باپ کا سایۂ عاطفت!

 
 والدین کا پیارو محبت ایک فطری تحفہ ہے۔ یہ فطرت کی کارسازی کا ہی مظاہرہ ہے کہ پیار محبت کی راہ میں حزنِ یعقوب ؑ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ ؐ نے آنکھوں کی بینائی اپنے فرزند پُر جمال حضرت یوسفؑ کے انتظار میں کھو دی مگر اُمید کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔ دنیا میں اولاد کے سر پر والدین کا ہونا سراپا رحمت ہے اور والدین میں سے کسی ایک کا نہ ہونا اولاد کے لئے زندگی کی بہاروں کو یکایک گل کردیتا ہے۔ ۔۔  میرے نصیبے میں بھی دُکھ اور غم کی یہ کہانی اس وقت آئی جب موسم خزا ںکی بے رونقیاں ٹال کر بہارکی رعنائیاں فضا کی حنابندی میں لگی تھیں اور انسان تو انسان طائران ِ فلک بھی پھر سے ایک نئی چہل پہل کے ساتھ محوپرواز تھے اوریہ کوتاہ نصیب عاجزہ بھی اپنی زندگی کے ایک نئے پہلومیں قدم رکھنے کی تیاریوں میں تھی، یکایک اپنے آپ کواُس شفیق و رفیق والد محترم کے سائے سے محروم پایا جس کا ہونا ہر بیٹی اور بیٹے کے لئے سونے پہ سہاگہ ہوتا ہے ۔خوش نصیب ہیں میری وہ بہنیں جنہیں اللہ نے اپنے ابو کی خدمت کا شرف عطاکیا ہے اور سلام ہو اُن والدین کو جو اپنی بچیوں کو دین و دُنیا کی تعلیم سے آباد کردیں اور اپنے لئے اپنی بچیوں کو نجاتِ آخرت کا ذریعہ بنادیں۔ اس عاجزہ نے اپنے شفیق والد کو ۴؍ سال قبل (۲۹؍ اپریل ۲۰۱۳ء) کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے دارِ آخرت کی طرف سفر کرتے دیکھ لیا ۔یوں میرے والد محترم اپنے کم سن عیال کو ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے گئے۔ ذکر کرنا بھی چاہوں تو خیال آتا ہے کس کس چیز کا ذکر کروں، اُن کی الفت و محبت کا، غم خواری کا، حُسن اخلاق کا، امانت و پاسداری کا، خدمت خلق کا، دینداری کا، نیک جذبات کا یا سب سے بڑھ کر محبت اِلٰہی اور خوف خدا کا ذکر لئے بیٹھوں۔ دنوں کے حساب سے ان کو ہم سے بچھڑے ۱۴۶۱؍ ایام گزر گئے مگر درد وغم ا یسا ہے کہ جیسے کل ہی وہ ابدی جدائی کا بار ہم پر ڈال کر ہم سے رخصت لے گئے ہوں ۔ جب سے ہم نے اپنی زندگی کے اس عظیم سرمائے کی پیشانی کوآخری مرتبہ بوسہ دے کر ہمیشہ کے لئے ان سے وداع لیا محسوس یوں ہوتا ہے کہ ابھی تو کچھ دن پہلے کی بات ہے جب ہم نے آخری بار ان کو دیکھاہو۔ ابھی تو اُن کی مسکراہٹوں کے مناظر آنکھوں سے جاتے نہیں ہے ، اُن کی دریا دِلی کی مثالیں توان کے جان کار لوگ اب بھی اپنی مجالس میں یاد دلاتے ہیں، کوئی دن نہیں گزرتا ، کوئی لمحہ نہیں بیت جاتا ،شاد مانی ہو یا حُزن وملال کی محفل ، ہمیں ہی نہیں بلکہ مر حوم ابو کے چاہنے والوں کو اپنے درمیان ہر وقت ان کی کمی کا احساس کو لاحق ہوتا ہے، چاہے وہ ان کی زندگی میں اُن سے  کتنے بھی کم متعارف رہے ہو ں مگراُن کی ایک جھلک بھی ایک ملاقات بھی ایک ایسی یادگار ہے کہ ہر وقت یہ احساس ستاتا ہے کہ کاش اُن سے اور مرتبہ ملاقاتیں ہوئی ہوتیں۔
سال ۲۰۱۷ء اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے مجھ عاجزہ کیلئے کچھ خوشیوں کا پیغام لے کر آیا ۔ زندگی کے اک نئے موڑ کی طرف رُخ کرنے کی امید جاگ گئی جو ہر ایک لڑکی کا خواب ہوتا ہے، بچپن سے ایک صالح مزاج لڑکی چاہتی ہے کہ وہ اپنے والدین کے لئے خوشیوں میں اضافے کا باعث بن کر اُن کے ہر فیصلے کو خوشی خوشی قبول کرکے زندگی میں آگے بڑھ جائے۔ کچھ یوں جب اس عاجزہ کی باری آئی تو جوخوشیاں پائیں ان میں ابو کی عدم موجودگی کا احسا س ڈس رہاہے، جو مسرتیں نکاح کی تیاریوں میں محسوس ہونی چاہئے وہ اس وجہ سے کہیں کہیں ادھوری لگ رہیں۔حالانکہ دنیا وی کے اعتبار سے ہر چیز بفضل تعالیٰ میسر ہے، ہر ضرورت ربِ کعبہ کے احسان سے پوری ہے مگر ایک گہرا غم جو اِن خوشیوں کی رونق کو کم کر رہا ہے، وہ ہے ابو کا سایہ سر پر نہ ہونے کا غم۔ میری امی کی میں کیا تعریف کروں ، وہ تو دنیا کی بہترین مائوں میں سے ایک ہیں ، کافی ہمت و بہادر، ذہین،  اخلاق خوبیاں اور و کردار کا زیور کی حامل، ہر وقت ابو بن کر ہمارا ساتھ دینے والی ہمدرد وغم گسار ۔ اپنے کم سن بھائیوں کی بات کروں تو صرف اتنا کہوں گی کہ اللہ رب العزت ان کی محبتوں اور قربتوں کا سایہ مجھ پر ہمیشہ دارز کر ے اور میری الفتوں کی متاع انہیں ہمیشہ ملتی رہے ،اللہ کے بعد ظاہری طور وہیں میری ہمت اور طاقت ہیں ، اُمید کرتی ہوں وہ دونوں پھول مثل ابو بن کر سماج میں اپنے والد کا نام روشن کریں ۔ صلوٰۃ و صوم کے پابند بنے رہیں ، رزق حلال پر قائم و دائم رہیں اور اپنی والدہ کے لئے اثاثہ ٔحیات بنیں۔ (آمین) ۔ والد کا سایہ سر پر نہ ہونا ہم سے بہتر کون جانتا ہے ،قریباً چار ماہ بعد (انشاء اللہ) ابو کی یہ بیٹی کی ان کے گھر آنگن سے رُخصتی ہوگی اور قلم یہ لکھنے سے قاصر ہے کہ اگر یہ منظر وہ دیکھتے تو ان قلب کس قدر مغموم اور آنکھیں کس قدر  سیال رواں کی درایں بنتیں۔ ایک دلہن کے لئے اپنے باپ کے ان انسوؤں اور سسکیوں مین محبت کی تازگی ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ بارگاہ ِ الہیٰہ میں بیٹی کے لئے دعاؤں کا نذرانہ  ہوتا ۔ کاش !ابو ہوتے تو یہ کیا منظر ہوتا اور کس طر ح بارگاہ ِ خداوندی میں یہ قیمتی لمحات  ثابت ہوتے!!! اللہ کے ہر فیصلے پر ابو ہمیشہ راضی ہوتے تھے اور میں بھی الحمد للہ ہر فیصلے سے راضی ہوں اور یہی مومنانہ شان ہے۔دراصل یہ سب پاب کی آغوش ِ محبت سے محروم ایک کم نصیب بیٹی کی جذباتی پکار ہے اور بیٹی بھی ایسی بیٹی جس کو ابو نے بڑے ناز وں سے پالا ،جو بیٹوں سے زیادہ اس کے قریب تھے، جس کے خواب ابو کے لئے بڑے انمول تھے اور وہ بیٹی جس کے لئے ابو کی ہر معمولی اشارہ حکم ہوتا ۔کاش! ہر ابو اپنے بچوں سے اور ہر بچہ اپنے والدین سے ایسا ہی رشتہ بنائے رکھے اور یہ بے لوث رشتہ تا حیات قائم رہے ۔ نیز تمام مسلم والدین کا شعور اتنا بیدار ہوجائے کہ وہ ہمیشہ اپنے بچوں کو بہترین اصول ہائے حیات سکھا ئیں جو ان کی وفات کے بعد بھی بچوں کی زندگی میں رونقیںبنیں رہیں۔
میرے مرحوم والد ماجد کی دلیرأنہ جرأت کے انداز ہی کچھ الگ تھے۔ اللہ کی رضا ان کا اصل مقصد حیات تھا۔سچ کہوں تو ابو جان اعلیٰ صفات کا نمونہ تھے۔آپ موحد تھے،شرک و بدعات سے آپ کے خمیر میں ہی گویا نفرت تھی ، آپ نے اپنے اہل خانہ کو بھی یہی بیش قیمت تعلیمات دیں اور یہی تعلیمات آپ سماج کو بھی دینا چاہتے تھے ۔ اس کام میں ان کو ید طولیٰ حاصل تھا۔ بہرحال ایک سرپرست کا سایہ جب آشیانے سے اُٹھ جاتا ہے اور خاص کر جب ایک بیٹی کے سر سے والد کا سایہ، اللہ کا فیصلہ  ماننے کے بغیر اور کوئی چارہ نہیں ہوتا مگریہ اس کنبے پر کتنا شاق گذرتا ہے، اس کی وضاحت الفاظ میں ناممکن ہے۔شاید میں اس دکھ اور ذہنی تعذیب کو الفاظ  کے قالب میںنہ ڈھال سکوں۔الحاصل ابو نے اپنی حیات ِمستعار میں اپنی زندگی کے اکثر فرائض  بحسن وخوبی انجام دئیجس کے لئے ان کے اہل خانہ تا حیات ان کے احسان مند ہیں اور اللہ سے دست بدعا ہیں کہ وہ انہیںا س کا اجر عظیم دے۔اگر وہ نہ ہوتے تو شاید ہم اصل انسان نہ بن پاتے،ان کے جانے کے بعد بھی ہم نے دنیا دیکھی،ہر وقت اللہ کی مدد شامل حال رہی مگر ان جیسا کوئی اور نہ پایا۔ان کے جانے سے زندگی میں جو خلا پیدا ہوگیاا وہ کبھی پورا نہ ہو پائے گا۔ ربِ کعبہ سے دعاہے کہ اللہ پاک مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور نبی برحق  ﷺکے ساتھ حوض کوثر کے سامنے ہم سب اہل خانہ کو جمع فرما کر سر نو اسی محبت بھرے ماحول میں رہنا سہنا نصیب فرمائے جو ہمارے ابو کا خاصا تھا(آمین)۔
عزیز سہیلیو! اپنے مرحوم والد کے بغیر ہماری یہ زندگی ادھوری ہے اور یہ ایک ایسا ادھورا پن یا خالی پن ہے کہ اگر ہم زندگی کے کسی بھی موڑ میں چلے جائیں یہ ادھورا پن کبھی پورا نہیں ہو سکتا اور نہ دنیا کا کوئی بھی فرداس کی جگہ ہمارے دل میں لے سکتا۔ میری پیاری بہنو! ہم تو اس نعمت سے محروم ہوئے مگر آپ میں سے جن کے بھی والدین زندہ ہیں اور آپ کے پاس موجود ہیں،اللہ ان کی عمر میں درازی عطا فرمائے،یقین مانئے یہ والدین بچوں کے لئے ایک ابدی نعمت اور مسرت کا اتھاہ خزانہ ہوتے ہیں ۔ ہیرے موتیوں کی کان جس کا کوئی مول نہیں ۔کوشش کریں کہ ان کی خدمت کریں،ان کو راضی کریں،امربالمعروف میں ان کی فرمانبرداری کریں اور خاص طور پر ان کے ایمان و عزت اور آخرت کی حفاظت کریں۔اُمید ہے آپ اس سہیلی، بہن،بیٹی کی بات کا مان رکھ لیں گی جس کے والد مرحوم نے حیاتِ مستعار کی آخری سانسیں،آخری لمحہ ٔحیات اپنی بیٹی کے سینے میں سر رکھ کر رب ذوالجلال کی پکار پر خوشی سے لبیک کہہ دیا۔اللہ پاک ابو جان اور قارئیں کرام کی اموات کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے،ا ن کے حسنات میںاضافہ اور سیات سے درگزر فرمائے، ان کو اپنے جوارِ رحمت میں اعلیٰ جگہ عنایت فرمائے اور پیغمبر اسلام محمد مصطفی ؐ کے شفاعت ودیدار سے انہیں سرفراز فرمائے اور ہمیں ان کے لئے توشہ ٔ  آخرت بننے کی توفیق عطا ہو ، ان کے اہل خانہ پر اپنا سایۂ رحمت قائم رکھے،رزق حلال میں وسعت اور مجھ ناچیز سے تا عمر دین ِ حق کا کام کر نے کی توفیق عنایت فرمائے جو اصل میں میرے مر حوم ابو کا خواب اور دلی آرزو تھی(آمین)
رابطہ :پرنسپل جامعہ اسلامیہ مہد المسلمات پرے پورہ، سرینگر