ایس معشوق احمد
پچھلے سات سالوں میں ڈاکٹر رمیشا قمر کی سات کتابیں شائع ہوکر ان کے شوق اور ادب سے لگاؤ کی گواہی دے رہی ہیں۔ان سات کتابوں میں کچھ انہوں نے مرتب کی ہیں جن میں غضنفر کے ناولوں کا ضخیم کلیات آبیاژہ ،غضنفر کے فکر وفن کے حوالے سے ایک ضخیم کتاب غضنفر شناسی اور عصر حاضر کے معتبر افسانہ نگاروں کے تیرہ افسانوں کو انہوں نے کتابی شکل دی اور نام رکھا اردو کی تیرہ نئی مقبول کہانیاں۔ان کا شوق اور جنون نہیں رکا بلکہ انہوں نے قلم اور کتاب سے خود کو جوڑے رکھا اور ادب سے لگاؤ کی پرورش کرتی رہی ۔حال ہی میں وہ اپنی نئی اور منفرد کتاب” بات کرکے دیکھتے ہیں” لے کر ہمارے سامنے آئی۔اس کتاب کو میں منفرد ان معنوں میں کہتا ہوں کہ یہ انٹرویوز کا مجموعہ ہے اور اس کے مطالعے سے ہمیں اردو کے بارہ بڑے فنکاروں کے خیالات جاننے کا موقع ملتا ہے۔”باتیں ہماری یاد رہیں گی” میں ڈاکٹر رمیشا قمر نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے پہلا انٹرویو غضنفر کا لیا ہے جو بعد میں رسالہ ثالت میں شائع ہوا ۔ اس انٹرویو کی جب خوب پذیرائی ہوئی تو ان کے حوصلوں کو پر لگے اور یوں یہ سلسلہ چل نکلا۔کتاب کی فہرست پر نظر ڈالیں تو بارہ اہل قلم کی فہرست معمولی نظر آتی ہے اور قاری سوچتا ہے کہ بارہ کا انتخاب ہی کیوں؟ اس میں مزید اضافہ کیوں نہ کیا گیا لیکن کتاب کی ضخامت جب دو سو پچپن صحفات تک پہنچ جاتی ہے اور سوالات کی نوعیت دیکھ کر تسلی ہوجاتی ہے کہ بارہ اہل قلم سے کھل کر باتیں کی جائیں تو بارہ بھی بہت ہوتے ہیں۔
کتاب کی شروعات سلام بن رزاق سے ہوئی ہے اور اس کا اختتام الطاف یوسف زئی سے مکالمے پر ہوا ہے۔مجھے نہیں خبر کہ اقبال حسن آزاد نے حافظ کرناٹکی اور خواجہ محمد اکرام الدین سے پہلے لکھنا شروع کیا ہے یا نہیں۔فہرست دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ حافظ کرناٹکی اور خواجہ محمد اکرام الدین نے موصوف کے بعد اپنے خیالات کو حوالہ قرطاس کیا ہے۔ انٹرویو سے قبل تمام مصنفین کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے اس کے بعد ان سے سوالات کئے گئے ہیں ۔کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ انٹرویو سے قبل ان تمام ادبی اور علمی شخصیات کی تصویر کے دیدار ہوتے ہیں۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پہلے ان اہل قلم کے نین نقش اور بعد میں ان کے خیالات اور علمی لیاقت سے قاری محظوظ ہوتا ہے۔
کسی شخصیت کو مکمل جاننے کا بھید یہ ہے کہ اس سے بات چیت کی جائے ۔اس راز سے ڈاکٹر رمیشا قمر واقف نظر آتی ہے جب ہی انہوں نے ان شخصیات سے بات کرکے دیکھا ہے۔ بات سے بات نکلتی ہے اور باتوں باتوں میں بہت ساری باتیں سامنے آتی ہیں۔رمیشا قمر نے جن اہل قلم سے بات کرکے دیکھا ہے ان کے ساتھ انہوں نے یک طرفہ کلام نہ کیا بلکہ ان سے بھی کام کی باتیں کہلوائی ہیں، ان کی کچھ نجی باتیں ، ان کے خیالات ، ان کے تخلیقی سفر کے متعلق باتیں ، اردو کے متعلق باتیں ، تخلیق کار کی تخلیق اور ناقدین کی ناقدانہ بصیرت کے متعلق باتیں ، ان کے دیگر اصناف میں طبع آزمائی کرنے کی باتیں ، معاصرین کے متعلق باتیں ، اسلوب اور تکنیک کی باتیں ، فن اور ریاضیت کی باتیں غرض بات کرکے دیکھتے ہیں میں رمیشا قمر نے باتیں کرکے دیکھی ہیں اور یہ باتیں فضول نہیں بلکہ شخصیت کی مختلف پرتوں کو کھولنے اور انہیں جاننے کے لئے ضروری ہیں۔
کتاب کا عنوان بڑا معنی خیز ہے یعنی بات کرکے دیکھتے ہیں۔ باتیں تو ہر شخص کرتا ہے اور رمیشا بھی سوچتی ہے کہ بات کرکے دیکھتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ وہ کس سے بات کرنا چاہتی ہے؟ کیا وہ کسی سیاسی لیڈر سے بات کرنی کی خواہ ہے ؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہوگا۔ کیا کسی مذہبی رہنما سے وہ بات کرکے فیض پانا چاہتی ہے؟ اس کا جواب بھی نہیں ہے۔پھر رمیشا بات کس سے کرنا چاہتی ہے، جواب سیدھا سا ہے کہ ان کا تعلق ادبی دنیا سے ہے اور وہ ان ادباء سے بات کرنا چاہتی ہےجنہوںنے ادبی دنیا میں اپنے کارناموں سےمنفرد مقام پایا ہے ۔ان تخلیق کاروں سے وہ بات کرنا چاہتی ہے جنہوں نے فکشن کی دنیا کو اپنے قلم کی سیاہی سے روشن رکھا ہے ، ان انشاء پردازوں سے وہ بات کرنے کی خواہش رکھتی ہے جنہوں نے افسانے رقم کئے تو وہ شوق سے پڑھے گئے ، ناول تخلیق کئے تو ان کا شمار ادب عالیہ میں ہوا ، تنقید لکھی تو کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا ، جو مختلف اور متنوع خصوصیات کے حامل ہیں اور جن کی فکر ارفع اور خیالات اعلی ہیں۔ان ادبی شان رکھنے والوں سے بات کرنا اور ان کی باتیں سننا کس کو پسند نہ ہوں گی۔
دوسرا اہم سوال ہے کہ بات تو کرنی ہے لیکن ذریعہ (میڈیم) کیا ہے۔کیا رمیشا قمر نے روبرو اور دوبدو ان سے باتیں کی ہیں یا خط و کتابت کا سہارا لیاہے۔رمیشا قمر نے دوسرا طریقہ اختیار کیا ہے( پہلا طریقہ اختیار کیا ہوتا تو سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر ان کے ویڈیو ضرور ہوتے) انہوں نے ان ادباء سے خط وکتابت کے ذریعے ان سے رابطہ کرکے سوالات کئے ہیں جب ہی یہ سوالات اہم ہے کہ سوچ بچار کے بعد انہوں نے ہر ایک کی شخصیت کو مدنظر رکھ کر یہ سوالات پوچھے ہیں۔چند سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات ہر تخلیق کار سے جاننے کی کوشش کی ہے جیسے کوئی فن پارہ تخلیق کرتے وقت کی کیفیت ، اسلوب اور انفراد کے متعلق سوالات ، اردو اور سوشل میڈیا کے متعلق سوالات ، پسندیدہ فن پاروں کے متعلق سوالات وغیرہ۔ مجموعی طور پر کتاب بڑی مفید ہے کہ اس میں ان باتوں اور بھیدوں سے قاری واقف ہوتا ہے جو اکثر اہل قلم حضرات کے متعلق قارئین سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ میں اس کتاب کے لئے ڈاکٹر رمیشا قمر کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
رابطہ۔8493981240
[email protected]