ڈاکٹر عریف جامعی
رب تعالیٰ نے انسان کو حس جمالیات کے ساتھ پیدا کرکے خوبصورتی کا دلدادہ بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنکھ کھلنے کے ساتھ ہی انسان فطرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہونا شروع ہوتا ہے اور آنکھ لگنے تک یہ ان نظاروں سے محظوظ ہوتا رہتا ہے۔ یعنی حیات انسانی انہی نظاہر کے ذریعے اپنی آب و تاب برقرار رکھتی ہے۔ انسان ان نظائر سے لطف اندوز ہونا بند کرے تو حیات انسانی کا سارا لطف جاتا رہے گا۔ نظائر کا یہی مشاہدہ انسان کو زندگی سے غیر متعلق نہیں ہونے دیتا اور اسی سے انسان رب تعالیٰ کی تخلیق پر غوروفکر کا حوصلہ پاتا ہے۔ غوروفکر کے ذریعے سے معرض وجود میں آنے والی اختراعات سے انسان زندگی کے لئے مزید وسائل فراہم کرتا ہے، جس سے زندگی کا سفر خوب سے خوب تر کی جانب جاری رہتا ہے۔
انسانی زندگی کو خوبصورت بنانے والے ان نظائر میں سے چاند بالعموم جبکہ چودھویں کا چاند (بدر منیر) بالخصوص بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ظاہر ہے کہ چاند کی چاندنی نے انسانی نفسیات کو ہمیشہ متاثر کیا ہے۔ یہی وجہ کہ مختلف تہذیبوں نے چاند سے متعلق مختلف اساطیر وضع کیے اور اسے دیوتا یا دیوی بھی بنا ڈالا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ کئی دوسری اشیاء کو چاند کے متبادل کے طور پر سامنے لایا گیا۔ مثال کے طور پر یونانی اساطیر میں سیلین کو چاند کی دیوی مانا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ سیلین کے دو بچے، ہیلیوس اور ایوس تھے، جن میں سے اولالذکر آفتاب کا دیوتا جبکہ آخرالذکر کو فجر کی دیوی مانا گیا۔ ہندو اساطیر میں چندرا (لغوی طور پر چمکیلا یا چاند) کو چاند کا دیوتا مانا جاتا ہے۔ اسے سنسکرت میں سوما بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ہندومت کے نو سیاروں (نوگراہا) میں سے ایک ہے جسے محبت، تنہائی، دوستی، خوشگوار راتوں اور مصاحبت سے منسلک سمجھا جاتا ہے۔ سمیریائی تہذیب، جہاں کے کلدانی شہر ’’ار‘‘ میں سیدنا ابراہیمؑ پیدا ہوئے، میں چاند کو ’’ننا‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔تاہم اسلام نے روز اول سے مناظر اور عجائب فطرت کو ٹھیک اپنی جگہ پر رکھا اور بحیثیت مخلوق ان کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا۔ ظاہر ہے کہ اس اسکیم میں مخلوق کی الوہیت کا کوئی تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہاں پر توہم پرستی کے لئے کوئی گنجائش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابراہیمؑ نے اس تصور کو رد کیا کہ چاند کے اندر کسی بھی صورت میں الوہیت یا ربوبیت کا کوئی شائبہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے اس طرح قوم کے اس باطل خیال کی تردید کی کہ چاند بجز مخلوق ہونے کے کچھ اور ہوسکتا ہے: ’’پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا، تو کہا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غائب ہو گیا، تو کہا اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرے گا تو میں ضرور گمراہوں میں سے ہوجاؤں گا۔‘‘ (الانعام، ۷۷) تاہم چاند یا ہلال کے گھٹنے اور بڑھنے کی اہمیت کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے: ’’وہ تجھ سے نئے چاند (ہلال) کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجئے وہ لوگوں کے لئے اور حج کے لئے وقت معلوم کرنے کا ذریعہ ہے۔‘‘ (البقرہ، ۱۸۹)چاند کے مختلف منازل طے کرنےکو قرآن نے جمالیاتی اور ادبی انداز میں بیان کرکے انسان کو غوروفکر کی دعوت دی ہے: ’’اور چاند کی ہم نےمنزلیں مقرر کر رکھی ہیں، یہاں تک کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے۔‘‘ (یٰس، ۳۹) اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآن میں جہاں سورج اور چاند دونوں کی روشنی کا ذکر کیا گیا ہے، وہیں اس روشنی کے درمیان فرق بلکہ لطیف فرق کو ملحوظ رکھا گیا ہے: ’’بڑا برکت والا ہے وہ جس نے آسمان میں ستارے بنائے اور اس میں چراغ اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا۔‘‘ (الفرقان، ۶۱) یہاں کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سورج کی روشنی کی افادیت سے اگرچہ انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن انسان کے ذوق جمال کی تسکین کا جو سامان چاندنی کو دیکھنے میں ہے، وہ سورج کی تمازت بھری روشنی کو محسوس کرنے میں نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ چاند کو ادب میں سکوت اور سکون کے استعارے کے طور پر بھی پیش کیا جاتا رہا ہے۔ چاند کی یہ حیثیت طبقۂ عوام اور خواص دونوں کے لئے یکساں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جب عام فرد تھک ہار کر شام کو گھر پہنچتا ہے تو وہ چمکتے چاند کو شوق کے ساتھ دیکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ چاند اس کے لئے سکون کا سامان کرتا ہے۔ دراصل یہ محنت کش اسی نور میں اپنی راہوں کو منور کرنے کی تدبیریں سوچتا ہے۔ عالم فاضل انسان بھی چاندنی میں منہمک ہوکر اپنے دل و دماغ کے دریچوں کو وا کرتا ہے اور اپنے تازہ خیالات کو سپرد قرطاس کرتا ہے۔ شاعر کے لئے بھی تنہائیوں میں نور بکھیرتا ہوا چاند ’’نوائے سروش‘‘ سننے کا حسین موقع پیدا کرتا ہے۔ فلسفی کے لئے تو چاندنی میں نہاتی ہوئی یہ شام تعقل اور تفکر کے لئے راہ ہموار کرتی ہے۔
چاندنی رات میں ریوڑ کی رکھوالی کرنے والے چرواہے کے سامنے جگالی کرتے ہوئے جانور اس کی آنکھوں کو کچھ اس طرح ٹھنڈک پہچاتے ہیں کہ وہ واقعی انہی کو اپنی محنت کا ثمر تصور کرتا ہے۔ ریگستان میں محو سفر ساربان کچھ اس طرح اونٹوں کو بغیر چھڑی کے اپنی سریلی آواز سے ہانکتا ہے کہ اس کی حدی خوانی کی ملائمت چاندنی سے مطابقت پیدا کرتی ہے۔ ندی کے کنارے شب فراق کاٹنے والا محب پانی سے منعکس ہونے والے بدر منیر کے عکس کو کچھ اس طرح دیکھتا ہے کہ جیسے اپنے محبوب سے ملاقی ہوا ہو۔ یعنی:
چاند بھی حیران دریا بھی پریشانی میں ہے
عکس کس کا ہے کہ اتنی روشنی پانی میں ہے
کشمیری ثقافت میں پچھلی صدی کی نوے کی دہائی تک خواتین چاندنی راتوں میں کچھ اس انداز میں ’’روف‘‘ گایا کرتی تھیں کہ پورے ماحول پر جیسے وجد طاری ہوتا تھا۔ محلے بھر کی خواتین ایک جگہ جمع ہوتی تھیں، جس سے ایک دلچسپ اور خوشگوار سماں بندھ جاتا تھا۔ واضح رہے کہ یہ ’’روف‘‘ چاندنی میں ہی، بغیر چراغاں کیے گایا جاتا تھا۔ اس ’’روف‘‘ میں رب تعالیٰ کی حمد بھی ہوتی تھی اور نبیؐ پر سلام بھی بھیجا جاتا تھا۔ اس میں والدین کے احسانات بھی گنائے جاتے تھے اور بزرگوں کی تعریف بھی کی جاتی تھی۔ یہ ’’روف‘‘ اس وقت روحانیت کی بلندیوں کو چھو جاتا تھا جب عید قریب آتے ہوئے خواتین یہ مشہور شعر گاتی تھیں:
عید آیہ رسہ رسہ، عید گاہ وسہ وآے
یمی اندء نبی صآب تمی اندء وسہ وآے
یعنی ’’عید آہستہ آہستہ نزدیک آرہی ہے، چلو عید گاہ چلیں۔ جس طرف نبیؐ ہیں، اسی طرف چلیں!‘‘
ظاہر ہے کہ چاندنی سے منور ماحول ایسے منزہ الفاظ سے معطر بھی ہوا کرتا تھا۔ اس سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ انسان کے جمالیاتی وجود کا مذہب اور عقیدت کے زیر سایہ معاشرتی سطح پر کس انداز میں ظہور ہوتا ہے۔ اس سے مذہبی تجربہ بے شک ایک حسین واردات بن جاتا ہے۔
’’نگاہ عشق مستی‘‘ میں بھی چاند کی حیثیت ہمیشہ مسلم رہی ہے۔ عاشق اور محب نے اکثر اپنے معشوق اور محبوب کو چودھویں کے چاند سے تشبیہ دی ہے۔ ظاہر ہے کہ عشق مجازی میں محبوب کو مطلقاً چاند کہا گیا ہے، جبکہ عشق حقیقی میں چاند سے مطلق تصور جمال اور نور کو محبوب کی تجلّی تصور کیا گیا۔ ’’چاند سا روشن چہرہ‘‘ میں شاعر محبوب کے رخ پری وش کو چاند کہتا ہے اور آگے اس عطیے پر خدا کی تعریف کرتا ہے۔ ’’میرے رشک قمر‘‘میں تو شاعر اپنے محبوب سے کچھ اس طرح مخاطب ہوتا ہے کہ اس پر چاند بھی رشک کرتا ہے۔ شب فراق میں بھی عاشق معشوق کو چاند تصور کرتا ہے اور اسی کے ذریعے اپنا سلام بھی بھیجتا ہے اور پیغام بھی۔ دراصل عاشق شب فراق کی اسی چاندنی کے جلو میں راہ عشق کی پرخار وادیوں کو طے کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی جستجو جاری رکھتا ہے اور اپنے وجود کو وفا کی کسوٹی میں پرکھ کر اپنی منزل مقصود کو پہنچنا چاہتا ہے۔ یعنی چاند کے مشاہدے میں مگن عاشق زمان و مکان کی تحدید کو پھلانگتا ہوا شب وصل تک چھلانگ لگانا چاہتا ہے۔
دنیائے فلسفہ میں شاہ ولی اللہ دہلوی نے جو شاہکار کتاب، ’’بدور البازغہ‘‘ (شان کے ساتھ ابھرتے چاند) کے نام سے تحریر کی ہے، اس کا موضوع اگرچہ مابعدالطبعیات ہے، لیکن اس میں فلسفے کی باریک قیاس آرائیاں نہیں پائی جاتیں۔ فلسفے سے آپ کی مراد وہ وجدانی انکشافات بھی نہیں ہے، جس کا اظہار صوفیاء کرتے رہتے ہیں۔ اس میں دراصل حصول علم و حکمت پر بات کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ حکمت انسانی ذہن کے افق پر چاند کی طرح نمودار ہوکر انسانی وجود کی علمی تشفی کا باعث بنتی ہے۔ اس لئے یہ نام نہایت ہی مناسب اور برجستہ ہے۔عام سطح پر بھی انسان چاند کو نور کا سرچشمہ تصور کرتا آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چاند سے خارج ہونے والے نور سے نہ صرف انسان کی راتیں مستنیر ہوتی آئی ہیں بلکہ کسی انسان کے قلب روشن کے اپنے ماحول پر چھوڑنے والے اثر کو چاندنی راتوں کی روشنی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ استاذ ذوق نے شاید اسی لئے کہا ہے:
زمین پر نور قمر کے گرنے سے صاف اظہار روشنی ہے
کہ ہیں جو روشن ضمیر ان کو فروغ ان کی فروتنی ہے
انبیائی تحریک تزکیہ میں نور کی اتنی اہمیت رہی ہے کہ ہدایت کے تمام صحیفوں کو نور سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رسالتمآب صلی اللہ لیہ وسلم نور افشانی کے اس سلسلے کی آخری کڑی ہیں، اس لئے آپؐ کو رب تعالیٰ نے ’’سراجاً منیرا‘‘ (الاحزاب، ۴۶) کا خطاب دیا۔ یعنی آپؐ نور ہدایت تقسیم کرنے (القاسم) تھے۔ اس ’’نور مجسم‘‘ کا ہجرت کے موقعے پر مدینہ منورہ کی معصوم بچیوں نے کچھ اس طرح استقبال کیا: ’’ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا ہے۔ ہم پر اللہ کا شکر واجب ہے، اس وقت تک جب تک پکارنے والا اللہ کو پکارتا رہے گا۔ اے وہ ذات جنہیں اللہ نے ہم میں مبعوث کیا ہے، آپ ایسا دین لے کر آئے ہیں جس کی اتباع کی جاتی ہے۔’’صحابئ رسول، سیدنا جابر بن سمرہ نے آپؐ کو بدر منیر سے زیادہ خوبصورت پایا: ’’میں نے رسول اللہؐ کو چاندنی رات میں سرخ لباس زیب تن کیے ہوئے دیکھا۔ میں کبھی آپ ؐکی طرف اور کبھی چودھویں کے چاند کی طرف دیکھتا اور میری نظر میں تو آپؐ چودھویں کے چاند سے زیادہ حسین تھے۔‘‘ (ترمذی)چونکہ مؤمن کے لئے دیدار الہٰی سب سے عظیم سعادت ہوگی، اس لئے صحابہ نے نبی کریمؐ سے اس بارے میں استفسار کیا۔ سیدنا ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ ’’کچھ لوگوں نے رسول اللہؐ سے عرض کیا: یا رسول اللہؐ: کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ تو آپؐ نے پوچھا: کیا چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں، یا رسول اللہؐ۔تو نبی کریمؐ نے فرمایا: پھر تم اللہ تعالی کو دیکھو گے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج سوگام میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ ۔: 9858471965
[email protected]
����������������