اشفاق سعید
سرینگر // جموں وکشمیر میں سالانہ اوسطاً 17فیصد بجلی کی مانگ میں اضافہ کے بیچ یہ بات سامنے آنے لگی ہے کہ متعلقہ کمپنیاں بجلی پروجیکٹوں کی تعمیر میں تاخیر سے کام لے رہی ہیں ۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر اور چناب ویلی میں 5بجلی پروجیکٹوں میں سے 2اہم منصوبوں کی تعمیر صرف کا غذات میں ہے جبکہ 3کا کام برسوں سے کچھوے کی چال کی مانند ہو رہا ہے جبکہ چناب ویلی پروجیکٹس پرائیوٹ لمیٹیڈ بھی گذشتہ پانچ برسوں سے ایک میگا واٹ بجلی میں بھی اضافہ نہیں کر سکا ہے۔محکمہ بجلی کے حکام صرف عام صارفین کی جیبیں نچوڑنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ ذرائع نے بتایا کہ یو ٹی سرکار نے جموں وکشمیرمیں 201میگاواٹ کے5بجلی پروجیکٹوں کی تعمیر کو مکمل کرنے کیلئے اگرچہ ڈیڈ لائنیں مقرر کی ہیں لیکن ان میں سے صرف 2پر کام چل رہا ہے, باقی پا ئورپروجیکٹوں کی تعمیر نہ صرف ٹینڈرنگ کے عمل میں پھنسی ہوئی ہے بلکہ کئی ایک کو شروع کرنے کیلئے سرکار کے پاس فنڈس بھی دستیاب نہیں ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ لوہر کلنائی ہائیڈرو الیکٹرک پاور پروجیکٹ، جوکشتواڑ ضلع میںہے، 48 میگاواٹ کی صلاحیت کامنصوبہ ہے جو دریائے چناب پر تیار کیا جا رہا ہے۔ سال 2013 میں ایک کمپنی کو ٹھیکہ دیئے جانے کے بعد 2017 تک مکمل ہونا تھالیکن اس میں تاخیر ہوئی اور بعد میں-23 2022 تک مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔لیکن کچھ سال کام چلنے کے بعد اس پرکام نامعلوم وجوہات کی بنا پر روک دیا گیا۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ابھی تک چار بار اس کی ٹینڈرنگ ہوئی، البتہ کام شروع نہیں ہو سکا اور اب اس کو مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن اگست2027رکھی گئی ہے۔93میگاواٹ گاندربل بجلی پروجیکٹ کی تعمیر بھی التوا کا شکار ہے اس پروجیکٹ کا سنگ بنیاد 2بار رکھا گیا ،نئے گاندربل ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی لاگت کا تخمینہ 800 کروڑ روپے سے زیادہ ہے اور اس کا اعلان 1996میں کیا گیا تھا۔ 93 میگاواٹ کے پروجیکٹ میں 31میگاواٹ کے تین یونٹ ہیں ۔ اس پروجیکٹ کی تعمیر کیلئے زمین حاصل کر کیسرکار نے مالکانہ حقوق بھی حاصل کئے ،نہروں کی تعمیر کیلئے سروے بھی ہوئی اور 2008اور 2009میں اس پر کام شروع کرنے کا منصوبہ بھی بنا لیکن کام شروع نہ ہو سکا۔سرکار کا دعویٰ ہے کہ اس کا کام بھی ٹینڈرنگ عمل سے باہرنہیں نکل رہا ہے جبکہ اس پروجیکٹ کو تعمیر کرنے کی ڈیڈ لائن اگست 2027مقرر کی گئی ہے۔قدیم پن بجلی پروجیکٹ مہورا11مئی 1886میں مہاراجہ نبیر سنگھ کے دور میں ہوئی۔ 1992میں پاورہاوس کی نہر کئی جگہوں پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی اور اس کے ساتھ ہی پاورہاوس کی اہمیت بھی ختم ہو گئی۔کئی بار حکام نے اس پروجیکٹ کو از سرنو تعمیر کرنے کا عمل شروع کیا گیا اور اس کی صلاحیت 10.5 میگاواٹ کرنے کے دعوے کئے گئے۔پروجیکٹ جنوری 2026تک مکمل کرنے کا اعلان کیا گیا لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا۔محکمہ بجلی کے حکام کا کہنا ہے کہ کرناہ میں12میگاواٹ بجلی پروجیکٹ پر کام زوروں سے جاری ہے جبکہ سرکار پہلگام میںقائم 2میگاواٹ بجلی پروجیکٹ کی صلاحیت کو بڑھانے کا کام جلد شروع کرے گی۔ مہورا پروجیکٹ ایک ہیریٹیج پروجیکٹ ہے جس پرکروڑوں کا خرچہ آئے گا اور سرکار دیکھ رہی ہے کہ اس کو کیسے شروع کیاجائے۔گزشتہ76برسوں میں جموں کشمیر کی حکومتوں نے اب تک کشمیر کے پانیوں سے صرف 254.1میگاواٹ بجلی پروجیکٹوں کی تعمیر مکمل کی ہے۔ کشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے جو بجلی پروجیکٹ وادی میں قائم ہیں وہ 254.1میگاواٹ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو کہ سرما میں بیکار ہو کر 50فیصد بجلی دینے کے قابل بھی نہیں رہ جاتے ہیں ۔کشمیر میں جو بجلی پروجیکٹ اس وقت قائم ہیں ان میںلوہر جہلم 105میگاواٹ ،اپرسندھ( فسٹ)22.6میگاواٹ ،گاندربل 15میگاواٹ ،اپرسندھ دوم 105میگاواٹ ،پہلگام 4.5میگاواٹ اور کرناہ 2میگاواٹ شامل ہیں۔ اسوقت جموں وکشمیر میں 12بجلی پروجیکٹ ہیں ،جن کی دیکھ ریکھ کاکام جموں وکشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ذمہ ہے۔ کشمیر میں سندھ ،جہلم اور ان کی معاون ندی نالوں پر قائم بجلی پروجیکٹوں کی کل صلاحیت 254.1 میگاواٹ ہے جبکہ نالہ چناب میں قائم چنینی ، بگلیار ، بھدرواہ اوردیگر بجلی پروجیکٹوں کی کل صلاحیت 934.3میگاواٹ ہے۔ راوی بیسن نالہ پر سیوا سیکنڈ کی صلاحیت 9میگاواٹ ہے اور اس طرح این ایچ پی سی کو چھوڑ کر جموں وکشمیر کے ان 12بجلی پروجیکٹوں سے کل 1137.68 میگاواٹ بجلی حاصل ہوتی ہے۔لیکن یہ منصوبے اکثر سردیوں کے موسم میںبجلی کی پیدوار کم دیتے ہیں۔جموں کشمیر میں 20,000 میگاواٹ پن بجلی پیدا کرنے کی وسیع صلاحیت کے باوجود صرف 3,263 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکی ہے ۔
جوائنٹ وینچر
چناب ویلی پروجیکٹس پرائیوٹ لمیٹیڈ بھی گذشتہ پانچ برسوں سے ایک میگا واٹ بجلی میں بھی اضافہ نہیں کر سکا ہے۔ ، پکل ڈول(1000میگاواٹ)، کیرو (624 میگاواٹ )، اور (کاور 540 میگاواٹ ) تعمیر کے مختلف مراحل میں ہے، جبکہ 930 میگاواٹ کیر تھائی (11) ہائیڈر والیکٹرک پاور پروجیکٹ کشتواڑ سروے اور تحقیق کے مرحلے میں ہے۔