محمد تسکین
بانہال// حلقہ انتخاب بانہال میں سیاسی ہنگامہ آرائی اپنے عروج پر ہے اور سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر اور ورکر ووٹروں کو اپنی طرف لبھانے کیلئے سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ دس سال بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں جہاں عام لوگوں میں جوش و خروش پایا جارہا ہے، وہیں قصبہ بانہال سے ایک کلومیٹر اور جموں سرینگر قومی شاہراہ سے دو سو میٹر دور گوجر بستی شابن باس کے لوگ اپنے علاقے میں تعمیر و ترقی کے فقدان کی وجہ سے سراپا احتجاج ہیں اور سڑک اور پینے کے پانی کی عدم دستیابی کا شکار شابن باس اور وانی پورہ باس کی بستی کے کئی کنبے اس الیکشن میں احتجاجاً ووٹ نہ دینے کے حق میں نظر آ رہے ہیں۔ بانہال کا شابن باس بیشتر علاقہ گوجروں کی آبادی پر مشتمل ہے تاہم یہاں کشمیری کنبوں کی بھی ایک بڑی آبادی آباد وانی پورہ باس میں رہتی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ شاہراہ اور قصبہ بانہال کے قریب ترین ہونے کے باوجود زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور علاقے کو آنے والی رابطہ سڑک پر محکمہ تعمیرات عامہ کی طرف سے ساڑھے تین کروڑ روپئے کی رقم خرچ دکھانے کے باوجود مکمل ہی نہیں کی گئی ہے اور پچھلے پانچ، چھ سالوں سے اس سڑک کو یوں ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ تعمیرات عامہ کی لاپرواہی کی انتہا یہ کہ شاہراہ ہر واقع کھارپورہ سے شابن باس کے راستے گوجر بستی رتن باس کو جوڑنے کیلئے سڑک کے بیچ میں کھدائی اور دیواروں کا کام انجام دیا گیا ہے جبکہ سڑک کو کھارپورہ کے ٹیک آف پوائنٹ سے زمین داروں کے معاملات کی وجہ سے ابھی تک جوڑا ہی نہیں گیا ہے اور رقومات کو یوں ہی ضائع کیا گیا ہے۔ بنیادی سہولیات سے محروم گوجر بستی شابن باس اور اس کے منسلک وانی پورہ بستی سے تعلق رکھنے والے شاہزادہ بیگم، راشدہ بیگم، رخسانہ بیگم، نسار احمد وانی، سرور گوجر، مرتضیٰ گوجر، بہار احمد وغیرہ نے اپنا احتجاج درج کرتے ہوئے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ شابن باس کا علاقہ جموں سرینگر قومی شاہراہ پر واقع گاوں ہے لیکن ان کے گائوں میں ابھی تک چلنے کیلئے راستے نہیں ہیں ، پینے کا پانی دس پندرہ روز بعد نلکوں سے آتا ہے اور ڈیڑھ دہائی سے زیر تعمیر کھارپورہ، شابن باس، رتن باس سڑک ابھی تک مکمل ہی نہیں کی گئی ہے جبکہ اس پر ساڑھے تین کروڑ روپئے کی رقم بھی خرچ کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پینے کا پانی ایک چشمے سے لانے کیلئے بچوں اور خواتین کو کئی کلومیٹر دور شاہراہ کے پاس پانی لانے جانا ہڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شابن باس کے علاقے میں رسل و رسال کیلئے معقول رابطے نہ ہونے کی وجہ سے سکول کالج جانے والے بچوں کی حالت پہاڑی کو اتر اور چڑھ کر غیر ہوجاتی ہے اور اس روانہ کے معمول میں جنگلی جانوروں خاصکر ریچھ کا خطرہ بھی لگا رہتا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ سابقہ سرکاروں ، پنچایتی راج اور ڈی ڈی سی کونسل کی طرف سے اس علاقے میں کوئی ترقی نہیں کی گئی ہے اور لوگوں کی زندگی ملک کی آزادی کے 75 سال بعد بھی جون کی توں ہے۔ شابن باس اور وانی پورہ بستی سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد نے کہا کہ وہ اپنے جنم کے بعد سے اب تک مشکلات سے ہی دوچار ہیں اور یہ علاقہ تعمیر وترقی کے میدان میں فراموش کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سڑک رابطے ، چلنے کیلئے راستوں ،پینے کے پانی کی کمی کے علاوہ اس علاقے میں ہر گھر بیت الخلاء کا سرکاری دعویٰ غلط ثابت ہو رہا ہے اور آج بھی مرد و خواتین رفع حاجت کیلئے کھیتوں اور نالوں کا رخ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے پندرہ سالوں سے سڑک رابطے کے نہ بننے کی وجہ سے بیماروں اور دردذہ میں مبتلا خواتین کو اج کے جدید دور میں بھی چارپائی اور پیٹھ پر لادھ کر قومی شاہراہ پر پہنچایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہا کہ گوجروں کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے خواب صرف سرکاری کاغذوں میں دکھائے جاتے ہیں اور زمینی سطح پر حالات اس کے الٹ ہیں اور ضلع رام بن کے باقی علاقوں کی طرح شابن باس کی گوجر اور کشمیری بستی گونا گوں مشکلات سے دوچار ہے۔ شابن باس اور وانی پورہ کی خواتین کی ایک بڑی تعداد ہونے والے اسمبلی الیکشن کے بائیکاٹ کو لیکر پر عزم ہیں اور انہوں نے انتظامیہ ، مختلف سیاسی لیڈروں اور جماعتوں کے خلاف اپنے غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج بھی کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہر الیکشن پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے لوگ ووٹ مانگنے آتے ہیں اور بعد میں پانچ سال تک کوئی لیڈر اپنا چہرہ نہیں دکھاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی لیڈر اور سیاسی جماعتیں ان کے ووٹ کی قدر نہیں رکھتے ہیں اس لئے اس الیکشن کا بائیکاٹ ہی ان کیلئے بہتر رہے گا تاہم انہوں نے کہا کہ اگر کوئی لیڈر سڑک دینے کا یقین دلاتا ہے تو وہ اپنے فیصلے ہر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔
.