ریاستی محکمہ لبیر و ایمپلائمنٹ کی جانب سے سرینگر کے مختلف بازاروں کےلئے ہفتہ وار تعطیل کا کلینڈر جاری کئے جانے سے تاجر طبقہ زبردست پریشانی کا شکار ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے شہرکے مختلف بازاروں کی نمائندگی کرنے والی انجمن سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں۔حکومت نے 16نومبر2017کو ایک حکمنامہ جاری کرتے ہوئے دوکانوں اور اداروں سے متعلق قانون مجریہ1966کے سیکشنAاور A-1کا حوالہ دیتے ہوئے شہر کے مختلف علاقوں میں قائم بازاروں پر لازم قرار دیا ہے کہ جاری کردہ کلینڈر کے مطابق مقررہ ایام کے دوران کاروباری سرگرمیاں بند رکھیں۔ ظاہر بات ہے کہ ریاست میں یہ قانون موجود ہے اور اب تک عمومی طور پر ایتوار کا دن تعطیل کے لئے مقرر تھا، جس پر عام حالات میں عمل درآمد بھی ہوتا رہا ہے۔ تاہم گزشتہ 27برسوں کے دوران، جب سے ریاست کے اندر حالات بگڑ گئے اور تصادم آرائیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، زمینی سطح پر پرانا کلینڈر مؤثر نہیں رہا تھا اور نہ ہی سرکاری سطح پر اُسے سختی کے ساتھ لاگو کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ یقینی طور پر یہ نئے حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگی کا ایک سرکاری مزاج تھا، جس میں اس بات کا احساس ضرور اُجاگر تھا کہ حالات معمول کی ایک سطح پر نہ رہنے کی وجہ سے نہ صرف تاجر طبقہ بلکہ صارفین بھی متاثر ہوتے رہے ہیں۔ حالانکہ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ تعطیلات کے پرانے کلینڈر پر عدم عمل آوری کی وقت وقت پر حوصلہ افزائی بھی ہوتی رہی ہے، کیونکہ اس سے بعض اوقات طویل ہڑتالی پروگراموں کے اثرات سے نمٹنے میں سرکار کو مدد ملتی تھی ۔یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ2008سے جاری ایجی ٹیشنوں کے بہ سبب وادی میں خاصی طویل ہڑتالیں ایک معمول رہا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ مزاحمتی خیمے کے مختلف پروگراموں سے نمٹنے کےلئے سرکار کی جانب سے کرفیو اور قدغنوں کی بھی ایک تاریخ رقم ہوئی ہے۔مجموعی طور پر دیکھاجائے تو سال کا کم از کم ایک چوتھائی حصہ ہڑتالوں اور کرفیو کے بہ سبب کاروبار معطل یا متاثر رہتا آیا ہے اور اس کے منفی اثرات ہر طبقہ پر ظاہر ہوتے رہے ہیں لیکن تاجروں کو جن شدید مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے، اُس سے انکار کرنا حقیقت سے منہ چھپانے کے مترادف ہوگا۔ ہر اقدام کو حقیقت سے ہم آہنگ کرنا ہی مناسب اور معقول حکمت عملی کا نام ہے اور سرکار پر یہ لازم ہے کہ وہ کسی بھی فیصلے کو صادر کرتے وقت حقائق کا ہمہ گیر تحلیل و تجزیہ کرکے حکمت عملی ترتیب دے تاکہ اُس سے براہ راست عام انسان متاثر نہ ہونے پائے۔وادی میں فی الوقت کم و بیش ویسی ہی صورتحال بنی ہوئی ہے جو 2008،2010یا 2016میں رہی ہے، اس کے باوجود حکومت کو ایسا اقدام، جو تاجر برادری کی نظروں میںانتہائی نوعیت کا ہے، کیوں کرنا پڑا اسکے بارے میں یہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے کے علاوہ بھیڑ بھاڑ سے پیدا ہونے والے مسائل کا سدباب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خا ص کر، فی الوقت شہر میں ٹریفک جاموں کی وجہ سے روزانہ ہزاروں گھنٹوں کے اوقات کار کی تضیع سے معاشرے کو اقتصادی سطح پر زبردست نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس میں بھی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ شہر اور قصبہ جات کی ہرسڑک اور ہر چوراہے پر طویل تر ٹریفک جاموں کی وجہ سے کاروباری لوگ، تاجر، ماہرین ، مزدور اور طلبہ گھنٹوں پھنس کر رہ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ہزاروں گھنٹوں کا زیاںکروڑوں روپے کے نقصان پر منتج ہوتا ہے۔ لیکن اس کے سدباب کے لئے یک رخی پالیسی اختیار کرنا کہاں کی دانائی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہاں کی سڑکوں اور شاہراہوں کا بنیادی ڈھانچہ وہی ہے جو تقریباً چار دہائیاں قبل تشکیل پایا ہے اور اس عرصہ کے دوران ٹریفک میں کتنا اضافہ ہوا ہے، دونوں میں کوئی برابری ہی نہیں ہے۔ خاص کر گزشتہ ایک عشرہ کے دوران سالانہ ہزاروں کے حساب سے گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب بیرونی ریاستوں سے پرانی گاڑیاں خرید کر یہاں کے بازاروں میں فروخت کرنے کی ایک نئی منڈی کھڑی ہوگئی ہے اور یہ بھی ٹریفک میں اضافہ کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سڑکوں کی وسعت کے مطابق گاڑیوں کی درآمد کے لئے ایک پالیسی تیار کرتی لیکن نہ تو تقاضوں کے مطابق سڑکوں میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور نہ بیرون ریاست سے سکینڈ ہینڈ گاڑیوں کی درآمد کے حوالے سے کوئی مؤثر پالیسی اختیار کی جارہی ہے۔ ایسے حالات میں بازاروں کےلئے جاری کیا گیا تعطیلات کا کلینڈر حقائق سے ہم آہنگ نہیں بلکہ یکطرفہ لگتا۔ لہٰذا اگر تاجر برادری اس حکومتی اقدام پر برہم ہے تو انکی برہمی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ سال میں 48دن کی تعطیلات کو نافذ کرتے وقت ماضی کا ریکارڈ دیکھ کر اس حقیقت کا بھی تعین کیاجانا چاہئے کہ ہڑتالوں، کرفیو اور بندشوں میں کتنے ایام چلے جاتے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ وہ صورتحال کا اس سارے تناظر میں جائزہ لیکر اپنے اقدامات کو حقائق سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرے، وہی سب کےلئے بہتر ہوگا۔ وگرنہ جس عنوان سے تاجر انجمنوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا ہے، وہ ایک نئی منفی روایت کو جنم دے سکتا ہے، جو آگے چل کر سماج کے اجتماعی ڈھانچے پر منفی اثرات کا حامل ثابت ہوسکتا ہے۔