برطانوی عوام کا غیر ذمہ دارانہ رویہ

کرونا کی وبا سے مقابلہ کرنے کے لیے مختلف ممالک نے مختلف طریقۂ کار اور حکمتِ عملیاں روا کیں اور ان اقدامات کو عوامی کی حمایت بھی حاصل رہی۔تاہم ، برطانیہ میں صورتِ حال اس سے بالکل مختلف رہی ہے۔وہاںعوام اور سیاست داںدونوں ہی حکومت کے خلاف لام بندنظر آئے ہیں۔مجموعی طور پربرطانوی شہریوں کوبہت زیادہ باشعور اور قوانین کا پابند ماناجاتاہے لیکن موجودہ صورتِ حال میںان کی یہ شبیہ بہت حد تک خراب ہوئی ہے۔ 
اس ہفتہ کے اوائل میں برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کوHouse of Commons میں اپنی ہی پارٹی کے ارکان سے بغاوت کا سامنا کرنا پڑا ۔ان کی پارٹی کے بعض ارکان نے نئے سے رخی کرونا سسٹم کے حق میں ووٹ دینے سے انکار کردیا جو برطانیہ میں 3دسمبر سے قومی لاک ڈاؤن کی جگہ لینے والا تھا۔تجاویز کوکنزر ویٹیو پارٹی میں ناراضگی کے باوجود توقعات کے مطابق منظوری مل  گئی ۔لیبر پارٹی کے ارکان پارٹی کی ہدایت کے مطابق رائے دہی سے غیر حاضر رہے جملہ291ارکان پارلیمنٹ نے نئے قواعد کے حق میں اور78نے خلاف میں ووٹ دیا۔بر سر اقتدار پارٹی کے 55ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا جوکہ عام انتخابات کے بعد سے بورس جانسن کے لئے ایک بڑی بغاوت تصور کی جارہی ہے۔اس سے قبل  10بجے کے کرفیو کی 44ارکان نے مخالفت کی تھی۔
بغاوت کی وجہ
وہ مسئلہ جو بغاوت کا سبب بنا ہے وہ کنزرویٹیو پارٹی کے بنیادی اصولوں یعنی کہ  آزادی اور معیشت کی صحت کے لئے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔اصل لڑائی معیشت کے مسئلہ پر ہے جس کے تئیں لوگوں کو کرسمس کی شاپنگ اورکسی پابندی کے بغیر ان کو ریسٹورینٹس اور پبس میں پرسکون لمحات گذارنے کی اجازت دینا ہے۔جانسن کے منصوبہ کے تحت2دسمبر کو قومی لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد بھی برطانیہ کا ایک بڑا حصہ ہنوز سخت قواعد کے تحت رکھا جائے گا۔برطانیہ بھر میں لوگوں کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا یہی نہیں ان ریسٹورینٹس اور پبس کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا جو پہلے سے لاک ڈاؤن ‘اور سماجی اختلاط سے متعلق قواعد کے منفی اثرات برداشت کررہے ہیں۔
زیادہ تر برطانوی شہریوں کا ماننا ہے کہ حکومت شاپنگ اور ہوٹلس میں جانے پر ‘دوستوں اور رشتہ داروں سے ملاقات پر سخت پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان کی آزادی کے حق کو دبانے کی کوشش کررہی ہے۔ایک سینئر کنزرویٹیو ایم پی گراہم براڈی نے منگل کوHouse of Commons  میں کہا کہ ’’آزادی اگر مکمل بھی نہ دی گئی تو کم سے کم اس کو قیمتی سمجھنا چاہئے۔‘‘انھوں نے کہا ’’اگر حکومت عوام کی بنیادی آزادی ہی چھین لے جن کی ہم نمائندگی کرتے ہیں انھیں سوال سے بالاتر ہوکر مظاہرہ کرنا چاہئے کہ وہ یہ کام متناسب طریقہ سے ضرورت کے مطابق کررہے ہیں‘‘۔جانسن کی موجودگی میں انھوں نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ حکومت اس معا ملہ میں معقول جواز پیدا کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔
وزیر اعظم نے قبل ازیں اپنی پارٹی کے ارکان سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے جذبات پر قابو پائیں اور اس وقت تک پابندیوں کی تائیدکریں جب تک ویکسین وسیع طور پر دستیاب نہیں ہوجاتی ہے۔انھوں نے کہا’’ہم سب کو اس وقت ہمارے جذبات کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے جب تک ویکسین ہمیں دستیاب نہیں ہوگی اور جب تک یہ ہماری رگوں میں دوڑنا شروع نہیں کردیتی۔‘‘
ارکان پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ سہ رخی پابندیاں بہت سخت ہیں اوراس سے معیشت کے تباہ ہونے کا خطرہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی شکایت کی کہ وہ علاقے جہاں متاثرین کی تعداد کم ہے  وہاں سخت پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ جہاں وائرس پھیل رہا ہے ان علاقوں میں کچھ پابندیاں نافذ کی جاسکتی ہیں۔ کوویڈ19- کے نئے قواعد پر کلیدی رائے دہی سے قبل پارلیمنٹ میں بحث کے دوران ارکان پارلیمان نے اس بات پر زور دیاکہ پابندیوں کا معیشت ، تعلیم ، ذہنی صحت پر مزید منفی اثر پڑے گا۔ بورس جانسن کے ایک ساتھی نے کہا وہاں وار کرنے کی ضرورت ہے جہاں اثر ہو۔ اس ہفتہ بحران کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
رائے دہی پر لیبر پارٹی کا موقف : 
دلچسپ بات یہ ہے کہ رائے دہی پر اپوزیشن لیبر پارٹی میں متضاد رائے دیکھی گئی ۔ لیبر کے 15 ارکان پارلیمنٹ نے جیرمی کوربن کی قیادت میں پارٹی وہپ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تجاویز کے خلاف ووٹ دیا۔ چند ارکان نے زیرو کوویڈ حکمت عملی کی بنیاد پر اور دوسروں نے مالیاتی امداد کی کمی کی وجہ سے ووٹ دیا۔ 
لیبر پارٹی کے صدر کیر اسٹارمر نے بحث کے دوران اپنی تقریر میں کہا کہ وزیراعظم یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ پابندیاں طویل مدت کے لئے نہیں ہوں گی جب کہ وہ جانتے ہیں کہ سخت پابندیوں کی ضرورت اس وقت تک ہے جب تک کہ ٹیکہ دستیاب نہیں ہوجاتا اور اس کے لئے کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ لیبر لیڈر نے کہا ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پابندیاں جاری رکھنے کی ضرورت ہے لیکن آج ان پابندیوں کے خلاف ووٹ دینا قوم کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ اس لئے ہم قواعد کو منظور نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پرائم منسٹر کو آخری چار ہفتے معاملات کو درست کرنے میں صرف کرنا چاہئے تھے اور ان لوگوں کی مدد کرنا چاہئے تھی جنہیں یکا و تنہا رکھنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کو ہمارے عظیم شہروں اور قصبوں کے لئے معاشی Packges تیار کرنا چاہئے تھے۔ ملازمتوں کا تحفظ کرنا چاہئے تھا۔لوگوں کی آمدنی میں اضافہ کرتے ہوئے عوام کا اعتماد بحال کرناچاہئے تھا۔ بجائے اس کے ہم دیکھ رہے ہیں کہ وزیراعظم اپنے ساتھیوں اور قومی مفادات کے درمیان پھنس گئے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ یہ قواعد کام نہیں کریں گے۔
پابندیوں پر عوامی ردعمل 
برطانوی عوام اور سیاست دانوں دونوں کا ردعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ دیگر ملکوں کے برخلاف برطانوی اپنی عام زندگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں کوویڈ کے خطرہ سے زیادہ پریشانی نہیں ہے سوائے ان کے جو اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ برطانوی عوام ہندوستانیوں کے برخلاف پیسہ اور تفریح چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی  اپنے تہواروں کو پابندی کے ماحول میں منانا پسند نہیں کرتے۔ اگرچہ کہ برطانیہ کے مسلمانوں نے اپنی دو عیدیں پابندیوں میں منائی ہیں لیکن برطانوی عوام کرسمس کا تہوار کھلے اور آزادانہ ماحول میں منانا چاہتی ہے۔ ایک طرف برطانوی ابتر معاشی حالت سے پریشان ہیں لیکن وہ نہیں چاہتے کہ حکومت کوویڈ کے احتیاطی اقدامات پر انہیں پابند بنائے۔ اس کے علاوہ وہ حکومت پر خاطرخواہ معاشی Packages فراہم نہ کرنے کا بھی الزام عائد کررہے ہیں۔ اگرچہ بورس جانسن کے اقدامات عوام کی صحت اور جانوں سے تحفظ کے لئے ہے لیکن برطانوی باشندوں کی اکثریت ان کی بات پر توجہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ 
عوام کی نقل و حرکت پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے فیصلوں کے درمیان اس بات پر بھی بحث ہورہی ہے کہ کیا وبا سے نمٹنے کے لئے سرکاری اقدامات پر ہونے والے خرچ سے نمٹنے کے لئے ٹیکسوں میں اضافہ کیاجائے یا اخراجات میں کمی کی جائے۔ قرض کے حصول میں پہلے ہی اضافہ ہوگیا ہے اور یہ تقریباً 400 بلین پاونڈ   537) بلین ڈالر) تک پہنچ گیا ہے۔ جانسن کے لئے خطرہ یہ ہے کہ جن ارکان پارلیمنٹ نے ان کی تجاویز کی مخالفت کرتے ہوئے علم بغاوت بلند کیا ہے وہ آگے بھی ایسا کرسکتے ہیں اوران کے منصوبوں کو شکست دے سکتے ہیں۔ اس بغاوت نے بورس جانسن کو جہاں پریشان کیا ہے وہیں آنے والے دنوں میں دیگر پارلیمانی لڑائیوں خاص طور سے یوروپی یونین سے برطانیہ کی بریگزٹ علیحدگی کے عمل پر بھی اپنا اثر ڈال سکتی ہے۔ 
مجموعی طور پر برطانوی عوام نے اپنے ردِ عمل سے اپنی شبیہ کو جس طریقے سے خراب کیا ہے اسے ٹھیک کرنے میں انھیں کافی عرصہ لگ سکتا ہے۔ 
(کالم نگاردہلی میں مقیم ہیں، اس سے پہلے وہ بی بی سی اردو اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
ای میل۔ [email protected]