بارشوں کا موسم اور حشرات کی یلغار فکرو ادراک

ڈاکٹر رفعت سلطانہ

تقریباً سبھی لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ برسات میں عموماً زیادہ تعد اد میں نظر آنے والے حشرات ،جیسےچیونٹیاں، کاکروچ، مکڑیاں اور پروانے پتنگے وغیرہ جو زیر زمین کی نمی کا تناسب بڑھ جانے کے باعث اپنے آشیانوں سے باہر آجاتے ہیں۔ ان کی تلاش خشک جگہوں کے ساتھ غذائی ضرورت بھی ہوتی ہے ۔مچھروں کی Breeding کے لیے تالاب اور جہاں کہیں پر بھی پانی ٹھہرا ہوا ہو، وہ موزوں ترین جگہیں ہیں۔ مچھر اپنے انڈے تالاب پاپانی کے گڑھے میں دیتے ہیں اور بارش یہ موقع بآسانی فراہم کرتی ہے۔اگر بارش کے بعد آپ کو گملوں یانالوں میں ٹھہرے ہوئے پانی کو قریب سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ چھوٹے چھوٹے ننھے منے لڑکھڑاتے ہوئے لاروا صرف بالغ مچھر میں تبدیل ہونے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا جہاں پر بھی ٹھہرا ہوا پانی ہوگا، مچھروں کی افزائش اتنی ہی زیادہ ہوگی ۔ برسات میں دیمک کے حملے کو نظر انداز نہ کریں۔

اسی طرح برسات میں زہریلے جانداروں میں سانپ، بچھو کے حملے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ دونوں خطرناک ترین جاندار تصور کیے جاتے ہیں اور ان کا شدید حملے پر کاٹنا موت کا بھی باعث بن سکتا ہے۔

WHO کے مطابق کاکروچ کو الرجین کے ذریعہ ذمہ اور محرک کے طور پر خطرناک ترین تصور کیا جاتا ہے یہ پھیپھڑوں کی بیماریوں کو بڑھاتا ہے۔ اس طرح چوہوں کی وافر مقدار برسات کے دوران گھر کے مکینوں کی کئی طرح کی ان گنت پریشانیوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ مثلاً کئی مہلک pathogenکے ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی کے تاروں کی تقریباً برقی آلات کو نقصان پہنچانا جو کہ پھر شاٹ سرکٹ کا باعث بنتے ہیں ،جس سے کئی سنگین واقعات رونما ہوجاتے ہیں۔ مہلک جانداروں کی فہرست میں سینٹی ہیڈ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، عموماً آبی ذخائر کے قریب خاص کر باتھ روم، واشنگ ایریا اس کے خاص مسکن ہیں ۔یہ ایک زہریلی مخلوق ہے جو بارشوں کے ساتھ ہی نازل ہوتی ہے اور اس کازہر بہت ہی زہریلا اور خطرناک ترین تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے کاٹنے سے شدید درد سوزش ، سرخ جلد، الرجی، قے، سردرد کے ساتھ ساتھ دوسری کئی پیچیدگیاں شامل ہیں۔ لہٰذا بارش میں سیلاب زدہ علاقوں میں بلاوجہ گھومنے پھرنے سے احتیاط کی جائے۔ مچھر چونکہ ڈینگی، بخار، ملیریااور اسیفلائٹس کا موجب بنتے ہیں۔ WHO کے مطابق سالانہ برسات کے موسموں میں تقریباً 30فی صد شرح ڈینگی میں اضافہ رپورٹ ہوا ہے ۔لہٰذا ہنگامی اقدامات کی اشد ضرورت ہے اور ساتھ ساتھ ملیریا ، چکن گنیااور ٹائیفائیڈ جیسی مہلک اور جان لیوا بیماریاں بھی اس موسم میں عام ہوتی ہیں اور ان کا شدید انفکشن جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔

ان بیماریوں کے عام اثرات میں بخار، کمزوری اور جسم میں درد جیسی علامات قابل فکر ہونی چاہیے۔ مچھروں کی افزائش نسل کی نسل کشی اور ان جگہوں کی تلفی سے ہی صرف اس کاممکن اور پائیدار حل ہے۔ لہٰذا مچھروں کی Breeding کی جگہوں پر کیمیکلز اور insecticdes کا اسپرے کیا جائے اور ان تمام جانداروں سے جو کہ برسات کی آمد کے ساتھ ہی مختلف جگہوں پر نظر آتے ہیں۔ ذیل میں کچھ احتیاطی تدابیر تجاویز کی جارہی ہیں، ان پر عمل پیرا ہوکر بھی حشرات سے بچائو کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ مثلاً٭گھروں، باغات اور کھلی جگہوں پر حشرات کی اسریننگ کو ممکن بنایا جائے٭حشرات کے دوسرے داخلی مقامات کومسدود کیا جائے٭کھڑے پانی کے نکاس کا فوری انتظام کریں یہ جگہیں حشرات کے لیےموزوں ترین ہیں٭کیڑوں کو دور رکھنے کے لیے کیڑے مار اسپرے یا لوشن کا استعمال کیا جائے٭رات کے وقت روشنی کا استعمال کم کریں عموماً حشرات روشنی کی طرف کشش رکھتے ہیں٭اپنے گھر کے ساتھ ساتھ اردگرد کے ماحول کو بھی صاف رکھیں۔یہ اقدامات بارش میں کیڑوں سے محفوظ رہنے میں مدد گار اور آپ کو مختلف بیماریوں سے بچانے میں معاون ثابت ہونگے۔ بارشیوں نے کھڑی فصلوں پر بڑے مضر اثرات مرتب کئے، جس کی وجہ سے فصل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ پانی کی زیادتی پودوں کی جڑوں کو نقصان پہنچاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے اور ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ بھاری مقدار میں پانی فصلوں میں فنگس اور بیکٹیریا پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے جو پودوں میں کئی امراض کو جنم دیتا ہے اور پودے بغیر پروان چڑھے گل سڑ کر ختم ہوجاتے ہیں۔ اس طرح پانی کی زیادہ مقدار جذب ہوجانے کی وجہ سے سبزیوں اور پھلوں کا معیار گر جاتا ہے اور یہ وقت سے پہلے خراب ہوجاتی ہیں۔ بارشوں کا مسلسل ہونا زمین میں موجود کھاد اور غذائی عناصر کو پانی کے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے، جس سے فصلوں کو مناسب مقدار میں غذائیت نہ ملنے سے ان کی نشوونما کے ساتھ ساتھ غذائی مقدار اور ذائقہ پر بھی فرق پڑتا ہے اور پھلوں اور سبزیوں کی مانگ میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں ملتی ہے۔ درج ذیل تجاویز پر عمل پیرا ہوکر ہم کسی حد تک اپنی زرعی اراضی کو نقصان سے بچاسکتے ہیں۔

٭کھیتوں میں نکاس کا خاطر خواہ انتظام ہو،تا کہ اضافی پانی کو باہر نکالا جاسکے۔ کھیتوں میں نالیوں کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے، تاکہ پودے زائد پانی کی فراہمی سے بچ سکے۔

٭مٹی کی اوپری سطح پر (Mulch) کا استعمال کیا جائے، تاکہ زمین میں نمی برقرار رہے اور پانی کے بہائو کو کنٹرول کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ زمین کی ذرخیزی متاثر نہیں ہوگی۔٭زمین کی تیاری میں سوراخ دار تیکنیک کا استعمال کیا جائے، تاکہ پانی زمین میں بہتر انداز سے جذب ہوسکے اور جڑوں تک مناسب مقدر میں پہنچ سکے۔ اس طرح پودے اپنا توازن قائم رکھ سکے گے۔٭فصلوں کی بوائی بروقت اور موسم کے حساب سے کی جائے، تاکہ بھاری بارش کے دوران پودے مستحکم رہیں اور ان کا نقصان کم سے کم ہو۔٭بارش کے بعد کھیتوں میں فوری طور پر مناسب مقدار میں کھاد ڈالی جائے ،تاکہ جو نمکیات اور دوسرے ضروری اجزاء کی کمی ہوتی ہے اس کو فوری طور پر پورا کیا جائے اور صل کی شادابی متاثر نہ ہو۔٭کھیتوں کے اطراف میں درخت لگائے جائے ،تاکہ براہ راست ہوا کے پریشر کو روکا جاسکے۔ اس طرح پودے زیادہ متاثر نہیں ہونگے۔

یہ تمام وہ احتیاطی تدابیر ہیں جن کو اپنا کر یقیناً کسان برادری اپنی فصلوں کی بہترین حفاظت کرسکتے ہیں اور فصلوں کو بروقت نقصان سے بچایا بھی جاسکتا ہے ۔