آپ کو حیرت میں ڈال دیتا ہے، کیونکہ وزیر اعظم رشیک سناک اور بریورمین دونوں ہی ایشیائی نژاد ماں باپ کی اولاد ہیں اور اسی کثیرالثقافتی معاشرے کی وجہ سے آج وہ سیاست کی ان اونچائیوں پر پہنچ سکے ہیں جو کسی عام برطانوی شہری کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا ہے۔ شاید اس کے پیچھے یہ خیال کامل رہتا ہے کہ آپ کو انگریزوں سے زیادہ انگریز ہوکر دکھانا ہے۔ بریورمین کی طرح ہی سابقہ ہوم سکریٹری پریتی پٹیل جو کہ خود گجراتی نژاد تھیں وہ بھی برطانیہ آنے والے پناہ گزینوں کی سخت مخالف تھیں۔تو غالباً یہ اپنے آپ کو سیاسی طور پر متحرک دکھانے کے لیے اور اپنے آپ کو زیادہ برطانوی دکھانے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔کیونکہ بہت جلد ہی حکمراں کنزرویٹو پارٹی کے اعلیٰ عہدے داروں میں پھیر بدل ہونا ہے اور غالباً محترمہ بریورمین اعلیٰ عہدے کے لیے نامزد ہوسکتی ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ بریورمین کے خطاب کی مخالفت صرف غیر ملکی ہی کررہے ہیں، بلکہ خود قوم پرست انگریز بھی ان کی مخالفت کررہے ہیں۔ دی گارڈین اخبار کے مبصر جان کریس نے اپنے تبصرے میں محترمہ بریورمین کی تقریر کے چیتھڑے اڑا ڈالے اور یہ کہا کہ جو باتیں وہ کہہ رہی ہیں وہ برطانیہ کے مستقبل کے لیے بالکل موزوں نہیں ہیںبلکہ وہ برطانیہ میں ثقافتی جنگ شروع کراسکتی ہیں۔بین الاقوامی معاہدوں پر اپنی ناکامیوں کا جواب انھوں نے اپنی تقریر میں نہیں دیا اور اس کے لیے پناہ گزینوں کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ خود محترمہ بریورمین اسی معاشرے کے ایک اہم رکن کے طور پر اس عہدے تک پہنچنے میں کامیاب رہی ہیں۔
کریس کا مزید کہنا تھا کہ محض تیس منٹ میں ہوم سکریٹری نے برطانیہ کے گزشتہ 70 سالوں کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو ردّی میں ڈال دیا۔جب کہ ہمیں اس پر فخر ہونا چاہیے تھا، اب امید یہی کی جاسکتی ہے کہ آئندہ انتخابات میں اس کا بھرپور جواب محترمہ بریورمین کو دیں۔
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ دراصل یہ جنگ لیبر اور کنزرویٹو پارٹی کے درمیان ہے کیونکہ جس طریقے سے ٹونی بلیئر کے عہد میں برطانیہ نے ایک کثیر الثقافتی معاشرے کے ڈھانچے کو کھڑا کیا تھا، اسے کنزرویٹو پارٹی نے کبھی قبول نہیں کیا۔اس کے علاوہ گزشتہ پانچ سالوں میں بریکسٹ کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور کنزرویٹو پارٹی کی آپسی چپقلش بازی نے اس بات کو اور واضح کردیا ہے کہ برطانیہ میں مجموعی طور پر سیاست اور خاص طور پر کنزرویٹو پارٹی کی سیاست میں کافی گراوٹ آچکی ہے اور صرف حکومت میں قائم رہنے کے لیے وہ دائیں بازو کی سیاسی حکمت عملیوںکے اوپر عمل کرنا شروع کرچکے ہیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)