جموںوکشمیر یونین ٹریٹری کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کا کہنا ہے کہ یوٹی حکومت کو سالانہ6ہزار کروڑ روپے کی بجلی خریدنا پڑرہی ہے اور اس کے عوض حکومت کو صرف 2600کروڑ روپے کی ہی آمدنی حاصل ہوتی ہے اور یوں محکمہ کو سالانہ 3400کروڑ روپے کے خسارے سے دوچار ہونا پڑرہا ہے ۔ان کا کہناتھا کہ یہ نقصانات بجلی کے ترسیلی اور رتقسیم کاری شعبوں میں موجود نقائص کی وجہ سے ہورہے ہیں کیونکہ گزشتہ سات دہائیوں میں ان شعبوں کی مضبوطی اور بجلی کے حصول کی صلاحیت بڑھانے کیلئے کچھ زیادہ نہیں کیاگیا تھا تاہم اب گزشتہ ڈیڑھ برسوں سے حکومت نے اس ضمن میں بہت کام کیا ہے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی کے تحت سمارٹ میٹروں کی تنصیب عمل میںلائی جارہی ہے تاکہ ان نقصانات پر قابو پاکر صارفین کو ہمہ وقت بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے ۔اس ضمن میں ایل جی کا کہناتھا کہ جموںشہر کے 6603گھروں میں سمارٹ میٹر لگا ئے گئے ہیں اور انہیں آج سے چار بجلی فیڈروں سے معیاری بجلی فراہم کی جائے گی ۔
لیفٹیننٹ گورنرکا کہناتھا کہ کشمیرمیں بھی یہ نظام قائم کیاجائے گا جبکہ انہوںنے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ سمارٹ میٹر لگوائیں ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ میٹر لگانے سے بجلی کا منصفانہ استعمال کافی حد تک یقینی بنایا جاسکتا ہے اور لوگ میٹر لگانے کیلئے تیار بھی ہیں تاہم پوری انتظامی مشینری اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ میٹر لگوانے کے باوجود بھی صارفین کو بجلی مناسب انداز میں سپلائی نہیں کی جاتی ہے۔جموںوکشمیر میں جب میٹر لگانے کی مہم شروع کی گئی تو صارفین سے یہ وعدہ کیا گیا کہ میٹر یافتہ علاقوں میں بلا خلل بجلی سپلائی کی جائے گی تاہم زمینی صورتحال یہ ہے کہ میٹر یافتہ علاقوں میں لوڈ شیڈنگ معمول بن چکی ہے اور چند حساس علاقوں کو چھوڑ کر تمام میٹر یافتہ علاقوں میں بجلی کٹوتی کی جاتی ہے ۔
یہ صورتحال کا ایک پہلو ہے ۔دوسرا اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ جن علاقوں میں میٹر نصب کئے گئے ہیں ،وہاں یکطرفہ طور صارفین کو مطلع کئے بغیر لوڈ ایگریمنٹ میں اضافہ کیا جارہا ہے اور صارفین اُس وقت ششدر ہوکر رہ جاتے ہیں جب مہینے کے بعد بجلی بل ان کے گھر پہنچ جاتا ہے ۔ایک طرف حکومت بجلی کا منصفانہ استعمال یقینی بنانا چاہتی ہے تو دوسری جانب محض آمدن بڑھانے کیلئے صارفین کو بلی کابکرا بنایا جارہا ہے جو مہذب سماج میں کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہے ۔بجلی محکمہ کے حکام آئے روز بجلی چوری اور ہوکنگ کا بھی ذکرکررہے ہیں اورکہتے ہیںکہ بجلی چوری روکنے کیلئے محکمہ کے فیلڈ عملہ کا کلیدی رول بنتا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ بجلی محکمہ کی نجکاری کی جارہی ہے تاکہ اپنی کوتاہیوں کا نزلہ صارفین پر گرایا جاسکے ۔نجکاری کے منصوبے بناکر دراصل حکام دبے الفاظ میں اس بات کا اعتراف کررہے ہیںکہ بجلی چوری میں محکمہ کا فیلڈ عملہ برابر ملوث ہے ۔
حکام ِ بالاکو یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ بجلی کا منصفانہ استعمال اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک صارفین کو مناسب بجلی فراہم نہیں کی جاتی۔اس وقت بھی جہاں میٹر یافتہ علاقوں میں کئی کئی گھنٹوں کی کٹوتی کی جارہی ہے وہیںغیر میٹر یافتہ علاقوں میں بجلی کا خدا ہی حافظ ہے جہاں صارفین خال خال ہی بجلی کے درشن کرتے ہیںتاہم جب فیس وصول کرنے کی باری آتی ہے تو اُس وقت محکمہ اپنی کوتاہیوں کو خاطر میں لائے بغیر صارفین سے فیس وصولنے میں کسی بھی حد تک جاتا ہے۔اگر صارفین کو بجلی کی متواتر سپلائی یقینی بنائی جاتی ہے تو شاید ہی کوئی صارف فیس ادا کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرے اور نہ ہی کوئی صارف بجلی کی چوری میںملوث ہوگا۔
محکمہ بجلی کی آمدن بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنا اچھی بات ہے اور بجلی بجٹ کے خسارے کو دیکھتے ہوئے حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے تاہم جہاں صارفین سے فیس وصولی لازمی ہے وہیں محکمہ کو اپنی خامیوں دور کرنے پر بھی توجہ مرکوز کرنا ہوگی ۔اس وقت بھی بیشتر علاقوں میں بجلی کے ترسیلی نظام کا حال بے حال ہے اور مرکزی سکیموں کے تحت بجلی شعبہ کی بہتری کیلئے اربو ں روپے حاصل کرنے کے باوجود آج بھی بوسیدہ کھمبوں اور خاردار تاروں کو بجلی کی ترسیل کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ۔
محکمہ کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی محکمہ کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق 48فیصد بجلی ترسیل کے دوران ضائع ہوجاتی ہے ۔اس کے باوجود بھی اگر حکومت بجلی خسارے کیلئے صارفین کو ہی ذمہ دار ٹھہرائے تو بات بننے والی نہیں ہے بلکہ حکومت کو یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ بجلی بحران اور بجلی خسارہ کیلئے صارفین کم بلکہ محکمہ کی نااہلیاں زیادہ ذمہ دار ہیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ آنے والے وقت میں نہ صرف بجلی کا ترسیلی نظام بہتر ہوگا بلکہ صارفین کو بھی معیاری اور مناسب بجلی فراہم کی جائے گی جس کے طفیل محکمہ بجلی کی آمدن میں اضافہ فطری بات ہے ۔