حج اور عمرہ کی تمنا کس مسلمان کے دل میں نہیں ہوگی۔ بہت سے صاحب استطاعت کم از کم ایک بار حج ضرور کرتے ہیں۔ جبکہ بہت سے لوگ کئی بار کرتے ہیں اور کئی ایسے بھی ملیں گے جو سال بہ سال حج کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اسی طرح عمرہ کا فریضہ انجام دینے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے جن لوگوں کو استطاعت بخشی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جذبہ بھی دیا ہے وہ عمرہ کی ادائیگی بھی کرتے ہیں۔ جو ایک بار اس مقدس سرزمین کی زیارت کر لیتا ہے اس کا دل وہاں بار بار جانے کو چاہتا ہے۔ اس سرزمین میں ایسی کشش ہے کہ جس مسلمان کے دل میں ایمان کی ذرا بھی رمق ہوگی وہ موقعے سے چوکے گا نہیں، فائدہ ضرور اٹھائے گا۔ خاکسار نے ہندوستان میں سعودی سفارت خانہ کی دعوت پر دس سال قبل حج کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی اس کے دل میں یہ تمنا رہی کہ اس مقدس سرزمین کی پھر زیارت کی جائے۔ اس نے حج کا سفرنامہ بھی تحریر کیا اور اس کا نام رکھا ’’پھر سوئے حرم لے چل‘‘۔ یہ ایک دعائیہ نام ہے۔ یہ علامہ اقبال کی ایک نظم کے ایک مصرعے کا حصہ ہے۔ مصرعہ یوں ہے ’’بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل‘‘۔ خدا کی قدرت دیکھئے کہ یہ دعا قبول ہوئی اور میں گزشتہ دنوں ایک بار پھر اس سرزمین کی زیارت سے فیض یاب ہوا۔ میں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لیے حرمین کا سفر کیا اور انتہائی ایمانی لذتوں سے سرافراز ہوا۔
آرزوئیں اور تمنائیں!
حج ہو یا عمرہ محض آرزووں اور تمناؤں کے بل بوتے پر ان کی ادائیگی نہیں کی جا سکتی۔ ہر مسلمان کے دل میں یہ آرزو کروٹیں لیتی رہتی ہے لیکن کیا سارے مسلمان حج اور عمرہ کی ادائیگی کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ یہ در اصل فضلِ خداوندی سے مشروط ہے۔ اگر اس کا فضل ہو تو ہم جیسے گناہگار بھی ہزاروں کلو میٹر دور رہنے کے باوجود اس مقدس سرزمین کی زیارت کر لیتے ہیں اور اگر اس کا فضل و کرم شامل حال نہ ہو تو سرزمین حجاز پر برسوں قیام پذیر ہونے کے باوجود بہت سے لوگ نہ حج کر پاتے ہیں اور نہ ہی عمرہ۔ ہمارے ایک شناسا نے بتایا کہ ان کا ایک واقف کار سعودی عرب میں ملازمت کرتا ہے۔ وہ کئی برسوں سے اپنے کفیل سے درخواست کر رہا ہے کہ وہ حج کرنا چاہتا ہے اسے چھٹی دے دی جائے لیکن اس کا کفیل اس کی اجازت نہیں دے رہا اور اگر کسی کے نصیب میں حج کی ادائیگی لکھی ہے تو کوئی نہ کوئی بہانہ بن ہی جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی غیر مسلم اپنے مسلم ملازم کو اپنے صرفے پر حج کی ادائیگی کے لیے بھیج دیتا ہے۔ اس موضوع پر میرا مضمون زیر عنوان ’’گنگا رام کا پیسہ حیات محمد کا حج‘‘ پہلے ہی شائع ہوا ہے۔غرض اگر اللہ تعالی کا فضل و کرم شامل حال نہیں ہے تو آپ پلاننگ کرتے رہ جائیے حج یا عمرہ کی ادائیگی نہیں کر سکتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جب بلاوا آتا ہے جبھی کوئی وہاں جاتا ہے۔ برسبیل تذکرہ یہ ذکر بھی بے محل نہ ہوگا کہ بہت سے لوگ حج اور عمرہ پر جانے سے پہلے کوئی تیاری نہیں کرتے۔ حج کے لیے تو کچھ نہ کچھ ٹریننگ ہوتی ہے لیکن عمرہ کے لیے نہیں ہوتی۔ حج پانچ روزہ جسمانی محنت و مشقت کی عبادت ہے تو عمرہ بھی جسمانی طاقت چاہتا ہے۔ حج اور عمرہ دونوں نوجوانی اور صحت مندی کی عبادتیں ہیں۔ بقول شخصے ’’پہلا عمرہ توڑ کر رکھ دیتا ہے‘‘۔ در اصل اگر خانہ کعبہ کے قریب سے طواف کرنے کا موقع مل جائے تو بیس پچیس منٹ بلکہ اور کم وقت میں طواف مکمل ہو جاتا ہے لیکن عمرہ میں آپ صفا اور مروہ پہاڑیوں کی مسافت کو کم نہیں کر سکتے، خواہ گراونڈ فلور پر سعی کریں یا پہلے اور دوسرے فلور پر۔ ہم نے جب عمرہ پر جانے کا ارادہ کیا اور سعودی سفارت خانے میں برسرکار مولانا نور الہدیٰ سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے حج اور عمرہ کی ادائیگی سے متعلق کئی کتابیں لاکر دے دیں جن کا ہم نے بغور مطالعہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کن کن ارکان کی ادائیگی ضروری ہے اور کن کی عدم ادائیگی سے دم لازم آتا ہے۔ اس کے علاوہ کیا کیا دعائیں یاد ہونی چاہئیں۔ہم لوگ بالخصوص ہماری اہلیہ، کئی برسوں سے عمرہ کا پلان بنا رہے تھے لیکن ہر سال کوئی نہ کوئی ایسی ناگزیر وجہ سامنے آجاتی تھی کہ پروگرام ملتوی کرنا پڑتا تھا۔ بہ الفاظ دیگر اللہ تعالی کی منشا نہیں تھی کہ ہم عمرہ کرنے جائیں۔ لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ہم نے امسال یہ قطعی ارادہ کر لیا کہ عمرہ کرنا ہی ہے۔ میرا پاسپورٹ ایکسپائر ہو گیا تھا، نیا پاسپورٹ بنوایا۔ اب پاسپورٹ بنوانا بہت آسان ہو گیا ہے۔ فارم بھرنے اور پاسپورٹ آفس میں انکوائری کے لیے جانے کے بعد محض پندرہ دنوں کے اندر پاسپورٹ بن کر آگیا۔ جب پاسپورٹ بن گیا تو عمرہ کی خواہش نے اور زور مارا۔ اہلیہ کا اصرار بھی بڑھتا رہا کہ کسی سے بات کیجیے اور ارادے کو عملی جامہ پہنائیے۔ بہر حال ہمارے ایک عزیز جمال الدین نے جو کہ سعودی سفارت خانے میں برسرکار ہیں، مین پاور کا کام کرنے والے اپنے ایک دوست وسیم اکرم سے بات کی۔ خیال تھا کہ فروری کی پندرہ تاریخ کے بعد جب سردی ذرا کم ہو جائے گی، عمرہ کرنے جائیں گے۔ پاسپورٹ دے دیا گیا اور ہمیں یہ بتایا گیا کہ ۱۳ فروری کو ہماری فلائٹ ہے۔ اس درمیان ہم نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں زیر تعلیم اپنے ایک عزیز مولانا محمد شعیب کو بھی اس کی اطلاع دے دی۔ وہ بھی کافی دنوں سے ہم لوگوں کے سفر کے منتظر تھے۔ مولانا شعیب ہمارے پھوپھا زاد بھائی جناب محمد اسلم کے بیٹے اور ہمارے چھوٹے بھائی آصف ہلال انجم کے داماد ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ مدینہ میں انہی کے گھر قیام کیا جائے۔ ان کے بچے بھی وہیں رہتے ہیں۔ ہم لوگوں نے ان سے کہہ دیا کہ جیسا آپ بہتر سمجھیں ویسا کریں گے۔ ہم آپ کی مرضی پر رہیں گے۔
گوئم مشکل وگر نہ گوئم مشکل
ایک ہفتہ قبل ٹریول ایجنسی سے بتایا گیا کہ سعودی ایئر لائنس سے ٹکٹ لے لیا گیا ہے۔ ۱۴ فروری کو شام ساڑھے چھ بجے فلائیٹ ہے لیکن شائد خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ شائد ابھی اس کی مرضی شامل حال نہیں تھی۔ ایک وقت ایسا آیا جب لگا کہ ہم عمرہ کرنے نہیں جا پائیں گے۔ ہوا یوں کہ اسی درمیان مجھے شدید قسم کا وائر ل فیور ہو گیا۔ روزانہ سردی لگ کے بخار آنے لگا۔ اِدھر جانے کا وقت قریب آرہا ہے اور اُدھر بخار کی شدت بڑھتی جا رہی ہے۔ دل زبردست الجھنوں میں گرفتار ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ اللہ پَر دے دے اور ہم اڑ کر چلے جائیں۔ ادھر مشیت ایزدی کچھ اور اشارے دے رہی ہے۔ وائرل کے ساتھ ساتھ گلے کا انفکشن بھی ہو گیا۔ ہم نے اپنے فیملی ڈاکٹر جناب حلیم کوثر چاندپوری صاحب سے رابطہ قائم کیا اور ان سے درخواست کی کہ ایسا علاج کیجیے کہ ہم جلد از جلد ٹھیک ہو جائیں کیونکہ ہمیں عمرہ کرنے جانا ہے۔ ہم نے اپنے دفتر وائس آف امریکہ واشنگٹن سے بھی ۱۳ سے ۲۸ فروری تک کی چھٹی لے لی لیکن بخار کی کیفیت تبدیل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ ڈاکٹر چاندپوری نے کہا کہ میں بہت ہی پرفیکٹ دوا دے رہا ہوں۔ کیونکہ عمرہ کے وقت آپ کو بالکل چاق و چوبند رہنا ہے لیکن بخار تھا کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا تھا۔ لیجیے ۱۳ تاریخ آگئی اور سردی لگ کے بخار آنے کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ ۱۳ کی شام کو پھر ڈاکٹر کے پاس گئے۔ انھوں نے شبہ ظاہر کیا کہ کہیں یہ ٹائیفائڈ نہ ہو۔ اس لیے بہتر ہے کہ آپ اپنا پروگرام ملتوی کر دیں اور کسی اچھے اسپتال میں ٹیسٹ کروا لیں۔ ان کے کلینک سے واپسی پر راستے میں حالت اور خراب ہو گئی۔ بیٹے سلمان فیصل نے گاڑی کو جامعہ کے پاس سڑک کے کنارے روک دیا۔ سردی لگ رہی تھی اور زبردست قسم کی ابکائی آرہی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ قے ہو جائے گی۔ وہیں ہم نے یہ طے کر لیا کہ نہیں جانا ہے کیونکہ سفر کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ سلمان فیصل نے بھی کہا کہ ابو مت جائیے۔ خدا نخواستہ وہاں طبیعت اور زیادہ خراب ہو گئی تو کیا ہوگا۔ میں نے کہا کہ بات تو درست ہے لیکن آپ کی امی کی خواہش کو کیا کیا جائے۔ میں تو حج کر چکا ہوں اور اس سرزمین کو دیکھ چکا ہوںلیکن آپ کی امی کو پہلی بار جانا ہے۔ اگر نہیں جا سکیں تو ان پر کیا گزرے گی؟ گھر آئے تو پھر رات میں سردی کے ساتھ شدید بخار آگیا۔ رات ہی میں ٹریول ایجنسی والوں کی طرف سے فون آیا کہ انجم صاحب تیار ہیں نا۔ کل ایئرپورٹ پر ملاقات ہوگی۔ میں نے ان کو پوزیشن بتائی۔ انھوں نے ہمت بندھانے کی کوشش کی اور کہا کہ وہاں بھی ڈاکٹر ہوتے ہیں، آپ کا علاج کریں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر نہیں جائیں گے تو آپ کا بہت نقصان ہو جائے گا۔ ظاہر ہے ہم دو لوگ تھے۔ مالی اعتبار سے کافی برداشت کرنا پڑتا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ ابھی تو میری پوزیشن جانے کی نہیں ہے۔ اگر کل ٹھیک رہا تو جاؤں گا ورنہ نہیں۔
اندیشہ ہائے دور دراز
۱۴ فروری کی صبح ہو گئی۔ ہم نے ہولی فیملی اسپتال جا کر خون کا نمونہ دیا تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ کہیں یہ ٹائیفائڈ تو نہیں ہے۔ دل و دماغ پر عجیب کیفیت طاری ہے۔ بخار کی وجہ سے کمزوری بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ لیکن طبیعت یہی چاہ رہی ہے کہ جلد ازجلد تیاری کر لی جائے اور نکل چلا جائے۔ بے چینی نے گھیر رکھا ہے۔ لیکن یہ اندیشہ بھی گھر کھائے جا رہا ہے کہ اگر گئے اور وہاں زیادہ بیمار پڑ گئے تو کیا ہوگا۔ ہمارے ایک دوست ماسٹر اقبال صاحب جو کہ ہماری ہی گلی میں رہتے ہیں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاد ہیں، وہ بھی دو سال قبل عمرہ کرکے آئے ہیں۔ ان کی اہلیہ نے بتایا کہ ان کے گروپ کے دو افراد جو کہ میاں بیوی تھے، وہاں پہنچتے ہی بیمار پڑ گئے تھے۔ وہ اسپتال میں داخل رہے اور پندرہ دنوں کا وقفہ ختم ہو گیا۔ وہ جیسے گئے تھے ویسے ہی آگئے۔ ان کا عمرہ نہیں ہو سکا۔ لہٰذا یہ اندیشہ ہمیں کھائے جا رہا تھا کہ کہیں ہمارا سفر بھی بے کار نہ ہو جائے اور عمرہ کرنے کے بجائے صرف طیارے سے آنا جانا ہی ہو۔ دو بجے تک جو ایئرپورٹ کے لیے گھر سے ہمارے نکلنے کا وقت تھا دل و دماغ کی عجیب کیفیت رہی۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ رہا۔ دل چاہ رہا تھا کہ کہاں چلے جائیں کہ سکون مل جائے۔ گھڑی کی سوئی نے بہت جلد دو بجا دیے۔ اس کے بعد یعنی ایئرپورٹ جانے کا وقت جب نکل گیا تو طبیعت پر پژمردگی طاری ہو گئی۔ شام کے وقت رپورٹ آئی جس میں وائرل بتایا گیا تھا۔ شام کو پھر ڈاکٹر کے پاس گئے۔ انھوں نے دیکھا اور کہا کہ اچھا ہوا آپ نہیں گئے۔ کیونکہ وائرل میں یہ قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی کہ کب بخار آئے گا اور کب نہیں آئے گا۔
عالم تصور میں
ادھر دو بجے کے بعد میں عالم تصور میں ائیرپورٹ پہنچ گیا۔ وقت جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے، قافلے کے لوگ بھی پہنچتے جا رہے ہیں۔ ہمارے گروپ میں کل ۲۳؍ افراد ہیں۔ سب رفتہ رفتہ پہنچ گئے۔ لوگ ایئرپورٹ کی مسجد میں جمع ہیں۔ عصر کا وقت قریب ہوا تو لوگوں نے وضو کیا اور نماز ادا کی۔ اس کے بعد احرام باندھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ کسی کو باندھنا آتا ہے کسی کو نہیں۔ جس کو نہیں آتا اسے کوئی تجربہ کار شخص بتا رہا ہے۔ بڑی خوش کن صورت حال ہے۔ بڑی مسرت آمیز گھڑی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو رات ہی میں جدہ پہنچ جائیں گے۔ وہاں سے بذریعہ بس مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوں گے۔ نماز فجر سے قبل ہوٹل میں داخل ہوں گے اور پھر سامان وغیرہ رکھ کر عمرہ کی ادائیگی کے لیے حرم شریف کوچ کر جائیں گے۔ میں ایئرپورٹ کی مسجد کے کنارے کھڑا چشم تصور سے ان لوگوں کو دیکھ رہا ہوں۔ ان کے حوصلے پڑھ رہا ہوں۔ ان کی قسمت پر رشک کر رہا ہوں۔ اسی کے ساتھ اپنی بے چارگی پر اشک فشاں بھی ہوں۔ حسرت بھری آہ نکل رہی ہے کہ کاش میں بھی ان خوش بختوں میں شامل ہوتا۔ لیکن قسمت کو کیا منظور ہے مجھے نہیں معلوم۔ رفتہ رفتہ بورڈنگ کا وقت ہو گیا اور میں نے نگاہ تصور سے دیکھا کہ تمام مؤتمرین جہاز میں داخل ہونے کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔ میں اپنے خیالات اور جذبات و احساسات کو سمیٹ کر عالم تخیل سے عالم حقیقت میں واپس آگیا۔ لیکن دل و دماغ جہاز میں گشت کر رہے ہیں اور یہ دیکھ دیکھ کر معتمرین کو دعائیں دے رہے ہیں کہ وہ دو سفید چادروں میں ملبوس کس طرح اپنی نشستوں پر جلوہ افروز ہیں۔ بس کچھ گھنٹوں کی بات ہے۔ پھر وہ اس مقدس سرزمین پر قدم رکھیں گے جس کی تمنا ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے۔ (باقی باقی)