برصغیر کی نامور ادبی شخصیت پروفیسر حامدی کشمیری فوت

سرینگر//برصغیر کے نامور نظریہ ساز نقاد ،کہنہ مشق شاعر ،بلند قامت فکشن نگار اور ہردلعزیز شخصیت پروفیسرحامدی کاشمیر ی 26دسمبر رات پونے دس بجے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ مرحوم کی نماز جنازہ بعد نماز عصر ادا کی گئی جس میں شہر کی علمی وادبی شخصیات  نے شرکت کی ۔مرحوم کی اجتماعی فاتحہ خوانی بروز اتوار دن کے ۱۱ بجے ہوگی ۔پروفیسر حامدی کی وفات پر مختلف سیاسی ،سماجی و ادبی شخصیات و انجمنوں نے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی وفات کو ایک ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔پروفیسر حامدی کی وفات پر جن شخصیات نے تعزیت کااظہار کیا ہے ان میں گورنر کے مشیر خورشید گنائی ،نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اورنائب صدر عمرعبداللہ،پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی اور کانگریس کے سینئر لیڈر پروفیسر سیف الدین سوزکے علاوہ کشمیر کلچرل کانفرنس کے صدر غلام نبی خیال،مہجور فاونڈیشن کے صدر پیرزادہ ابدال مہجور شامل ہیں۔گورنر کے مشیر خورشید گنائی نے کشمیر یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر حامدی کشمیری کے انتقال پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے سوگوار خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے مرحوم کی جنت نشینی کیلئے دعا کی ہے۔ نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نائب صدر عمر عبداللہ نے مرحوم کے سوگوارخاندان کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اہل کشمیر ایک بے لوث اور پُرخلوص علمی شخصیت سے محروم ہوئی ہے۔ پارٹی جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفی کمال، صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، سینئر لیڈران عبدالرحیم راتھر، محمد شفیع اوڑی، شریف الدین شارق اور محمد یوسف ٹینگ نے بھی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی اور پارٹی کے سینئر لیڈر نعیم اخترنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم نے علمی میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔کانگریس کے سینئر لیڈر پروفیسر سیف ادین سوز نے ذاتی صدمہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹر حامدی نے ملک میں بحیثیت اُردو ادیب اور شاعر اپنی بڑی پہچان بنائی تھی اور وہ ادباء اور شعراء میںممتاز درجہ رکھتے تھے۔کشمیر کلچرل کانفرنس کے صدر غلام نبی خیال نے حامدی صاحب کے انتقال پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے اور یہاں کے اُردو ادیبوں سے مطالبہ کیا ہے کہ حامدی صاحب کے نام پر ایک اردو ٹرسٹ قائم کیا جائے۔ مہجور فاؤنڈیشن کے ارکان کا ایک ماتمی اجلاس فاؤنڈیشن کے صدر پیرزادہ ابدال مہجور کی صدارت میں صدر دفتر واقع راجباغ میں منعقد ہوا۔اِجلاس میں ارکانِ مجلس نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے دعا کی۔محفل بہار ادب شاہورہ پلوامہ کے صدر حمید اللہ میر نے حامدی کشمیری کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔پیپلز پولٹیکل فرنٹ کے سرپرست اعلیٰ فضل الحق قریشی اور چیئرمین محمد مصدق عادل نے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین سے تعزیت کااظہارکرتے ہوئے مرحوم کی جنت نشینی کی دعا کی ہے۔  اردو اکادمی ضلع بانڈی پورہ نے لواحقین کیلئے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔اکادمی کے ضلع صدر بانڈی پورہ طارق شبنم نے ان کی خدمات کو  یاد کرتے ہوئے انکے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کااظہار کیا ہے۔

پروفیسر حامدی علم وادب کاایک مرکز 

سرینگر// حبیب اللہ بٹ المعروف حامدی کاشمیری 29جنوری 1932 ء میں بہوری کدل ،بازار مسجد ،سری نگر میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم ایم پی ہائی سکول سری نگر سے حاصل کی ۔بی اے آنرس ( فارسی ) 1952 ء میں سری پرتاپ کالج سری نگر سے کیا ۔بعد میں ایم اے انگریزی(1954) کشمیر یونیورسٹی سے اور ایم اے اردو (1958) پنجاب یونیورسٹی سے کیا ۔1966ء میں ’’ جدید اردو نظم اور یورپی اثرات ‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کشمیر یونیورسٹی سے حاصل کی ۔حامدی کاشمیری نے ملازمت کا آغاز بحیثیت لیکچرر(1954) ایس پی کالج سے شروع کیا ۔پھر باضابطہ طور شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی میں 1961ء میں بحیثیت اردو لیکچرر تعینات ہوئے ۔ترقی کے زینے طے کرتے ہوئے 1979سے 1990تک شعبہ اردو کی باگ ڈور بحیثیت صدر سنبھالی ۔پھر 1990ء سے 1993تک کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے ۔ساتھ ہی 1998ء سے 2000 تک شیخ العالم چیٗر کے چیرمین بھی رہے ۔حامدی کاشمیری برصغیرکے نامور ادبیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ان کی تصانیف کی تعدا دپچاس سے زائد ہے ۔تنقیدی نوعیت کی کتابوں میں دلسوز کشمیری ( 1955)،مقبول شاہ کرالہ واری ( 1960)،غالب کے سرچشمے ( 1962)،جدید اردو نظم پر یورپی اثرات( 1968)،اقبال اور غالب( 1971)،نئی حسیت اور عصری شاعری ( 1974)،ناصرکاظمی کی شاعری ( 1982)،کارگہہ شیشہ گری ( 1982)،جدید کاشر شاعری( 1983) ،حرف زار،اقبال کا مطالعہ(1983)،امکانات(1987)،انتخاب غزلیات میر (1988)،تفہیم و تنقید(1988)،جدید شعری منظرنامہ (1990)،ریاست جموں وکشمیر میں اردو ادب (1991)،انتخاب کلام میر(1992)،منتخب تنقیدی مقالات (1992)،آئینہ ادراک ،اقبال کا مطالعہ(1994)،شیخ العالم : حیات اور شاعری (1997)،اکتشافی تنقید کی شعریات (1999)،اقبال کا تخلیقی شعور(2001)،تجربہ اور معنی (2003)،غالب،جہان دیگر (2003)،اردو نظم کی دریافت(2004)،کاشر شاعری ہند انتخاب (2006)،افسانہ ؍ تجربہ (2006)قابل ذکر ہیں ۔ساتھ ہی مرحوم کے دس شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔جن میں عروس تمنا(1961)،نایافت(1976)،لاحرف(1984)،شاخ زعفران (1991)،وادی امکان (2000)،نارس اتھ واس (1999)،خواب رواں (2003)،یتھ میانی جوئے (2003)،یک شہر گماں (2005)، آواز واژی نو (2007) قابل  ذکر ہیں ۔اردو فکشن میں بھی موحوم نے چار افسانوی مجموعے وادی کے پھول (1957)،سراب ( 1959)،برف میں آگ(1961)،شہر افسوں ) 2009) اور چار ناول  بہاروں کے شعلے (1956)،پگھلتے خواب (1957)،اجنبی راستے (1958)،بلندیو ں کے خواب (1961)،پرچھائیوں کاشہر (1962) تحریر کئے ہیں ۔