سرینگر//جموں کشمیرکے ندی نالوں سے ریت اور باجری نکالنے پر پابندی اوررائلٹی میں اضافے کے محکمہ جیالوجی اینڈ مائننگ کے حکم کی وجہ سے وادی میں ریت اور باجری بازار سے نابود ہوگئے ہیں جبکہ تعمیراتی پروجیکٹ بھی تعمیراتی مواد کی عدم دستیابی کی وجہ سے تاخیر کاشکار ہوسکتے ہیں ۔جے کے این ایس کے مطابق محکمہ جیالوجی اینڈ مائننگ کی طرف سے باجری اور ریت کی رائلٹی میں اضافے اور ٹرانسپوٹروں سے بھاری جرمانہ وصول کرنے کی وجہ سے تعمیراتی پروجیکٹوںپر کام سست رفتاری کا شکار ہوگیا ہے۔تعمیراتی محکموں کے انجینئروں کو بھی میٹریل کی عدم دستیابی کے نتیجے میں سخت مشکلات درپیش ہیں۔محکمہ آبپاشی کے ایک انجینئر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ زمینی سطح پر انہیں ہی کام کرنا ہے اور آئے دن ٹھیکیداروں کی طرف سے مسلسل یہ شکایات موصول ہو رہی ہیںکہ ُانہیں ریت اور باجری نہیں مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا’’ ڈیڈ لائن کی ننگی تلوار بھی ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے اور میٹریل کی عدم دستیابی اور ٹھیکیداروں کی شکایات کے نتیجے میں وہ مخمصے میں پڑ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فوری طور پر اس معاملے کو حل کیا جانا چاہیے۔تعمیرات عامہ کے ایک اعلیٰ انجینئر کا بھی کہنا تھا کہ وہ تذبذب کا شکار ہوگئے ہیں کیونکہ باجری اور ریت اب بازاروں سے غائب ہو رہی ہے۔ان کا کہنا تھا’’ اگر یہی صورتحال رہی تو عنقریب ہی پروجیکٹوں اور ترقیاتی کاموں پر کام بڑی حد تک متاثر ہوگا اور ڈیڈ لائن کو بھی پورا کرنے کا عمل کھٹائی میں پڑ سکتا ہے‘‘۔ریت اور باجری کی عدم دستیابی سے پریشان ٹھیکیداروں کا کہنا ہے کہ ان پر محکمہ جات کا دبائو ہے کہ کام کو معیاد بند مدت میں مکمل کیا جائے تاہم انتظامی حکم ناموں نے ہی کام کو التواء میں رکھا ہے۔تعمیراتی ٹھیکیداروں کے مشترکہ پلیٹ فارم سینٹرل کانٹریکٹرس کارڈی نیشن کمیٹی کے جنرل سیکریٹری فاروق احمد ڈار نے بتایا کہ سرینگر میں پہلے تو ریت اور باجری نابود ہوگئی ہے اور وہ نزدیکی اضلاع سے یہ میٹریل لاتے تھے،تاہم اب وہاں سے بھی یہ سپلائی بند ہو رہی ہے۔ڈار کا کہنا تھا کہ جن گاڑیوں کو پکڑا جاتا ہے ان پر40ہزار روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے،جس کے نتیجے میں ٹرانسپوٹروں نے ریت اور باجری کو ڈھونے کا عمل ہی بند کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بڑا طبقہ ا س صورتحال سے متاثر ہو رہا ہے،جس میں ٹرانسپورٹر،مزدور،ٹھیکیدار اور باجری و ریت نکالنے والے مزدور شامل ہیں۔ ڈار کا کہنا تھا کہ اب جہاں یہ میٹریل دستیاب ہے وہ اضافی قیمتوں پر مل رہا ہے اور باجری کی قیمت میں جہاں2ہزار روپے،وہیں ریت کی قیمت میں فی 200فٹ3ہزار روپے کا اضافہ ہوا،جبکہ ٹھیکیداروں کو ابھی2012کے شیڈول ریٹ سے کام ملتے ہیں۔انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر فوری طور پر اس معاملے کو حل نہیں کیا گیا،تو ٹھیکیدار کام بند کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔اس دوران وادی کے جنوب و شمال میں دریائوں اور آبی ذخائر سے ریت نکالنے والے لوگوں کی طرف سے احتجاج بھی جاری ہے ،جبکہ انکا کہنا ہے کہ متعلقہ محکمہ نے انہیں بے روزگار کردیا ہے۔
بازار میں ریت اور باجری نابود،ٹھیکیداراورانجینئرپریشان
