یوں تحریک آگے کی طرف رواں دواں تھی، لیکن قصہ مختصر یہ کہ ایک میاں میں راج شاہی کے خلاف برسرکار دو تلواروں کا سمایا جا ناممکن نہیں ہوسکتا تھا اور یہی ایک آفاقی حقیقت دولیڈروں کے شخصی ٹکراؤکا نقطہ ٔ آغاز بن گیا۔ اس دراڑ کو روکنا آسان کا م نہیں تھا اوریہ ٹکراؤ کشمیر کی تحریک ِآزادی کی راہ کا ایک بہت بڑا پتھر بن گیا۔تاہم تحریک میں جو دراڑ پڑگئی تھی، اُس سے اس کا رُخ موڑ دئے جانے کے اندیشے پیدا ہونے لگے تھے۔ جیسے جیسے الزامات کی بارشیں برستی رہیں، زمین بھی اس کا اثر قبول کرتی گئی ۔ اب مشکلات میں اس لئے بھی اضافہ ہونے لگا تھا کہ اسی مرحلے کے دوران برٹش انڈیا کے بٹوارے کی تحریک بھی چل پڑی اور جموں کشمیر کی تحریک برائے قیام ذمہ دار نظام حکومت کو دو قومی نظریے کے ساتھ بھی جوڑا جانے لگا تھا۔ ادھر جموں کشمیر مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرنے کے فیصلے پر بھی آپسی رقابت کو نئی جہت ملی ۔ اس سے انتشار اور بھی زیادہ دوآتشہ ہونے لگا۔ پارٹی کے نام میں تبدیلی لانے کے حامی لیڈروں کے مطابق جموں کشمیر برٹش انڈیا کا کوئی حصہ نہیں تھا اور پارٹی کا بنیادی منشور خالص ریاست جموں کشمیر سے مطلق العنانیت کا جنازہ نکالنے پر مرکوز تھا ۔ اس وجہ سے اس کا دائرہ اثرریاست کی تمام اقلیتوں تک بڑھانا ضروری بن جاتا تھا۔ جب کہ اس خیال کے مخالف قائدین کا موقف اس کے برعکس تھا کہ یہ اقدام ہندو ذہنیت کا عکاس اور جموں کشمیر کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے کی کوششوں کا توڑ تھا۔دونوں فریقین کے متصادم نظریات کو تاریخ کے حوالوں سے جانچنا ریاست کے اہل دانش وبینش پر لازم ہے تاکہ اس مرحلے سے آگے مرتب شدہ متنازعہ تاریخی پہلوئوں کو صحیح سمت میں سمجھا جا سکے۔ مضمون کے حوالے سے یہاں اس مرحلے پر ہمیں اتنا ہی ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ تقسیم برصغیر کے وقت ہماری ریاست جموں کشمیر کی حیثیت مکمل طور آزاد تھی اور یہ ریاست برٹش انڈیا کا کوئی حصہ نہیں تھی۔ تاریخ کے اس باب کو ابھی تک موقعہ پرست اور جمہور کش عناصر و اداروں کو چھوڑ کر کسی بھی لیڈر، تاریخ یا ملک نے مسترد نہیں کیا ہے کہ کشمیر کو مہاراجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں سے خرید کر اپنے راجیہ کو وسعت دے کر اسے جموں کشمیر بنادیا تھا ،یعنی سودا خریدنے والا فریق خود انگریزوں کے تسلط سے آزاد تھا اور اسی حیثیت میں وادی ٔ کشمیر کوانگریزوں کے طے شدہ سودا یعنی بیع نامہ امرتسر کے تحت زر نقد ادا نانک شاہی کی ادائیگی پر خرید لیا گیا۔ آگے چل کر دیکھنے کو یہ بھی ملتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحدیں قائم کرنے کی دستاویز ریڈکلف ایوارڈ میں جموں کشمیر کی سرحدکا نہ کوئی تذکرہ ہے اور نہ اس (ملک) کی سرحد کے ساتھ کوئی چھیڑ خوانی ہوئی تھی۔اس سے بھی ایک قدم آگے تاریخ گواہی دیتی ہے کہ پاکستان ۱۹۴۷ء میں ۱۴؍ اگست کو قائم ہوا اور بھارت کو ایک دن بعد ۱۵ ؍اگست کو آزادی ملی تھی لیکن جموں کشمیر پر مہاراجہ ہری سنگھ کا راج ۲۶ ؍اکتوبر تک برابر قائم تھا۔ شیخ محمد عبداللہ کو ۱۹۴۶ء میں کشمیر چھوڑدو نعرہ بلند کرنے پر مہاراجہ کی حکومت نے بھدرواہ کی جیل میں قید رکھا گیاتھا ۔جواہر لال نہرو شیخ محمد عبداللہ کو مہاراجہ بہادر کی جیل سے چھڑانے کی غرض سے جب وکیل کی حیثیت میں ریاستی حدود میں داخل ہوئے تھے تومہاراجہ کی فوج نے سفری دستاویزات حاصل کئے بنا ریاست کی سرحد پار کرنے کے جرم میں کوہالہ کے مقام پر زبردستی روک کر قید کیا تھا۔نہرو کی اس گرفتاری کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے؟اس کے آگے جو ہوا اور جیسے ہوا، عارضی الحاق کے نام پر بھارت کا حصہ بنائے جانے کے بعد بھی جموں کشمیر اور بھارت کے درمیان سرحد نما حالات ۱۹۵۳ء تک بھی بنے رہے۔
برٹش انڈیا کے بٹوارے کی اصل کہانی:۔ زیر تبصرہ ایم اشرف کا مضمون ’’ برطانوی سازش ‘‘ وائسرائے ہاوس نام کی ایک فلم کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ برٹش انڈین ڈائریکٹر گریندر چڑا پاکستانی پنجاب کے ضلع جہلم میں جنمی ایک خاتون کا نام ہے اور وہ بٹوارے کی ستم ظریفی کا خود بھی شکار رہی ہے۔ اس وجہ سے بھی مسز چڑا کی تخلیق یہ فلم ہندوستان کے بٹوارے کا حقیقی روپ مانی جا سکتی ہے۔یہ فلم ایک سازش کا پردہ فاش کرتی ہے۔ اس سازش کا محرک کوئی اور نہیں بلکہ وار ٹائم برطانوی وزیراعظم مسٹر ونسٹن چرچل تھا۔ فلم کی کہانی کو اُن دنوں کے وائسرائے ہاؤس ( موجودہ راشٹرپتی بھون نئی دلی) میں جاری سیاسی اُتھل پتھل کے حوالوں سے لکھا گیا ہے، جو برٹش انڈیا تقسیم ہوجانے کے بعد دستاویزات کی صورت میں پچاس سال تک انتہائی رازداری سے محفوظ رکھے گئے تھے ۔ یہ دستاویزات دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر امریکہ اور برطانیہ کے درمیان خط و کتابت کا وہ حصہ ہے، جس کا مقصد کمیونسٹ اسٹالن کے ملک روس کو ایرانی گلف، مشرق وسطی اور بحر ہند کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے سے باز رکھنا تھا۔ چرچل نے اس مشن کو کامیاب بنانے کیلئے برٹش انڈیا کے دو حصے کرنے کا بیڑا اُٹھایا تھا۔ چرچل بنیادی طور برصغیر کی آزادی کا کٹر مخالف تھا اور پنڈت نہرو کے سوشلسٹ ( روس نواز) مزاج سے بھی پوری طرح واقف تھا۔ چرچل نے اپنے اس مقصد سے تقسیم برصغیر کا ایسا خاکہ کھینچا کہ مغرب کے ’’لاڈلے‘‘ پاکستان سے گزرے بغیر روس کو بحر ہند تک پہنچنے کا کوئی بھی راستہ دستیاب نہ رہا تھا۔ بٹوارے کا خفیہ منصوبہ ۱۹؍ مئی ۱۹۴۵ء تک تیار ہوا تھا۔ کچھ وقت بعد اس فائل کو سرحدوں کی نشاندہی کرنے کی غرض سے سائرل ریڈ کلف کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا۔خطے کے جغرافیائی حالات سے انجان اور وقت کی قلت کا مارا ریڈکلف پریشانیوں کے بوجھ تلے دب جاتا گر کیبنٹ مشن کی طرف سے مطلوبہ سرحدوں کا ریڈی میڈ نقشہ بھی اُن کو فراہم نہ کیا جاتا۔اب تو ریڈکلف کا کام بہت ہی آسان تھا، بس نقشے کو زمین پر اُتارنا تھا۔ حد یہ ہے کہ وائسرائے برٹش انڈیا موؤنٹ بیٹن چرچل کے بٹوارہ منصوبے سے بے خبر تھا۔ موؤنٹ بیٹن فائل وصول کرتے وقت چونک پڑا تھا اورا س دستاویز کو اس کو خود اُس کے نام سے جوڑنے یعنی’’ موؤنٹ بیٹن پلان‘‘ نام دئے جانے پر حیرانی تھی۔چرچل کے اس منصوبے میں کشمیر کو بھی اُلجھایا گیا ہے۔ بٹوارے سے متعلق اس منصوبے سے وابستہ حقیقی دستاویزات کا مطالعہ کرکے اور اس کے پس منظر میں ایک ریسرچ سکالر راکیش انکٹ نے ۲۰۰۹ء میں اکسفورڈ یونیورسٹی جرنل میں کئی انکشافات کئے ہیں ۔ مسٹر راکیش کا کہنا ہے کہ قوتِ بازو کے استعمال سے سرد جنگ کا جنم لینے کے نتیجے میں۴۷۔۱۹۴۸ء میں کشمیر بحران بھی جنم پاگیا ۔اس کے ساتھ ہی مقامی، علاقائی اور بر صغیر کے پورے خطے میں مذہبی و جنگی جنون بھڑکنے کے ساتھ ہی برٹش قیادت میں مغربی بلاک کی مداخلت کیلئے جواز پیدا کیا گیا۔کشمیر چونکہ سوئویت سرحدپر واقع تھا، اس پر قابض ہوجانے کی صورت میں روس کو بھارت، پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں اپنا دائرہ اثربڑھانے کا موقع مل سکتا تھالیکن مغربی بلاک ایسا ہرگز نہیں ہونے دیتا، اس وجہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے بیچوں بیچ تقسیم کی لکیر کھینچی گئی۔روس گلگت کے راستے سے ہی اپنے ہدف کراچی کی بندرگاہ تک پہنچ سکتا تھا۔ اس وجہ سے گلگت کو پاکستان کے قبضے میں رکھا گیا کیونکہ بھارت کی جانب سے کبھی بھی روس حامی تبدیلی پیدا کی جاسکتی تھی۔تب سے دونوں اطراف سے کشمیر کے سینے پر مونگ دلنے کا عمل جاری ہے اور اب بھارت اور پاکستان دونوں کی نیوکلر حیثیت کو دیکھتے ہوئے معاملات اور بھی زیادہ سنگین بنائے گئے ہیں۔بوسٹن یونیورسٹی کے ڈین عادل نجم کا کہنا ہے کہ برصغیر کے نامکمل بٹوارے نے بھارت اور پاکستان کو جموں کشمیر کے حوالے سے مسلسل تصادم میں اُلجھائے رکھا ہے۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ یہ دونوں ممالک خود بھی لہو لہان ہیں۔۱۹۴۷ء میں کشمیر کے مستقبل کو سنوارنے کیلئے کچھ مزید وقت تک کوششیں جا ری رہنے دی جاتیں تو کشمیر سرحد کے دونوں اطراف نصب ٹک ٹک کرتے نیوکلیئر بم تمام تر دنیا کے سکون کو درہم برہم کرنے کیلئے وارننگ نہ دیتے رہتے۔ آج ہمارے پاس اس طرح کے خطرات کو ٹالنے سے متعلق سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے۔
خاتمہ ٔ کلام:۔ایم اشرف نے اپنے مضمون کی آخری سطور میں حیرت کا اظہار کیا ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں ممالک کے عوام برٹش انڈیا کی تقسیم سے متعلق ’’وائس رائے‘‘ فلم کی اس کہانی کے بارے میں ابھی تک بھی سراسر انجان ہیں یا پھر اس فلم کو خالص فلمی انداز میں لیا گیا ہے۔ مضمون میں اور بھی کچھ باتیں درج ہیں، طوالت کے سبب حوالہ دینا ممکن نہیں تھا۔تاہم اوپر درج متن میں بٹوارہ کے اصل ذمہ دارین کی نشان دہی ہوئی ہے۔ہم ایسا بھی کہہ سکتے ہیں کہ گاندھی، نہرواور جناح سمیت برصغیر کے تمام لیڈران تقسیم کے اصل محرکین اور اُن کے بنیادی مقاصد سے بے خبر تھے ۔ مولینا آزاد بٹوارہ کو روکنے کیلئے کافی تگ و دو کرتے رہے، جیسے اس کو روکنا گاندھی یا محمد علی جناح کے ہی ہاتھوں میں تھا۔ فلم کے حساب سے وہ سب کے سب انجانے میں چرچل اینڈ پارٹی کے اشاروں پر ناچ رہے تھے۔ یوں تو برطانوی لیڈروں نے ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان خون خرابہ روکنے کیلئے بٹوارہ کو واحد صورت قرار دیا تھا اور وائس رائے لارڈ موؤنٹ بیٹن سے ۳ ؍جون کو رسمی طور اس کا اعلان بھی کروایا تھا لیکن جب بٹوارے کو عملی صورت ملی تو ایک اندازے کے مطابق برٹش انڈیا میں رہائش پذیر ۲۰؍ لاکھ لوگوں کو اپنی جانیں گنوانا پڑی تھیں۔برطانوی بٹوارہ کے اس منصوبے کے بال و پر دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے ساتھ ہی سجانا شروع کیا گیا تھا اور اس پر برس ہا برس تک کام ہوتا رہا ،لیکن محرکین نے اس پر عمل در آمد کرنے کیلئے اپنے کرداروں کو انتہائی قلیل وقت دیا تھا۔ یہاں تک کہ عمل درآمد کرنے والے موؤنٹ بیٹن اور ریڈکلف جیسے اہم اداکاروں کو بھی منصوبے کی تفصیلات سے آخری گھڑیوںپر مطلع کیا گیا تھا۔جیسا کہ تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے، جموں کشمیر ریاست کی تقسیم کو بھی اسی منصوبے کا ایک حصہ بنایا گیا تھا اور اس طرح سے مسئلہ کشمیر کی پیدائش کے حوالے سے بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام اب تک کی تمام تر اٹکلیں اور تجزیئے محض ہوائی قلعے ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے لئے جو افراد، انجمن یا ایجنسیاں اب تک ذمہ دار ٹھہرائے جاتی رہی ہیں،اب اصل محرکات سامنے آنے کے بعد اس طرح کی سوچ اور الزامات وجوابی ا لزمات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے ۔
(ختم شد)